تیسری جنگ میں کودنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو ازراہ کرم عملدرآمد سے پہلے‘ مزید سوچ لیجئے۔ اگر نہیں کیا تو اس فیصلے کو کچھ عرصے کے لئے ملتوی کر دیجئے اور انتظار کیجئے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ‘حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟ ان حالات کی روشنی میں فیصلہ کیجئے کہ کون سا موقف اختیار کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہے لیکن کسی دوسرے کی جنگ میں شامل ہونے کی سوچ تو ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں آنی چاہئے۔ ہماری تمام تر تباہی اورقومی یکجہتی کا پارہ پارہ ہونا‘ ترقیاتی عمل میں ہمارا پیچھے رہ جانا‘ ہماری جہالت‘ بھوک‘ بے روزگاری‘ غرض ہمیں پہنچنے والے ہر نقصان کی واحد وجہ‘ ہمارا غیروں کی جنگ میں کودنا ہے۔کاش ہم ایسا نہ کرتے۔آئیے تاریخی پس منظر کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کریں کہ بیگانی جنگوں میں کودنے سے‘ ہمیں کتنے بڑے خساروں سے دوچار ہونا پڑا؟ اور قومی عز ت ووقار کس طرح پامال ہوا؟ہمارے ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ اپنی ہر جنگ میں ہم شکست سے دوچار ہوئے۔
پاکستان معرض وجود میں آیا تو دوسری جنگ عظیم کچھ ہی پہلے ختم ہو ئی تھی۔سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا اور دنیا طاقت کے دو بلاکوں میں تقسیم ہو رہی تھی۔ جن ملکوں کی قیادتیں سمجھدار تھیں‘ انہوں نے سرد جنگ کا حصہ بننے سے گریز کیا اور جہاں ہماری طرح نا عاقبت اندیش افراد ‘حکومت پر قابض تھے‘ وہ ملک سرد جنگ کا حصہ بن کر اپنی آزادی و خود مختاری سے دستبردار ہو گئے۔ کوئی بھی قوم جب کسی سپر پاور سے مفادات حاصل کر کے‘ اتحادی کی حیثیت اختیار کرتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس نے اپنی آزادی و خود مختاری گروی رکھ دی۔دکھاوے کے لئے جتنے بھی نعرے لگائے جائیں ‘ سب کھوکھلے ہوتے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جس سے آپ نے اسلحہ اور پیسہ لیا‘ اس کی مرضی کے تابع ہونا ہی پڑتا ہے۔
ہم ان بد نصیب ملکوں میں شامل ہیں‘ جو سرد جنگ میں امریکہ کے حلیف بن کر اپنی آزادی و خود مختاری سے دستبردار ہو گئے۔ ہم مغربی بلاک کا دم چھلا تھے۔ فوجی معاہدوں کے تحت ہم نے یہ پابندی قبول کر لی تھی کہ ہمیں جو بھی جنگی سامان اور وسائل مہیا کئے جائیں گے‘ ان کا استعمال ہم محض امریکی بلاک کی جنگ میں کر سکیں گے۔ ہمیں اپنی کسی لڑائی میں معاہدے کے تحت ملا ہوااسلحہ استعمال کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہو گی۔نتیجہ یہ ہوا کہ65ء کی جنگ میں ہم نے اپنے پاس موجود اسلحے کو ‘دفاع کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہم پر فوراً پابندیاں لگا دیں۔ عین جنگ کے دوران‘ سپیئر پارٹس کی فراہمی بند کر دی گئی اور ہم پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا گیا کہ ذخیرہ شدہ محفوظ اسلحے کو مزید نہ چھیڑا جائے۔اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ امریکی بلاک میںجانے کا ہمیں دوسرا نقصان یہ ہوا کہ سوویت بلاک ہمارا مخالف بن گیا اور کشمیر کے سوال پر ویٹو استعمال کر کے‘ اقوام متحدہ کا کردار غیر موثر کر دیا گیا۔غیروں کی جس دوسری جنگ میں ہم نے اپنے آپ کو جھونکا‘ وہ افغانستان کی جنگ تھی۔ افغانستان کے معاملات سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیںتھا اور نہ ہم کسی بھی فریق کے حق یا مخالفت میں افغان جنگ کا حصہ بننے پر مجبور تھے۔ یہ جنگ بنیادی طور پر سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان تھی۔ ہم نے خود اپنی خدمات پیش کر کے‘ اس جنگ میں اپنے لئے کردار حاصل کیا‘ اسے کہتے ہیں ایڑیاں اٹھا کر پھانسی لگنا۔ افغان انقلاب کے بعد‘ وہاں اقتدار کی جو مقامی کشمکش ہوئی‘ ہم بلاوجہ اس میں ٹانگ اڑاتے رہے اور ساتھ ہی امریکہ کو پکارنا شروع کر دیا کہ ہمیں سوویت خطرے سے بچائو اوراپنے لئے بھی سوچو کہ سوویت یونین اگر گرم پانیوں تک پہنچ گیا تو طاقت کا توازن تمہارے خلاف ہو جائے گا۔ امریکہ میں ڈیمو کریٹس کی حکومت تھی۔ جمی کارٹر نے ان اپیلوں کورسمی طور سے دیکھا اور دو سو ملین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کر دیا۔ جنرل ضیا ء الحق نے مذاق اڑاتے ہوئے‘ اس امداد کو مونگ پھلی قرار دیا اور اس امید میں افغان جنگ میں حصہ لینے کی مشق کرتے رہے کہ ایک نہ ایک دن‘ امریکہ کو ہماری مدد کے لئے آنا پڑے گا۔ یہاں بھی ہم اپنی خواہش سے بیگانی جنگ میں کودے۔ یہ جنگ ہمارے گلے ایسی پڑی کہ ہم آج تک اس سے نکل نہیں پائے۔خدا ہی جانتا ہے کہ مزید کتنے عرصے تک‘ ہم افغان جنگ کے اثرات سے نکل پائیں گے۔ دہشت گردی ہمارے وجود میں سرایت کر چکی ہے۔ بے گناہوں کو قتل کرنے‘ گھروں اور بازاروں میں بموں کے دھماکے کرنے‘ فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشانے لگا کر بے گناہوں کو مارنے‘ مساجد ‘ امام بارگاہوں‘ مزاروں اور مقبروں کو بموں سے اڑانے‘ اغوا برائے تاوان اور ہماری ایجنسیوں اور مسلح افواج کے ٹھکانوں پر بم میزائل چلانے کا سلسلہ‘ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے ۔ سال رواں کے اختتام تک افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ہو جائے گا۔ اگر کچھ دستے باقی رہ بھی گئے تو ان کی حیثیت علامتی ہو گی۔طالبان اورجدید طرز حکمرانی کے حامیوں میں کشمکشِ اقتدار کا شروع ہونا لازم ہے۔افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدوں کا وجود عملاً ختم ہو چکا ہے، خصوصاً دہشت گردوں کے لئے۔ وہ افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنا کر پاکستان میں حملے کرتے ہیں اور پاکستان میں اپنے ٹھکانوں سے افغانستان جا کر وہاں دہشت پھیلاتے ہیں۔اقتدار کی یہ جنگ کیا رخ اختیار کر ے گی؟ کتنا پھیلے گی؟ اور اس جنگ میں کون کون شریک ہو گا؟ اس کے بارے میں ابھی سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر جو باتیں یقینی ہیں ‘ ان میں ایران کا ملوث ہونا خارج ازامکان نہیں۔ امارات اور سعودی عرب کی حکومتوں کے ساتھ‘ طالبان کے دیرینہ رشتے ہیں۔ اگر ایران کی مداخلت ہوئی تو سعودیوں کی مداخلت بھی ضرور ہو گی۔ شمالی اتحاد‘ طالبان کے خلاف جنگ میں لازماً فریق بنے گا۔ اس کے تعلقات روس اور بھارت کے ساتھ دیرینہ اور وسیع ہیں۔ ان دونوں ملکوں سے شمالی اتحاد کو برسوں سے امداد مل رہی ہے۔ افغانستان میں اقتدار کی جنگ میں اگر شدت آئی تو بھارت اس سے لا تعلق نہیں رہ سکے گا۔ اصولاً اس جنگ میں ہمارا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں فریق بھی نہیں بننا چاہئے۔ افغانستان کے کسی علاقے پر ہمارا دعویٰ نہیں۔ افغانستان میں حکومت کسی کی بھی ہو‘ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر اپنے دیرینہ دعوے کی پاسداری کرے گی۔ جب تک خانہ جنگی رہی‘ یہ مسئلہ نظر انداز ہوتا رہے گا مگر جیسے ہی کابل میں مستحکم حکومت قائم ہوئی تو ہمیں اپنے علاقوں پر‘ افعانستان کے دعوئوں کا سامنا بھی کرنا ہو گا لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے۔
ہماری آزمائش کا آغاز ہو چکا۔ ابھی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ حال کے چند واقعات شبہات پیدا کرتے ہیں کہ ہم ایک بار پھر بیگانی جنگ میں کودنے کی حماقت کرنے والے ہیں۔ ایران اورسعودی عرب کی دیرینہ کشمکش کی اپنی تاریخ ہے۔ علاقائی طور پر یہ دونوں اپنے اپنے حامیوں کے گروپ بھی بنا چکے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ امارات‘بحرین‘عراق کی سنی تنظیمیں‘ اردن اور یمن وغیرہ ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک مصر کو بھی سعودی عرب کا حلیف سمجھا جاتاتھا مگر فوجی بغاوت کے بعد‘ مصر کی حکومت سعودی اثرات سے باہر آچکی ہے۔دوسری طرف ایران بھی کم نہیں۔ بحرین کی شیعہ آبادی ایران کی حامی ہے۔ عراق‘لبنان اور شام میں اس کے حامیوں کی حکومت ہے۔افغانستا ن میں جنگ کا میدان گرم ہوا اور سعودی عرب اور ایران دونوں اس جنگ میں فریق بن گئے ‘ تو ہمارے لئے بہترین راستہ غیر جانبداری کا ہو گا... کاش ایسا ہو جائے...مگر سعودی عرب کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت اور اربوں ڈالر کی شکل میں‘ اس سے ملنے والے ''تحائف‘‘ کو دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ ہم ایران کے مخالف بلاک کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو غیروں کی جنگ میں کودنے کی ہماری یہ تیسری غلطی ہو گی۔ فی الحال امریکہ اس ممکنہ صف بندی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران اپنی پالیسی میں نرمی اختیار کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ سعودی عرب کا موقف ابھی تک بہت سخت ہے۔ ضروری نہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی رہے۔ اگر افغانستان کی جنگ میں ایران اور سعودی عرب ‘دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل نہ بنے اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر افغان خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے مشترکہ کردار ادا کرنے پر تیار ہو گئے تو مسلم دنیا کے لئے یہ آئیڈیل صورت حال ہو گی۔ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ہمیں اپنے آپ کو ایسی صورت حال کے لئے الگ تھلگ ہو کر انتظار کرنا چاہئے۔ ورنہ حسب توقع ہم سعودی ڈالروں کی خاطر‘ ایسی جنگ میں کود پڑے ‘جو ہماری ہے ہی نہیں تو پھر ایک بڑے نقصان کا خطرہ پیش آسکتا ہے۔ ماہرین کے اندازے یہ ہیں کہ اگر ان دونوں مسلم طاقتوں نے ایک دوسرے کو طاقت کے ذریعے جھکانے کی جنگ شروع کر دی تو امریکہ کا جھکائو ایران کی طرف ہو گا اور ضرورت پڑی تو وہ اس کا مددگار بن کر بھی سامنے آسکتا ہے۔ایران کی حکومت مستحکم ہے اور اس کے حامیوں کی بڑی تعداد اس کی ہم مسلک ہے، لہٰذا یہ اتحاد بڑا مضبوط اور دیرپا ہو گا۔سعودی عرب کے تیل پیدا کرنے والے علاقوں میں شیعہ آبادی کی تعداد زیادہ ہے۔یہاں کی آبادی کو ایران کے حامیوں میں شمار کرنا چاہئے۔ سعودی عرب میں تبدیلیوں کا عمل شروع ہو گیا ہے اور جانشینی کا سوال پیدا ہونے لگا ہے۔ بہت جلد سعودی عرب کے حکمرانوں کے ورلڈ ویو میں تبدیلیاں ظاہر ہونے لگیں گی۔موجودہ قیادت کے دور میں قائم ہونے والے بلاک کی مستقبل میں کیا حیثیت ہو گی ؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہم اپنے آپ کوجتنا الگ تھلگ رکھیں گے‘ اتنا ہی فائدے میں رہیں گے۔ جس بلاک میں ہماری شمولیت کے امکان پر بات ہو رہی ہے ‘مستقبل میں اس کے غالب آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور بیگانی جنگوں میں کودنے کا تلخ تجربہ دہرانے سے بچنا چاہئے۔