پنڈورا بکس نہ کھولیں!

وزیر اعظم نواز شریف نے خانہ جنگی کا خطرہ دور کرنے کے لئے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کر کے بلاشبہ ایک تاریخی اقدام کیا۔ بقول وزیر اعظم یہ امن کے لئے آخری موقع تھا۔ ابتدائی رابطوں اور تیاریوں کے طور پر تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان‘ دونوں کی طرف سے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں‘ جن کا بنیادی کام دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر اکٹھا کرنے تک محدود تھا۔ اس کے بعد اصل فیصلے حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہونا تھے۔ یہ کمیٹیاں 20 دنوں تک مذاکرات کی سمت میں تو کوئی پیش رفت نہ کر سکیں؛ البتہ آئین کو متنازعہ بنانے کے لئے ایک ایسی بحث چھیڑ دی جو پاکستان کی پوری تاریخ میں ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کا ذریعہ رہی۔ آئین سازی کے سوال پر ڈیڑھ دو سال پہلے تک تباہی و بربادی کا سلسلہ جاری رہا۔ تب کہیں جا کر 2012ء میں ریاست کی بنیادی دستاویز مکمل ہوئی۔ اس کے بعد خیال تھا کہ آئین پر تباہ کن اور اعصاب شکن تنازعات ختم ہو جائیں گے اور ہم بھی دیگر اقوام کی طرح تحریری یا روایات پر مبنی مستقل آئین کے تحت‘ اداروںاور سیاسی نظام کو استحکام دینے میں مصروف ہو جائیں گے۔ 
مذاکراتی کمیٹیاں بننے سے پہلے‘ آئین کہیں بھی زیر بحث نہیں تھا۔ حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر بات چیت ہونا تھی اور وہ یہ کہ دہشت گردوں کو پُرامن اور معمول کی زندگی میں واپس لا کر بلاوجہ کی خونریزی سے روکا جائے۔ نہ حکومت پاکستان اس سے زیادہ کچھ کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور نہ تحریک طالبان پاکستان۔ آئین کے بارے میں اگر کہیں سوال اٹھایا جا سکتا ہے تو وہ صرف پارلیمنٹ ہے۔ لیکن ماضی کے تلخ تجربات سے اگر ہمیںکچھ سیکھنا چاہیے تو اس میں پہلا سبق یہ ہے کہ اب آئین کو انتہائی ناگزیر صورتحال کے بغیر نہ چھیڑا جائے گا۔ مگر اپنی مذاکراتی ٹیم کے ذریعے‘ طالبان کی طرف سے پہلا پیغام ہی یہ دیا گیا کہ و ہ پاکستان کے موجودہ آئین کو نہیں مانتے۔ یہ اندازہ کرنا محال نہیں کہ اس مطالبے کے پیچھے پاکستان کے بعض سیاسی عناصر کا بھی ہاتھ ہے‘ جو چاہتے ہیں کہ بے پناہ نقصانات اٹھانے کے بعد‘ ہم نے سیاسی استحکام کے جس راستے پر قدم رکھا ہے‘ اس پر مزید آگے نہ بڑھ سکیں اور ایک بار پھر آئینی جھگڑے شروع کر کے‘ ماضی کی تباہ کن تاریخ دہراتے رہیں۔
طالبان اور ان کے حامیوں کو شاید اس کا اندازہ نہ ہو کہ پاکستان کس کربناک اور اعصاب شکن صورتحال سے گزرتا ہوا‘ ایک متفقہ آئین تک پہنچا ہے اور طالبان نے اسلام کا نام لے کر ہمارے آئین کو متنازعہ بنانے کی جو کوشش کی ہے‘ اس کا بھی کوئی جواز موجود نہیں۔ انہیںمعلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے آئین کو پارلیمنٹ کی آخری منظوری تک‘ اسلامی اصولوں کے تحت مرتب کرنے کے عمل میں ملک و قوم کیسے کیسے مرحلوں اور امتحانوں سے گزرے ہیں؟ آئین پر نئی بحث چھیڑنے کے آرزومندوں کی یاددہانی کے لئے میں پاکستان میں آئین سازی کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور آزمائشوں کا اجمالی سا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ 
پاکستان اور بھارت دونوں نے 1947ء میں آزادی کے بعد ایک عبوری آئینی انتظام کے تحت اپنے سفر کا آغاز کیا۔ یہ عبوری آئین انڈین انڈیپینڈنٹ ایکٹ 1947ء پر مبنی تھا۔ بھارتی قیادت نے آزادی حاصل کرتے ہی ڈاکٹر امبیدکر کو آئینی مسودے کی تیاری پر مامور کر دیا۔ انہوں نے مختصر عرصے میں آئینی مسودہ تیار کر کے‘ پارلیمنٹ کی آئینی کمیٹی کے حوالے کیا۔ اس آئینی مسودے پر 2 سال 11 مہینے 18 دن بحث ہوئی 2 دن‘ رسمی کارروائیوں میں لگ گئے۔ اس دوران بھارت کا پورا آئین کاتبوں سے لکھوایا گیا‘ جس کے ہر صفحے پر آرٹسٹوں نے ہاتھ سے خوبصورت نقش و نگار میں رنگ بھر کے حاشیہ لگایا۔ ایسی 2 کاپیاں تیار کی گئیں۔ 26 جنوری 1950ء کو آئین منظور کر لیا گیا۔ آئین کی منظوری سے چند ماہ بعد تک‘ اس میں ضروری ترامیم ہوتی رہیں‘ جیسے سوشلسٹ اور سیکولر کے الفاظ کی وضاحت کو 1956ء میں آئین کا حصہ بنایا گیا۔ ان بنیادی اور لازمی تبدیلیوں کے بعد‘ آئینی تقدس کی روایت جڑ پکڑنے لگی۔ بعد ازاںبھارتی آئین میں ہونے والی ترامیم انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں ابھرنے والی نئی سیاسی سوچ کے مطابق تو ہندو اکثریت کے ملک میں‘ ایک اچھوت کا بنایا ہوا آئین برداشت ہی نہ کیا جاتا۔ لیکن بھارت کے تمام مذہبی اور نسلی گروہوں کی نمائندہ پارلیمنٹ نے‘ آزاد ملک کا آئین نافذ کر دیا۔ بھارت میں آئین کے احترام کی روایات کو اتنا تقدس حاصل ہے کہ دو تہائی اکثریت بھی کئی معاملات میں آئینی ترمیم کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی۔ مثلاً بھارتی پارلیمنٹ میں خو اتین کی نشستیں مخصوص کرنے کے سوال پر‘ وہاں کی بڑی پارٹیاں متفق ہیں لیکن انہیں آئین میں ترمیم کرنے کا حوصلہ نہیں پڑا۔ 
بھارت اور پاکستان دونوں ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے تھے۔ بھارت نے 3 سال کے اندر اندر اپنا نظام مملکت‘ نئے آئین کے تحت چلانا شروع کر دیا اور پندرہ بیس سال کے مختصر عرصے میں آئینی روایات قائم ہونے لگیں اور آج بھارت میں آئینی روایات کا بڑی حد تک برطانیہ کی طرح احترام کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں آئین سازی کی کہانی انتہائی دردناک ہے۔ ہم 23 سال تک تو عبوری آئین کے تحت امور مملکت چلاتے رہے۔ قومی اسمبلی کو شروع ہی سے آئین ساز ادارے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ لیکن مذہبی حلقوں کی طرف سے دبائو شروع ہو گیا کہ پاکستان کے آئین کو اسلامی ہونا چاہیے۔ اس بحث میں وقت کے ساتھ ساتھ تلخی اور محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہوتی گئی۔ مذہبی عناصر کے دبائو کے ساتھ‘ اقتدار کی کشمکش نے بھی جڑیں پکڑ لیں۔ یہ کشمکش ہمہ جہت تھی۔ ایک طرف مذہبی عناصر آئین کو اسلامی بنانے پر مصر تھے۔ دوسری طرف گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے درمیان اقتدار کی کشمکش شروع ہو گئی اور تیسرا تنازعہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے نمائندوں کے مابین شروع ہو گیا۔ اس سہ جہتی کشمکش نے اتنا زور پکڑا کہ آئین سازی بھلا دی گئی اور 1954ء میں گورنر جنرل نے آئین ساز اسمبلی ہی کو تحلیل کر دیا۔ پاکستان میں پہلی آئین شکنی کا مقدمہ وفاقی عدالت میں گیا۔ سپیکر مولوی تمیزالدین نے جس مفلوک الحالی میں پاکستانی جمہوریت کا مقدمہ لڑا‘ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ مولوی تمیزالدین مقدمے کی سماعت میں شریک ہونے کے لئے سائیکل رکشہ پر عدالت میں جایا کرتے تھے۔ ایک طرف جمہوریت کا یہ بے سروسامان سپاہی اکیلا تھا اور دوسری طرف تمام طاقتور گروہوں نے گٹھ جوڑ کر کے گورنر راج کا تحفظ شروع کر دیا۔ اس دوران غلام محمد نے من مانے قوانین بنا کر‘ دستور ساز اسمبلی بحال کی اور کٹھ پتلی وزرائے اعظم لگا کر حکومت چلائی۔ اس دوران غلام محمد کی صحت جواب دینے لگی۔ 6 اگست 1955ء کو انہوں نے دو ماہ کی رخصت لی اور میجر جنرل سکندر مرزا کو قائم مقام گورنر جنرل نامزد کر دیا۔ اس کے بعد دوسرا اذیت ناک دور شروع ہوا۔ سکندر مرزا نے بوگرا حکومت ختم کر کے چوہدری محمد علی کو وزیر اعظم بنا دیا۔ انہوں نے مختلف علمائے کرام کی ہدایات کے تحت 1956ء کا آئین نافذ کیا۔ اس آئین کے نفاذ پر کم و بیش تمام مذہبی جماعتوں نے اظہار مسرت کیا۔ 1956ء کا پہلا متفقہ آئین کالعدم کر کے سکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کیا۔ اقتدار پر ایوب خان کا قبضہ ہوا۔ انہوں نے 1962ء میں اپنی مرضی کا آئین نافذ کر دیا‘ جس کی ملک کے دونوں حصوں میں مخالفت کی گئی۔ ایوب خان نے امور مملکت میں مشرقی پاکستانیوں کو اپنے حصے کے مطابق شرکت کا حق نہیں دیا‘ جس پر وہاں بغاوت کی صورتحال پیدا ہونے لگی۔ ایوب خان نے دوبارہ مارشل لا نافذ کر کے‘ اقتدار یحییٰ خان کو دیا۔ اس نے بنگالیوں کو ون مین ون ووٹ کا حق دے کر عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے‘ اس سے پہلے مغربی اور مشرقی پاکستان کو مساوی درجہ دے کر‘ ملک کی 54 فیصد آبادی کو مغربی پاکستان کی 46 فیصد آبادی کے برابر کر کے‘ اسے پیرٹی کا نام دیا گیا تھا۔ 1970ء کے انتخابات ہوئے اور نئی منتخب جماعتوں میں آئین سازی پر اختلاف ہو گیا اور یحییٰ خان نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی آئین ساز اسمبلی برطرف کر کے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی۔ مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ بھارت نے صورتحال کا فائدہ اٹھا کر حملہ کر دیا اور پاکستان کو شکست کا سامناکرنا پڑا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد نئے پاکستان میں طویل مشاورت اور ملک کے تمام مکاتب فکر کی مشاورت اور رضامندی سے 1973ء کا آئین نافذ کیا گیا۔ اس آئین کی تیاری میں تمام مذہبی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا۔ ضیاالحق نے 8ویںآئینی ترمیم کے ذریعے علماء کے مرتب کردہ 22 نکات کو{ جو پہلے صرف آئین کا دیباچہ تھے‘ باقاعدہ آئین کا حصہ بنا دیا۔ اس تبدیلی کے بعد تمام صوبے اور تمام مذہبی مسالک کے جید علماکرام مطمئن ہو گئے۔ بھٹو صاحب نے اس آئین میں جو ترامیم کی تھیں‘ انہیں بعد میں نکال دیا گیا اور 2012ء میں 20ویں ترمیم کے بعد‘ آئین پر اعتراضات ختم ہو گئے۔ ابھی دو سال ہی گزرے ہیں کہ ایک بار پھر اسلامی آئین کا مسئلہ اٹھا کر پنڈورا بکس کھولنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پاکستانی عوام اپنے موجودہ آئین پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے سوال پر مذاکرات کے بہانے طالبان کی طرف سے پھر سے آئین کو مسترد کرنے کی بات آ گئی۔ میں نے پاکستان میں آئین سازی کے دردناک تجربات کا شکستہ سا خاکہ اس لئے پیش کیا ہے کہ عوام‘ میڈیا اور فیصلہ سازی پر اختیار رکھنے والوں کو اندازہ ہو کہ آئین سازی کے عمل میں‘ پاکستان نے اپنی آزادی کا تین چوتھائی حصہ متفقہ آئین کے بغیر گزارا ہے۔ اس دوران ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ہم سے الگ ہو گئی۔ آئین سازی کے سوال پر بے شمار احتجاجی تحریکیں چلیں۔ جمہوریت کے سینکڑوں حامی گولیوں کا نشانہ بنے۔ میں تمام اہل وطن سے دردمندانہ اپیل کروں گا کہ ازراہ کرم آئین کی تقدیس کی روایت کو مستحکم ہونے دیں۔ آئین کو از سر نو بنانے کی غلطی کی‘ تو پھر سے پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ اس دوران 1971ء سے زیادہ تباہ کن واقعات جنم لے سکتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ آئین پر ملک کے کم و بیش تمام برگزیدہ علمائے کرام مہر تصدیق ثبت کر چکے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں