اب پانی گلے تک آچکا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اس بات کو پوری شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ جو زندگی وہ بسر کرنا چاہتے ہیں وہ تو ممکن نہیں ہو پا رہی اور جیسی زندگی بسر کی جارہی ہے وہ اُن کی مرضی کی نہیں بلکہ تراشی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بسر کرنا پڑ رہی ہے وہ زندگی محض ذہنی بوجھ ہے‘ اور کچھ نہیں۔ یہ زندگی کس نے تراشی ہے؟ بہت سوں نے مل کر تراشی ہے۔ یہ بہت سے کون ہیں؟ کاروباری ادارے‘ اور کون؟آج کی کاروباری دنیا فرد پر اِس بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے کہ آنکھوں دیکھی باتوں پر بھی یقین نہیں آتا۔ بعض معاملات میں تو ہم محض خوابوں کی نہیں بلکہ جادو کی نگری میں جی رہے ہیں۔ قدیم داستانوں میں جادو کی جس نگری کا ملتا ہے وہ کیسی ہوتی تھی؟ ایسی کہ جس میں انسان کو اپنے آپ پر اختیار نہ رہے۔ جادو نگری کی سیر کرنے والے بس دیکھتے ہی رہ جاتے تھے اور اُن کی آنکھوں کے سامنے معاملات کچھ کے کچھ ہو جایا کرتے تھے۔ کیا آج کی دنیا میں ویسا ہی نہیں ہو رہا؟ جادو نگری میں بھی تو انسان محض تماشائی بنا رہتا تھا۔ آج کی دنیا میں بھی انسان محض تماشائی ہے۔ اِس سے زیادہ وہ کیا ہو سکتا ہے؟ آج ہماری زندگی میں جو کچھ بھی رونما ہو رہا ہے وہ سب کا سب ہماری مرضی کا ہے نہ ہمارے مفاد میں۔ بہت کچھ ہے جو زندگی کا حصہ ہے مگر زندگی کو اُس سے فائدے کے بجائے محض نقصان پہنچ رہا ہے اور ہم اس معاملے میں محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم محض تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں، اِس سطح سے بلند کیوں نہیں ہو پا رہے؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کیجیے تو ایسا لگتا ہے کہ تقدیر نے ہمیں جادو نگری کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سوچنے بیٹھیے تو ذہن تھوڑی ہی دیر میں ہانپنے لگتا ہیِ، اُس کی سانس پھول جاتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ انسان کو قدم قدم پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کوئی سمیولیشن ہے، کمپیوٹر پروگرام ہے۔ اور ہم؟ ہم اِس پروگرام کے کردار ہے۔ زندگی وڈیو گیم جیسی ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ انسان نے ذہن کو بروئے کار لانا چھوڑ دیا ہے۔ کسی بھی انسان کو ذہن سے کام نہ لینے کی کب سوجھتی ہے؟ جب معاملات میں آسانیاں دکھائی دے رہی ہوں۔ آج کے انسان کو ہر معاملے میں صرف آسانیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ذہن کو بروئے کار لائے بغیر جیا جائے۔ اب عام آدمی کو ذہن کی ضرورت رہی نہیں۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ ٹیکنالوجیز کی بھرمار نے معاملات کو سمیت کر وہاں پہنچادیا ہے جہاں کسی بھی انسان کو ذہن سے بہت زیادہ کام لینے کی حاجت محسوس نہیں ہوتی۔
ایسا وقت دنیا پر کبھی نہیں آیا تھا؟ چار‘ پانچ صدیوں پہلے جب انسان نے فطری علوم وفنون کے حوالے سے غیر معمولی پیشرفت کی طرف بڑھنا شروع کیا تھا تب زندگی کا رخ تبدیل ہونے کی ابتدا ہوئی تھی۔ فطری علوم و فنون کے معاملے میں انسان کا گزرے ہوئے تمام ادوار کی دانش کو پیچھے چھوڑنا بہت عجیب سا لگا تھا۔ کائنات کو مسخر کرنے کی دوڑ شروع ہوئی تو انسان نے جَست لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اعلیٰ ترین ذہن سامنے آئے تو کائنات کی گتھیاں سلجھتی گئیں۔ چار‘ پانچ صدیوں کے دوران انسان نے جو کچھ سیکھا اور کیا اُس کا مجموعی ہمارے سامنے ہے۔ تمام ٹیکنالوجیز ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس بات کی منتظر رہتی ہیں کہ ہم اُن سے مستفید ہوتے رہیں۔ کاروباری اداروں نے ایسا ماحول تیار کیا ہے جس میں ہمارے لیے فرار کی راہ باقی نہیں رہی۔ آن لائن کلچر نے ناگزیر کردیا ہے کہ ہر انسان کے پاس سمارٹ فون ہو۔ انٹرنیٹ کے ذریعے جو کچھ بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ اب ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ایسا بہت کچھ خریدیں جو ہمیں پسند ہے نہ ہمارے لیے مفید ہی ہے۔
دنیا بھر کے ذہین ترین اور بااثر ترین کاروباری اداروں نے مل کر ایک ایسی دنیا تیار کی ہے جس میں سب کچھ اُن کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ اِس دنیا کے سارے کردار یعنی تمام معاشروں کے عوام محض کٹھ پتلی سے ہوکر رہ گئے ہیں۔ کاروباری دنیا اپنی مرضی کا ماحول پیدا کرنے کی ماہر، شوقین اور عادی ہے۔ معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ کاروباری ادارے کسی بھی چیز کی طلب پیدا کرنے پر آتے ہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ چیز ''ٹرینڈ‘‘ کرنے لگتی ہے۔ ''ٹرینڈنگ‘‘ کے کلچر نے انسان کا جینا حرام کردیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اب کسی بھی چیز کو ذہنوں میں یوں گھسیڑا جارہا ہے کہ کوئی چاہے یا نہ چاہے‘ مجبور ہوکر اُسے اپنانا ہی پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ اِس طور ہو رہا ہے کہ انسان کا اپنے دل و دماغ پر بظاہر اختیار رہا ہی نہیں۔ کسی سنیما ہال میں بیٹھا ہوا شخص جب مووی دیکھ رہا ہوتا ہے تب وہ محض تماشائی ہوتا ہے۔ مووی میں جو کچھ پیش کیا گیا ہو وہ بلا چون و چرا قبول کرنا پڑتا ہے۔ اُس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ بالکل ایسا ہی معاملہ آج کے انسان کا بھی ہے۔ وہ محض تماشائی بن کر رہ گیا ہے۔ اُس کے اختیار میں بظاہر کچھ بھی نہیں۔
کاروباری دنیا نے ہر معاملے کو کنزیومر اِزم کی چوکھٹ تک پہنچادیا ہے۔ انسان کو محض کمانے اور خرچ کرنے والے حیوان میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ آج کے انسان کو قدم قدم پر زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ کیا ہماری زندگی صرف اس لیے ہے کہ زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر میں کھپادی جائے، زیادہ سے صَرف کے رجحان کی نذر کردی جائے؟ کیا ہمیں اِس دنیا کا حصہ محض اس لیے بنایا گیا ہے کہ ہر وقت زیادہ سے زیادہ مادّی آسائشوں کے حصول کی فکر میں غلطاں رہیں، صرف یہ سوچتے رہیں کہ کس طور زیادہ سے زیادہ سہولتوں کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے؟ زندگی یقینا محض مادّیت کی چوکھٹ پر قربان کرنے والی چیز نہیں۔ یہ اِس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔ ہمیں سوچنا ہے مگر سوچنے پر مائل ہونے کی توفیق نصیب نہیں ہو رہی۔ حبابؔ ترمذی نے خوب کہا ہے ؎
ستاروں میں اُلجھ کر رہ گئی ہے
یہیں تک ہے نظر کی دسترس کیا؟
ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمیں قدرت نے گوناگوں صفات کے ساتھ خلق کیا ہے مگر ہم محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہمیں کسی نے محدود نہیں کیا، خود ہماری اپنی طرزِ فکر و عمل یہ کام کر گزری ہے۔ کاروباری دنیا ہو یا کوئی اور دنیا‘ ہمیں کسی بھی معاملے میں فکر و نظر اور ذوق و شوقِ عمل کے حوالے سے محدود نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی آجائے، اگر انسان طے کرلے کہ اپنے حواس پر طاری نہیں ہونے دے گا تو وہ ٹیکنالوجی حواس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔
آج کے انسان کو طے کرنا ہے کہ اپنے وجود کو بھی اہمیت دینی ہے یا محض کنزیومر اِزم کی دلدل میں دھنسے رہنا ہے۔ کننزیومر اِزم کا مطلب محض یہ نہیں کہ انسان زیادہ سے زیادہ اشیا و خدمات کے حصول کے لیے سرگرداں رہے۔ یہ دراصل طرزِ فکر و عمل کا نام ہے۔ جب ہم اپنے تمام معاملات صرف اور صرف مادّہ پرستی کی نذر کردیتے ہیں تب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم کنزیومر اِزم کو پیارے ہوگئے ہیں۔ یہ وہ کنواں ہے جس میں گہرائی بھی بہت ہے اور پانی بھی نہیں ہے۔ آج کی دنیا چونکہ فطری علوم و فنون کے عروج کی دنیا ہے اس لیے انسان کو مختلف معاملات میں بہت بُری طرح آزما رہی ہے۔ ظاہر نے ہر معاملے میں باطن کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ قدم قدم پر صرف ظاہر کو اہمیت دی جارہی ہے۔ باطن محض تماشائی ہوکر رہ گیا ہے۔ زندگی کو الجھنوں نے گھیرا ہوا ہے مگر یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ بیشتر الجھنیں پیدا نہیں کی گئی ہیں بلکہ پیدا ہونے دی گئی ہیں۔ انسان کو محض تماشائی کی حیثیت سے نہیں جینا۔ جینے کا یہ ڈھنگ کسی بھی طور قابلِ ستائش ہے نہ قابلِ قبول۔ وقت ہمیں آزما رہا ہے۔ اس آزمائش میں پورا اُترنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم انسان ہونے کی حیثیت سے اپنے مقام کو نہ بھولیں۔ ظاہر پر قربان ہو رہنا ہمارا منصب نہیں۔ باطن کی بھی کچھ فکر لاحق رہنی چاہیے۔ باطن کی تطہیر ہی ظاہر کو پاک رکھے گی۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ کنزیومر اِزم کی دلدل میں دھنسے رہنے کا شوق ختم کیا جائے۔