"MIK" (space) message & send to 7575

آج زیادہ ضرورت ہے

یوسف صاحب یعنی دلیپ کمار کو آج بھی ٹریجڈی کنگ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بالی وُڈ میں اپنے لیے جو مقام بنایا وہ غیر معمولی محنت اور انہماک کا نتیجہ تھا۔ کیریئر کے ابتدائی مراحل میں وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ چار‘ پانچ ناکام فلموں کے بعد اُنہیں نور جہاں کے ساتھ ''جگنو‘‘ ملی جس کے ڈائریکٹر نور جہاں کے شوہر شوکت حسین رضوی تھے۔ 1947ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم نے ملک کے خراب حالات کے باوجود کامیابی حاصل کی۔ اس فلم سے دلیپ کمار نے عروج کی طرف سفر شروع کیا۔ پھر اُن کی فلمیں کامیاب ہوتی چلی گئیں۔ معاملہ یہ رہا کہ جب ''انداز‘‘ میں انہوں نے ناکام عاشق کا کردار شاندار انداز سے ادا کیا تو ڈائریکٹرز نے انہیں ٹائپ کاسٹ کر ڈالا یعنی اُنہیں یکساں نوعیت کی فلمیں دی جانے لگیں۔ دلیپ صاحب مزاجاً بھی سنجیدہ تھے۔ وہ اپنے کام پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔ وہ یکے بعد دیگرے ایسی فلموں میں کام کرتے گئے جن میں اُنہیں ناکام عاشق دکھایا جاتا تھا اور فلم کے آخر میں اُن کا مرنا بھی لازم ہوتا تھا۔ یہ کردار اُنہوں نے اِتنی عمدگی اور کامیابی سے ادا کیے کہ پھر اُنہیں ٹریجڈی کنگ کہا جانے لگا۔ یہ ٹیگ اُن کے نام سے جُڑ گیا اور ڈائریکٹرز نے اُنہیں کسی اور روپ میں دیکھنا چھوڑ ہی دیا۔ نتیجہ؟ دلیپ صاحب بیمار پڑگئے۔ ناکام عاشق کا کردار اُن کی جان کا روگ بن گیا۔ معاملہ اِتنا بگڑا کہ اُنہیں فلموں سے ''سنیاس‘‘ لے کر لندن جانا پڑا۔ لندن میں وہ اُس دور کے بہترین ماہرینِ نفسیات سے ملے، اپنا مسئلہ بیان کیا اور مدد چاہی۔ مشورہ دیا گیا کہ وہ المیہ فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیں اور چند ہلکی پھلکی فلمیں کریں۔
دلیپ صاحب کے مزاج کی سنجیدگی تو نہیں گئی مگر ہاں‘ اُنہوں نے ایسی فلموں میں کام کرنا شروع کیا جن میں اُن کے لیے شدتِ جذبات سے ہٹ کر بھی کچھ کر دکھانے کی گنجائش تھی۔ یوں لوگوں نے دلیپ صاحب کا وہ روپ بھی دیکھا جو کم دکھائی دیا تھا۔ چند ہلکی پھلکی فلموں میں کام کرنے سے دلیپ صاحب کے کیریئر کو استحکام بھی ملا۔ ڈائریکٹرز نے اُنہیں ایسی فلمیں دینا شروع کیا جن میں کامیڈی کا عنصر نمایاں ہوتا تھا۔ کوہِ نور، لیڈر، آزاد، رام اور شیام اور گوپی ایسی ہی فلمیں تھیں جن میں اُن کی ہلکی پھلکی اداکاری بے حد پسند کی گئی۔ جب کسی راہ پر چلتے چلتے یکسانیت تمام معاملات پر حاوی ہونے لگے تو کچھ نیا کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اور سوچنا کیا چاہیے، کچھ نیا کرنا ہی چاہیے۔ یہ معاملہ ہر انسان کا ہے۔
انسان ایک ہی ڈگر پر چلتے چلتے اُوب جاتا ہے۔ اگر کچھ نیا کر دکھانے کی گنجائش نہ نکالی جائے تو زندگی تھم سی جاتی‘ ٹھہرے ہوئے پانیوں جیسی ہو جاتی ہے۔ بہتا ہوا پانی ہی تازگی کا حامل اور زندگی کا علمبردار ہوتا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانیوں پر کائی جمتی ہے جو اُس کی خرابیوں کا مظہر ہوتی ہے۔ کم و بیش ہر انسان کو عملی زندگی کے حوالے سے تمام معاملات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ جمود کسی بھی معاملے میں اچھی چیز نہیں۔ جمود یعنی ایک ہی کام کرتے رہنا، ایک ہی سوچ کا حامل ہونا۔ زندگی بدلتے رہنے کا نام ہے۔ پیشرفت کی گنجائش تبدیلی سے پیدا ہوتی ہے۔ انسان خود کو بدلتا ہے تو معاشی اور معاشرتی زندگی میں آگے بڑھتا ہے۔ اگر دوست اچھے نہ ہوں تو انسان دوست بدلتا ہے۔ اِسی میں دانش مندی ہے۔ اگر کوئی ضرورت محسوس ہونے پر بھی دوست نہ بدلے یعنی نئے لوگوں سے دوستی نہ گانٹھے تو سمجھ لیجیے اُس کی دانش ... مندی ہے! نئے لوگوں سے دوستی شخصیت کو پروان چڑھاتی ہے۔ ذہنی طور پر توانا انسان اپنے دوستوں کو نئی زندگی دیتا ہے۔ اُس کی طرزِ فکر زندگی کی علامت اور امین ہوتی ہے۔ وہ اپنی سوچ سے نئی راہیں سجھاتا ہے۔ آج زندگی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ قدم قدم پر انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے۔ ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو ہمیں بدلتے رہنے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ اب کوئی بھی انسان اِس بہانے کا سہارا بھی نہیں لے سکتا کہ خود کو کیسے بدلے، معاملات ہی موافق نہیں۔ جسے تبدیل ہونا ہو اُس کے لیے موافق حالات کی کمی کل تھی نہ آج ہے۔
جدید ترین ٹیکنالوجیز نے انسان کو پابند کردیا ہے کہ ہر آن اپنے معاملات کا جائزہ لیتا رہے اور وہ سب کچھ کرتا رہے جو ناگزیر ہے۔ ناگزیر معاملات کو ٹالنے سے زندگی کا توازن بگڑتا ہے۔ فی زمانہ تبدیلی ناگزیر معاملہ ہے۔ اس ایک معاملے سے بیسیوں معاملات جُڑے ہوئے ہیں۔ وہ زمانے ہوّا ہوئے جب انسان کسی ایک شعبے سے وابستہ ہوکر پوری عملی زندگی بسر کرلیتا تھا۔ جب فطری علوم و فنون نے شاندار پیش رفت نہیں کی تھی تب زندگی کی رفتار بھی کم تھی۔ یہ بھاگ دوڑ نہیں تھی۔ یہ بدحواسی نہیں تھی۔ یہ زبردستی کا اضطراب نہیں تھا۔ زندگی قدرے پُرسکون تھی۔ جو کچھ بھی کرنا ہوتا تھا اُس کے لیے زیادہ دوڑ دھوپ نہیں کرنا پڑتی تھی۔ یہ سب کا مزاج تھا۔ تب غیر معمولی تیزی دکھانے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ عمومی مزاج میں سست رفتاری تھی اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ کوئی بھی زیادہ تیزی نہ دکھائے۔ معاملہ یہ بھی تھا کہ بہت تیزی دکھانے والے پریشان رہتے تھے کیونکہ اُن کے مزاج سے مطابقت رکھنے والا مزاج کم ہی دکھائی دیتا تھا۔ آج معاملہ یہ ہے کہ ہر انسان کو تیزی دکھانی ہے۔ کسی بھی معاملے میں بہت زیادہ پُرسکون ہونے اور پُرسکون رہنے کی گنجائش برائے نام رہ گئی ہے۔ آج کی دنیا کسی کو پُرسکون رہنے دینے کے مُوڈ میں نہیں۔
ایسے ماحول میں نفسی پیچیدگیوں کا بڑھنا فطری امر ہے۔ فی زمانہ کوئی بھی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ مکمل طور پر مستحکم ذہن کا مالک ہے۔ ذہنی الجھنوں نے ہر انسان کو پریشان کر رکھا ہے۔ ظاہری معاملات باطن پر بھی خطرناک حد تک اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اب اگر کوئی کسی طور پُرسکون رہنے کی گنجائش پیدا کر بھی لے تو لوگ اُس کا سکون غارت کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ ماحول ہی ایسا ہوگیا ہے کہ جو اپنے باطن کی آواز سن کر اپنی مرضی کے مطابق اور اپنے مزاج سے مطابقت رکھنے والی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے وہ تماشا بن جاتا ہے۔ زندگی کو متوازن رکھنا بنیادی شرط ہے۔ اگر اس معاملے پر متوجہ نہ ہوجائے تو ذہن و دل پر بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ہم نے دلیپ صاحب کی مثال دیکھی کہ وہ ایک طرف جھک گئے تھے اس لیے پریشان ہوئے اور پھر اپنی راہ بدلی۔ اب ہر انسان کو اس مرحلے سے گزرنا ہے۔ جس راہ پر چلتے چلتے یکسانیت زندگی کی بنیادی قدر بن جائے وہ راہ کسی بھی طور ہمارے لیے موزوں ترین نہیں گردانی جاسکتی۔ اب ہر ایک کو اپنے معاملات کا مستقل بنیاد پر اور پوری توجہ کے ساتھ جائزہ لینا پڑتا ہے۔ آج ظاہر کی دنیا بہت نمایاں ہے۔ زندگی کا ہر پہلو ظاہر کی چمک دمک کے دائرے میں گھومتا دکھائی دے رہا ہے۔ زندگی یقینا اِتنی نہیں ہے، اِس سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ آگے ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ زندگی کا حسن اس بات کا متقاضی رہتا ہے کہ اُس پر توجہ دی جائے، اُسے نکھارا جائے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب انسان ظاہر اور باطن کے درمیان توازن بر قرار رکھے۔ اِس کے لیے تبدیل ہوتے رہنا لازم ہے۔ یکسانیت کی راہ پر چلتے چلتے انسان صرف جمود کی منزل تک پہنچ پاتا ہے۔ جمود یعنی ٹھہراؤ! سوال ٹھہراؤ کا نہیں‘ ٹھہراؤ میں پائے جانے والے فرق کو سمجھنے کا ہے۔ ایک ٹھہراؤ تو یہ ہے کہ انسان زندگی بھر کسی ایک ہی شعبے سے وابستہ رہے اور یکساں نوعیت کی معاشی سرگرمیوں میں اپنے آپ کو کھپادے۔ یہ ٹھہرے ہوئے پانیوں والا معاملہ ہے۔ جوہڑ کا پانی گندا ہوتا چلا جاتا ہے۔ دریا میں پانی تازہ اور توانا رہتا ہے کیونکہ محوِ سفر رہتا ہے۔ اور ایک ٹھہراؤ یہ ہے کہ انسان زبردستی کی تیزی نہ اپنائے، ٹھہر ٹھہر کر چلے اور اپنے وجود کے باطنی پہلو کو نظر انداز نہ کرے۔ تیزی اور ٹھہراؤ کے درمیان کوئی بھی تیسرا پہلو نہیں۔ ہاں‘ اِن دونوں کے امتزاج کی مدد سے بھی جیا جاسکتا ہے مگر کم ہی لوگ اس امتزاج کا حق ادا کر پاتے ہیں۔
آج کا انسان وہاں کھڑا ہے جہاں صرف تیزی ہی سب کچھ دکھائی دے رہی ہے۔ تیزی سب کچھ نہیں۔ مگر ہاں‘ ٹھہراؤ بھی سب کچھ نہیں۔ حالات سے مطابقت رکھنے والی رفتار ہی معقول ترین طرزِ فکر و عمل ہے اور آج اِس کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں