ایران اور امریکہ میں سمجھوتے کے بعد ‘خطے میں ایک نئی جنگ کی بساط بچھنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ نئی جنگ کامرکزی کھلاڑی بھی وہی ہو گا‘جو اختتام کی طرف بڑھتی ہوئی جنگ میں رہا ہے یعنی وہ جنگ ‘جس کی ابتداافغانستان پر حملے سے ہوئی ۔ عراق اس کی لپیٹ میں آیا اور جب امریکہ ان دو ملکوں میں ہونے والی جنگ سے دامن چھڑا کر‘ نئی جنگ کی تیاریاں کر رہا تھا۔ لیبیا اور شام میں‘ ایک نئی طرز کی جنگ کا تجربہ شروع کر دیا گیا‘ جو آج بھی جاری ہے لیکن ایسے انداز میں کہ کوئی بڑا سٹیک ہولڈر‘ براہ راست ملوث نہیں ہے۔لیبیا کی جنگ‘ وہاں کے لوگوں اور باہر سے آنے والی مختلف دہشت گرد تنظیموں کے جنگجوئوں میں ہو رہی ہے۔ دونوں ملکوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مقامی حکومتوں کے خلاف‘ باغیوں کی پشت پناہی کی‘ انہیں اسلحہ اور سرمایہ مہیا کیا گیا۔ لیبیا کی جنگ میں نیٹو کی فضائی طاقت بھی جھونک دی گئی۔صدر قذافی کے تمام سٹرٹیجک ٹھکانوں‘ ان کی ایئر فورس اور جنگی طاقت کو فضائی حملوں کے ذریعے ہی بے اثر کیا گیا اور دہشت گردوں کو فضائی نگرانی کے ذریعے حاصل شدہ معلومات بھی بر وقت پہنچائی گئیں۔کرنل قذافی، جو مغرب کی آنکھ میں برسوں سے کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے‘ کے خلاف مغرب نے‘ اپنا ایک سپاہی استعمال کئے بغیر مقاصد حاصل کر لئے۔ صدر قذافی کی حکومت اور ان کی فوجی طاقت ختم کر دی گئی۔ آج مقامی گروہوں کے درمیان خانہ جنگی برپا ہے۔ ریاست کا مرکزی ڈھانچہ منتشر ہو چکا ہے۔ اس خانہ جنگی کی صورت حال میں‘ جب بھی ٹھہرائو آئے گا، حالات پر کنٹرول کرنے کی ذمہ داری مغربی طاقتیں ہی انجام دے رہی ہوں گی۔
شام میں بغاوت کے انتظامات امریکہ اور شرق اوسط میں اس کے اتحادیوں نے کئے۔ منصوبہ‘ لیبیا کے واقعات دہرانے کا تھا۔جیسے لیبیا میں القاعدہ کے دہشت گردوں اوردنیا کے مختلف ملکوں میں ساتھیوں کی مدد لے کر‘کرنل قذافی کو قتل اور ان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا ‘ یہی کہانی شام میں دہرانے کا فیصلہ ہوا مگر جیسے ہی جنگ میں دہشت گردوں کا پلڑابھاری ہوتا نظر آیا، روس نے فوری طور پر اس کا نوٹس لیتے ہوئے مداخلت کی اور امریکہ کو انتباہ کر دیا کہ اگر اس نے بشار الاسد کی حکومت ختم کر کے‘ وہاں پٹھو حکومت قائم کرنے کی کوشش کی تو روس خاموش نہیں رہے گا۔جس وقت صدر پوٹن نے یہ انتباہ کیا‘ اس سے پہلے صدر اوباما اعلان کر چکے تھے کہ شام کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی فضائی طاقت استعمال کریں گے۔وائٹ ہائوس کی طرف سے واضح ہو گیا کہ امریکہ فضائی حملے شروع کرنے والا ہے لیکن روسی مداخلت نے امریکہ کو دوبارہ سوچ بچار پر مجبور کر دیا۔اس کی وجہ صدر پوٹن کا انتباہ اور اسرائیل کی درپردہ کوششیں تھیں۔ صدر پوٹن اپنی نئی مالیاتی طاقت اور حکومت پر مکمل کنٹرول کی بحالی کے بعد‘دنیا بھر میں من مانیاں کر نے والے امریکہ کا ہاتھ روکنے کا ارادہ کر چکے تھے۔ امریکہ نے سوویت یونین کے داخلی انتشار کے دوران‘ مشرقی یورپ میں روس کے زیر اثر ملکوں میں‘ اپنے پنجے گاڑنے شروع کر رکھے تھے‘جس پر صدر پوٹن پریشان تھے۔ انہوں نے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوںکی پشت پناہی سے یوکرائن میں باغیوں کو عدم استحکام پھیلاتے ہوئے دیکھا‘ تو آگے بڑھ کر اپنے کھوئے ہوئے علاقے ‘کریمیا پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
کریمیا کی اکثریتی آبادی روسیوں پر مشتمل ہے اور تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے بھی کریمیا کے لوگ ‘روس کے زیادہ قریب ہیں اور وہاں کی اکثریت بھی روسی زبان ہی بولتی ہے۔ا گر یوکرائن پر امریکہ کے حامیوں کا قبضہ ہو جاتا تو اسے روس کی ہزیمت شمار کیا جاتا۔ روسی صدر پوٹن نے مغرب کو مزید موقع دئیے بغیر ‘آگے بڑھ کر کریمیا میں کنٹرول قائم کر لیا اور اسے آزاد اور خود مختارعلاقے کی حیثیت دے دی۔ اب کریمیا کوروس کی الحاقی ریاست بنانے کا عمل جاری ہے۔ روس کے اس اقدام پر امریکہ بہت پریشان ہے۔اسے فکر پڑ گئی ہے کہ دنیا بھر میں جن ملکوں کو اس نے خطرات اور بحرانوں کی صورت میں مدد دینے کا اعلان کر رکھا ہے‘ وہ عدم اعتماد ی کا شکار نہ ہو جائیں۔شرق بعید میں جاپان‘ جنوبی کوریا‘ ویت نام اور خطے کی دوسری ریاستیں عدم تحفظ کا شکار ہو گئیں۔جس پر امریکہ کے وزیر دفاع چک ہیگل کو فوری طور پر خطے کے ملکوں میں بھیجا گیا‘ وہاں انہوں نے جاپان اور جنوبی کوریا کو یقین دلایا کہ ان کی سلامتی کے تحفظ کے لئے‘ امریکہ نے جو معاہدے کر رکھے ہیں ‘ ان پر ہر صورت عمل کیا جائے گا، خصوصاً جن علاقوں میں چین اور جاپان کے درمیان تنازعات چل رہے ہیں، وہاں جاپان کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ ہیگل نے جاپانی وزیر دفاع کو بتایا کہ کریمیا میں روس کی جارحیت پر امریکہ مناسب اقدامات کر رہا ہے اور اسے یہ بھی احساس ہے کہ روس کی فوج کشی کے نتیجے میں‘ امریکی اتحادیوں میں جو تشویش اور بے چینی پیدا ہوئی ہے‘ امریکہ اس سے با خبر ہے۔ وہ ان کے اعتماد کو بحال کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
افغانستان سے شروع ہونے والی جنگ ‘نیا رخ اختیار کرنے والی ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان جو سمجھوتہ ہو چکا ہے‘ اس پر عمل درآمد کے لئے تیزی سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ امریکیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ افغانستان سے اس کی واپسی کے بعد بھی‘ وہاں جنگ کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا یا اسے ختم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ سعودی عرب اور ایران کی تاریخی کشمکش ایک بار پھر شدت اختیار کر رہی ہے اور اس بار سعودی عرب زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے ۔ امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر نئی افغان حکومت‘ ان کے ساتھ مشترکہ دفاع کا معاہدہ نہیں کرتی تو وہ طالبان کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔ دوسری طرف دو روایتی حریف یعنی ایران اور سعودی عرب افغانستان کے غیر مستحکم حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنی زور آزمائی شروع کر دیں گے ۔ ایران محض افغانستان کی شیعہ آبادی پر ہی انحصار نہیں کرتا ،وہاں کی فارسی بولنے والی آبادی بھی اس کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ جبکہ سنی آبادی کے ساتھ‘ سعودی عرب کے رشتے بہت گہرے ہیں۔ خصوصاً طالبان کو منظم کرنے میں سعودی عرب نے دامے درمے سخنے‘ سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ اب بھی اگر امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے پوری طرح نکل گئے‘ تو طالبان کو مدد کی ضرورت ہو گی۔ اس لئے کہ شہروں پر کنٹرول رکھنے والی افغان اتھارٹیز اور ایران‘ دونوں کے مفادات ایک ہو جائیں گے۔ حکومت طالبان کے خطرے کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہو گی‘ دنیا بھر میں دہشت گردی کی مخالف طاقتیں ‘اس حکومت کی مدد گار ہوں گی اور ایران جو طالبان کے مقابلے میں کابل حکومت کی مدد کر رہا ہوگا‘ امریکہ اور اس کے اتحادی فطری طور پر اس کا ساتھ دینے پر مجبور ہوں گے۔طالبان کا انحصار سعودی عرب کی امداد پر ہوگا۔ اگر پاکستان طالبان کی حمایت میں کھڑا ہو جائے تو سعودی عرب کی پوزیشن افغانستان کی کمزور حکومت کے مقابلے میں‘ بہت بہتر ہو جائے گی۔یہی وہ متوقع صورت حال ہے۔ جس پر پاکستان کی حکومت‘ حساس ادارے اور عسکری ماہرین فکرمندی سے غورو خوض کر رہے ہیں۔ ابھی تک حکومت کی طرف سے‘ واضح اعلانات سامنے آرہے ہیں کہ ہم شام یا کسی دوسرے ملک کی خاطر فوجی کارروائیوں میں حصہ نہیں لیں گے اور نہ ہمارے سپاہی بیرون ملک جنگوں میں شریک ہوں گے۔ پاکستان کی رائے عامہ‘ میڈیا‘ اپوزیشن اور سول سوسائٹی مجموعی طور پر حکومت کے ان اعلانات کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ سب کی رائے یہی ہے کہ ہمیں کسی بھی بیرونی جنگ میں ملوث ہونے کی حماقت نہیں کرنا چاہئے۔ افغان جنگ میں نئے پلیئرز کی آمد کے بعد فرقہ واریت کا رنگ غالب آجائے گا اور خدانخواستہ اگر ایسا ہواتو پاکستان سب سے زیادہ خسارے میں رہے گا۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اہل الرائے کو اس صورت حال کا پوری طرح احساس ہے۔ سعودی عرب میں ایک روایت ہے کہ اہم قومی مسائل پر علمائے کرام سے بھی رائے لی جاتی ہے۔ میری گزارش ہو گی کہ اگر غیر جانبدار رہنے کی موجودہ پالیسی میں تبدیلی کا سوال پیدا ہو تو فیصلہ کرنے سے پہلے‘ ہر پلیٹ فارم پر بحث و مباحثہ کیا جائے۔ پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئے ‘ علمائے کرام کے کنونشن اپنی رائے دیں۔ وکلا‘ صحافی‘ اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی دیگر نمائندہ تنظیموںسے فرداً فرداً رائے حاصل کی جائے اور اس کے بعدطے کیا جائے کہ ہماری آئندہ پالیسی کیا ہونا چاہئے؟افغانستان کے بارے میں دو سابق غیر جمہوری حکمرانوں نے از خود فیصلے کر کے‘ ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ آج کے جمہوری دور میں ایسی غلطیاں دہرانے کی ہرگز گنجائش نہیں۔