کسی مسئلے کو بار بار پس منظر میں دھکیل کر کوشش کی جا رہی ہو کہ یہ وقت کی گرد میں دب کر ‘ختم ہو جائے گااور وہ دو چار برسوں کے بعد‘ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ پھر سامنے کھڑا ہو جائے‘ تو مان لینا چاہیے کہ وقت کی گرد‘ اسے ختم نہیں کر پائے گی بلکہ ہر مرتبہ جب یہ پھر سے ابھر کے سامنے آئے گا‘ تو اس کی شدت پہلے کی نسبت بڑھتی جائے گی۔پاکستان میں نئے صوبوں کا قیام‘ ایک ایسا ہی سوال ہے۔ دیہات اور شہروں کی آبادی بڑھتی گئی مگر انتظامی اور تعمیراتی ڈھانچوں میں تبدیلی کی رفتار سست رہی۔ 1948ء کے بعد لاہور میں تھانوں‘ سڑکوں‘ بجلی ‘پانی کی سپلائی کا نظام‘ ہسپتالوں‘ سکولوں اور کالجوں کی تعداد میں آبادی کی مناسبت سے اضافہ نہ ہوا۔ دوسرے شہروں کے حالات بھی مختلف نہ تھے۔ اس عدم توازن کی بنا پر شہروں کی پہچان ہی مشکل ہو گئی۔ کراچی کا حال اس سے بھی برا ہے۔ یہ شہر بہت ہی چھوٹا تھا۔ آبادی میں انتہائی تیزرفتار اضافے کی وجہ سے اس کی گنجائش تین عشروں کے دوران‘ ہر قسم کی ضروریات کے لئے کم سے کم تر ہوتی گئی۔ شہری سہولیات ‘ اضافۂ آبادی کے طوفان کے سامنے اپنا وجود برقرار رکھنے میںبری طرح ناکام ہونے لگیں۔ آج حالت یہ ہے کہ وہ پرتعیش آبادیاں‘ جہاں شہر کے امیرترین لوگ رہتے ہیں‘ عالی شان بنگلوں میں رہنے والے‘ نل کے پانی سے محروم ہیں اور انہیں اپنی ضروریات کے لئے پانی کے ٹینکر خریدنا پڑتے ہیں۔ یہ تھا وہ شہر جس کی سڑکیں ہفتے کی رات صفائی کرنے والے کیمیاوی مرکبات سے دھوئی جاتی تھیں۔
آزادی کے وقت کراچی ایک چھوٹا سا خوبصورت ساحلی شہر تھا۔ پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت یہاں سے غیرمسلموں نے قلیل تعداد میں ہجرت کی تھی۔ نوواردان کے لئے اس شہر میں رہائشی سہولتیں دستیاب نہیں تھیں۔ چھوٹا سا شہر تھا۔ تھوڑے لوگوں نے نقل مکانی کی تھی۔ ان کی چھوڑی ہوئی رہائش گاہیں‘ بہت کم تعداد میں تھیں۔ مہاجرین انتہائی کم عرصے کے دوران لاکھوں کی تعداد میں یہاں آباد ہونے کے لئے آ گئے۔ وسائل اس قدر نہیں تھے شہر کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہوا‘ اتنی تیزی سے شہری سہولتیں مہیا نہ کی جا سکیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی جھگی جھونپڑوں کا شہر بن گیا۔آج جہاں بڑی بڑی عمارتیں‘ جدید سڑکیں‘ مارکیٹیںاور گیس‘ بجلی‘ پانی کی سہولتیں مہیاہو چکی ہیں‘ وہاں پر جھگیاں اور جھونپڑے ہوا کرتے تھے۔ لیاری ندی کے دونوں کناروں پر جھونپڑوں کی بستیاں بن گئی تھیں۔ مزار قائدؒ کے گرد تمام کھلی جگہوں پر جھگیاں بن گئیں۔ موجودہ لالو کھیت‘ پورے کا پوراجھونپڑوں کا شہر تھا اور چاروں طرف یہی حالت تھی۔ جس تیزی سے مہاجرین کراچی میں آئے‘ اتنی تیزی کے ساتھ دنیا کا امیر سے امیر ملک بھی شہری سہولتیں فراہم نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود کراچی کی ہر انتظامیہ نے اپنے وسائل کے مطابق شہری سہولتیں مہیا کرنے کی کوششیں کیں اور منصوبہ بندی کے تحت ان گنت آبادیاں معرض وجود میں آ گئیں۔ جب جھگیوں کی جگہ کوارٹر لیتے گئے‘ تو ان کے قرب و جوار میں پختہ مکان بھی بننے لگے اور اس طرح کراچی میں طرح طرح کی ثقافت‘ بودوباش‘ لباس اور مختلف لسانی شناختیں رکھنے والے ایک ساتھ رہنے لگے تواس شہر کے نئے خدوخال ابھرنے لگے۔ 1980ء تک یہ شہر پرامن ماحول میں‘ ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔
1980ء کے عشرے کی ابتداء میں افغان جہاد اور کراچی کے شہری ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ ایک ساتھ شروع ہو گیا۔ اس جہاد سے پہلے تک شہر میں تمام تہذیبی اور لسانی گروہ ہم آہنگی کے ساتھ ایک ہمہ جہتی کلچر کی نشوونما کرتے‘ نئی اقدار اور نئی روایات کی داغ بیل ڈالنا شروع کر چکے تھے۔ یہ درست ہے کہ بھارت سے آئے ہوئے مہاجرین تعلیم‘ ہنرمندیوں اور منظم شہری زندگی کے شعبوں میں‘ اپنے سندھی بھائیوں سے بہت آگے تھے۔ سندھ کی معیشت زرعی اور جاگیردارانہ تھی‘ اس لئے سندھیوں کی اکثریت جدید ہنرمندی سے محروم‘ کھیت مزدوروںاور چھوٹے دکانداروں پر مشتمل تھی جبکہ کچھ جاگیردار اور گنتی کے چند تاجر جدید زندگی اور معیشت کی ضروریات کو سمجھتے تھے۔ سندھ میں تجارت کے بڑے حصے پر غیرمسلموں کا قبضہ تھا‘ جن کی اکثریت ترک وطن کر گئی تھی اور تعلیم کے شعبے میں بھی اکثریت غیرمسلم استادوں پر مشتمل تھی۔ تقسیم کے بعد جو سندھی‘ صنعت و تجارت ‘ تعلیم اور بیوروکریسی کے شعبوں کی سدھ بدھ رکھتے تھے‘ وہ بھی چلے گئے۔ نتیجہ ظاہر تھا‘ ترقی کی دوڑ میں سندھی مطلوبہ افرادی قوت کی ضروریات پوری نہ کر سکے۔ ان سارے شعبوں کو سنبھالنے کے لئے مہاجر ہی بڑی تعداد میں دستیاب تھے۔ آزادی کے چند سال بعد سندھیوں نے بھی تعلیم اور ہنرمندیوں کی صلاحیتیں پیدا کرنا شروع کیں اور جیسے جیسے تعلیم یافتہ اور ہنرمند سندھی نوجوان آگے بڑھنے لگے‘ انہیں ترقی یافتہ شعبوں میں داخل ہونے کے مناسب مواقع نہیں مل رہے تھے۔ سندھی احساس محرومی کا شکار ہونے لگے۔ صوبائی حکومت نے کوٹہ سسٹم متعارف کرادیا۔ نہ تو مہاجر کسی منصوبہ بندی کے تحت کلیدی اور اعلیٰ آسامیوں پر فائز ہوئے تھے اور نہ سندھیوں نے منصوبہ بندی کے تحت علم و ہنر میں قابلیت حاصل کرنے کے بعد نوکریوں کے مطالبے شروع کئے تھے۔ دونوں قیادت کی نااہلی اور حالات کے جبر کا شکار ہوئے۔ ایسی صورتحال میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تخلیقی صلاحیتوں کی حامل سیاسی قیادت کی ضرورت پڑتی ہے‘ جو نئے مواقع ‘ نئی ضرورتوں اور وسعت پذیر شہری سہولتوں کی ترقی کے عمل میں ‘ آبادی کے مختلف حصوں کی خواہشات کے مطابق ماحول پیدا کرے۔ مگر بڑے شہروں میں اس طرح کا ماحول پیدا کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ممبئی بھی اسی مسئلے سے دوچار رہتا ہے۔ وہاں کی مرہٹہ آبادی ہمیشہ بیرونی محنت کشوں اور ہنرمندوں کی مہاراشٹر میں آمدسے خفا رہتی ہے اور اکثر وہاں مقامی آبادی اور نئے آنے والوں میں تصادم ہوتے رہتے ہیں۔ حال میں بہاری محنت کشوں کے خلاف تشدد کی مہم چلائی گئی تھی‘ جس میں ہزاروں بہاریوں کو کام کاج چھوڑ کے بھاگنا پڑا۔ 1980ء تک کراچی کی انتظامیہ اور عوام اپنے لئے پیدا ہونے والے نئے نئے مسائل حل کرنے کے تجربات کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ انسانی آبادی کا ایک نیا ریلا اچانک اور غیرمتوقع طور پر شہر میں داخل ہو گیا۔ اس چیز کی کسی کو امید نہیں تھی۔ مہاجرین کی آمد‘ برصغیر کی تقسیم کا ایک فطری نتیجہ تھی اور نئی پاکستانی قوم نے مہاجرین کی جتنی بڑی تعداد کو اپنے نئے قومی وجود کا حصہ بنایا‘ تاریخ میں اس کی مثال کم ملتی ہے۔ کراچی کا ہاضمہ ایک مختلف کلچر‘ مختلف زبان اور مختلف طرزبودوباش کے لاکھوں اجنبی لوگوں کو ہضم کرنے کے قابل نہیں تھا۔کراچی کی پرانی آبادی پختو ن ‘ افغانوں اور افغانستان کی دیگر قومیتوں پر مشتمل تھی۔ یہ اتنے اجنبی تھے کہ کراچی میں رہنے والے ان کے ہم زبان پختونوں کے لئے بھی غیر تھے۔ ان لوگوں نے اپنی علیحدہ بستیاں بنائیں اور اپنے نو گو ایریاز قائم کر لئے۔ کراچی میں آباد پاکستانی پختونوں نے جتنے بھی کاروبار سنبھال رکھے تھے‘ ان پر افغان پختون ہاتھ مارنے لگے۔ اپنے قبائلی نظام کے اندر رہتے ہوئے‘ انہوں نے جو اسلام اختیار کر رکھا ہے‘ اس کا برصغیر کی اسلامی تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔ برصغیر کے اسلام میںجبر کا دخل نہیں ہوتا۔ سب ایک دوسرے کے عقیدے اور مسلک کا احترام کرتے ہیں اور مل جل کے رہتے ہیں۔مگر افغان مہاجرین کے مذہب میں برداشت کی گنجائش نہیں۔ انہوں نے کراچی میں بھتہ خوری اور ہفتہ وصولی کے شعبے پر بڑی حد تک قبضہ کر لیا ہے۔ مساجد اور محلوں میں‘ وہ اپنے ہی اسلام کو مسلط کرنے کے لئے طاقت آزمائی کرنے لگے ہیں۔ جو پاکستانی پختون کراچی کو اپنا چکے ہیں‘ اس نئی یلغار سے وہ بھی پریشان ہیں۔ کراچی کے معاشی‘ سیاسی اور تہذہبی معاملات بے حد پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ یہاں کے مسائل حل کرنے کے لئے نئی سوچ اور اپروچ کی ضرورت ہے۔ جبکہ وہاں کی سیاسی قیادتیں ابھی تک پرانے فارمولوں کے تحت شہری مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہتی ہیں۔ بے شک کراچی کے شہری مسائل‘ ملک کے دوسرے حصوں سے مختلف ہیں لیکن بنیادی مسائل کو پورے ملک کے ساتھ ملا کر دیکھناہو گا اور کراچی کے مسائل کا حل بھی اسی میں ہے۔