ذاتی مفادات کی دہلیز پر سجدہ ریز رہنا انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ ایک خاص حد تک تو انسان خود غرض ہوتا ہی ہے۔ خود غرض ہونا فی نفسہٖ بُری بات نہیں۔ اگر کسی کو اپنا مفاد عزیز ہے تو اِس سے اچھی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ آپ نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے اور بہت سوں سے آپ کا واسطہ بھی پڑا ہوگا جو اپنے بارے میں خوب سوچتے اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ پہلی نظر میں تو یہ بات بہت بُری لگتی ہے کہ کوئی اپنے بارے میں سوچے مگر ذرا ٹھہریے! سکون سے حالات کا جائزہ لیجیے، غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے بارے میں سوچنا کسی بھی اعتبار سے قابلِ اعتراض بات نہیں۔ زور دیا جاسکتاہے تو صرف اس بات پر کہ انسان صرف اپنے بارے میں نہ سوچے بلکہ متعلقین اور ماحول کے بارے میں بھی سوچے، بلکہ سوچا کرے۔ خود غرضی انسان کو بہت سے معاملات میں ارتقا سے ہم کنار رکھتی ہے۔ مثبت نوعیت کی خود غرضی یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے پر متوجہ ہو۔ ایسی حالت میں انسان معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ کارگر ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے بھی زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ آپ نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو اپنی صلاحیت اور مہارت کا دائرہ وسیع تر کرتے جاتے ہیں۔ اُن کی متواتر کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو اُن سے کچھ نہ کچھ خاص ملتا ہی رہے۔ یہ سوچ کسی بھی اعتبار سے غلط نہیں۔ اگر کوئی معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر متوجہ ہوتا ہے اور دوسروں کے بھی کام آتا ہے تو اِس سے اچھی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے۔
معاشرہ ایسے لوگوں کے دم سے چلتا ہے جو مثبت سوچ کے ساتھ زندگی کو اپناتے ہیں اور دوسروں کو اپنی ذات سے بہت کچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی کا حُسن جن باتوں سے قائم رہتا ہے اُن میں دوسروں کے کام آنے کی صفت بھی شامل ہے۔ ہر انسان زیادہ سے زیادہ مفادات کا حصول یقینی بنانا چاہتا ہے۔ اگر وہ اِس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے بارے میں بھی سوچ لیا کرے تو ایسا کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ نفسی امور کے ماہرین اس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ پُرسکون زندگی بسر کرنے کے لیے انسان کو دوسروں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ صرف اپنے وجود تک محدود رہنے کی سوچ زندگی کے پورے ڈھانچے کو محدود کردیتی ہے۔ زندگی اگر پنپتی ہے تو صر ف اس بات سے کہ انسان صرف اپنا بھلا نہ چاہے۔ کبھی کچھ دیر گوشہ نشینی اختیار کیجیے اور سوچ کر تو دیکھیے کہ اگر سارے ہی انسان صرف اپنے بارے میں سوچیں تو اس دنیا کا حال کیا ہو۔
زیادہ سے زیادہ انفرادی فوائد بٹورنے کی سوچ اور اِس حوالے سے اپنائی جانے والی طرزِ عمل انسان کو انتہائی محدود سوچ کا حامل بنادیتی ہے۔ جب سوچ محدود ہو جائے تو پورا وجود محدود ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان دوسروں کے کام کیا آئے گا‘ اپنے کام کا بھی نہیں رہتا۔ زندگی صرف جھوٹ سے چل سکتی ہے؟ آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا اور ہونا بھی چاہیے۔ ہم اگر جھوٹ ہی بولتے رہیں تو صرف دوسروں کا نہیں‘ اپنا بھی نقصان کرتے رہیں گے۔ جھوٹ بولنا وقتی فائدہ پہنچا سکتا ہے، تادیر نہیں چل سکتا۔ جھوٹ بولتے رہنے کی صورت میں انسان اپنی نظر میں بھی گرتا جاتا ہے۔ جھوٹ کے ہاتھوں انسان اپنے وجود کو اس قدر محدود کرلیتا ہے کہ پھر اُس کے لیے بحالی تقریباً ناممکن ہوکر رہ جاتی ہے۔ اور سچ بولنا کیسا ہے؟ سچ تو ہے ہی سب سے بڑی مثبت قوت۔ انسان کو سچ ہی اپنانا ہے۔ سچ بولنا اور سچ سننا‘ یہ دو عظیم کیفیتیں‘ عظیم نعمتیں ہیں۔ جو لوگ سچ بولتے ہیں وہ اپنی نظر میں بھی بلند رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی زیادہ قابلِ قبول ٹھہرتے ہیں۔ سچ کے دم قدم سے دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ سچ میں دوئی نہیں ہوتی، ابہام نہیں ہوتا، دھوکا نہیں ہوتا۔
تو پھر کیا سبب ہے کہ لوگ سچ بولنے سے راہِ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ ہمیں معاشرے میں عمومی سطح پر ہر طرف صرف جھوٹ کیوں دکھائی دیتا ہے اور لوگ سچ کو اپنانے سے گریز کی راہ پر کیوں چلتے رہتے ہیں؟ سچ اگر واقعی نعمت ہے تو لوگ اِس نعمت کو گلے لگانے سے مجتنب کیوں رہتے ہیں؟ سچ محض نعمت نہیں، امتحان بھی ہے، آزمائش بھی ہے۔ بسا اوقات یہ امتحان جاں گُسل مرحلے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان سچ بولے تو مارا جاتا ہے اور سچ نہ بولے تو اندر ہی اندر شکست و ریخت شروع ہو جاتی ہے، ضمیر گلا گھونٹنے لگتا ہے۔ قابلِ قدر اور قابلِ تعظیم زندگی وہ ہے جس میں سچ دکھائی دے۔ سچ انسان کو کردار کی رفعت سے نوازتا ہے۔ جنہیں سچ بولنے کی عادت ہوتی ہے وہ کسی بھی معاملے میں اپنے ضمیر کا گلا گھونٹنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر کبھی شدید مجبوری کی حالت میں اُنہیں سچ بولنے سے گریز کرنا پڑے تو دل پر بوجھ سا رہتا ہے۔ یہی کردار کی بلندی کی سب سے نمایاں علامت ہے۔ آج ہمارے ہاں معاشرتی سطح پر جو شدید بگاڑ پایا جاتا ہے اُس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے ایک ایسی طرزِ حیات اپنائی ہوئی ہے جو سچ اور جھوٹ کا ملغوبہ ہے۔ جب ہم سچ اور جھوٹ کو ملادیتے ہیں تب سچ بھی سچ نہیں رہتا اور جھوٹ کا فائدہ بھی کچھ خاص باقی نہیں رہتا۔ اگر کسی کو ایسا کرنا ہی پڑے تو ''معقول‘‘ طریقہ یہ ہے کہ سچ بولنے سے گریز کرے اور صرف جھوٹ کا سہارا لے۔ صرف جھوٹ بولنے سے یہ ہوگا کہ سچ کا گلا گھونٹنے کی صورت میں دل پر جو کچھ بوجھ پڑتا ہے وہ نہیں پڑے گا۔ انسان اگر صرف جھوٹ کو اپنائے تو سچ کو قتل کرنے، اُس کا گلا گھونٹنے کے الزام سے بہر حال چھوٹ جاتا ہے۔ دانش کا تقاضا صرف یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو انسان سچ بولے اور جھوٹ کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کرے۔ جھوٹ کو آپشن کی حیثیت سے قبول کرنے والوں کے لیے جھوٹ کی راہ پر گامزن رہنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اگر جھوٹ کو آپشن سمجھا ہی نہ جائے تو سچ رہ جاتا ہے اور اُسی کو گلے لگانا چاہیے۔
وقت انسان کے لیے مشکلات بھی پیدا کرتا رہتا ہے اور آسانیاں بھی۔ آسانیاں ہمیں شناخت اور تلاش کرنا ہوتی ہیں۔ مشکلات کو ڈھونڈنا نہیں پڑتا۔ وہ خود ہم تک پہنچ ہی جاتی ہیں۔ دنیا کا نظام ترتیب ہی اس طور دیا گیا ہے کہ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، مشکلات سے مکمل نجات یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ کامیابی صرف سچ کے ذریعے ممکن بنائی جاسکتی ہے اور وہ بھی ایک خاص‘ معقول حد تک۔ مشکلات باقی رہتی ہیں۔ یوں بھی ہے کہ ہر مشکل اس قابل نہیں ہوتی کہ اُس پر متوجہ ہوا جائے، اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوا جائے۔ سچ کی راہ پر چلتے رہنے سے بہت سی مشکلات خود بخود ختم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بیشتر مشکلات جھوٹ کی دُم پکڑ کر ہم تک پہنچتی ہیں۔ جب ہم جھوٹ کو مستقل طرزِ فکر و عمل کا درجہ دیتے ہیں تب بہت سی الجھنیں اور مشکلات ہمارے گھر میں بسیرا کرلیتی ہیں۔ سچ اور جھوٹ کو ایک پیج پر لانے کی کوشش وقت، وسائل اور توانائی‘ تینوں کا ضیاع ہے۔ انفرادی سطح پر حقیقی اور مطمئن کرنے والی کامیابی کا تجزیہ کیجیے گا تو جان پائیے گا کہ سچ کو اپنے وجود سے دیس نکالا دینے والے ہی زندگی کو متوازن اور مستحکم رکھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ سچ اور جھوٹے کے ملغوبے پر مشتمل زندگی بسر کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ اور اِس بھی بڑھ کر، یہ تو اپنے وجود سے غداری ہے۔ قدرت نے زندگی کی شکل میں جو نعمت عطا فرمائی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اُسے پورے توازن سے برتا جائے، سچ اور جھوٹ کو یکجا کرنے کے بجائے صرف سچ کے ذریعے جیا جائے۔ آج کا ہمارا معاشرہ سچ اور جھوٹ کے ملغوبے کا ایک نمائندہ مظہر ہے۔ ہم نے سچ کو سچ نہیں رہنے دیا اور جھوٹ کا مزا بھی کرکرا کردیا ہے! سچ پسند نہیں تو جھوٹ ہی کو پوری ''دیانت‘‘ سے اپنایا جائے۔ ایسے میں محترم ظفر اقبالؔ کا مشورہ کتنا صائب ہے ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اُس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے