حالیہ تاریخ کے اوراق اور بزرگوں کی باتوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں فوج اور عوام کے درمیان اعتماد‘ محبت بلکہ باہمی وارفتگی کی جو صورتحال 1965ء میں پیدا ہوئی تھی‘ دوبارہ دیکھنے میں نہیں آئی ۔ اس کے اسباب و وجوہ سے عوام بھی اچھی طرح واقف ہیں اور فوج بھی۔ میں اپنی زندگی میں یہ کیفیت‘ پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ جو لوگ فوج پر عوام کے بھرپور اعتماد اور محبت کو ہندسوں میں تقسیم کر کے دیکھتے ہیں‘ شاید انہیں پورا اندازہ ہی نہیںکہ فوج کے نزدیک عزت و وقار کے معنی کیا ہیں؟اس پیشے سے وابستہ لوگ ایک خاص ذہنی اور جذباتی کیفیت کے تحت رہتے ہیں۔ اگر یہ ایسے نہ ہوں تو محض اپنے کمانڈر کے ایک اشارے پر جانیں قربان نہ کریں۔جان کی قربانی صرف تنخواہ یا مراعات کے بدلے نہیں دی جاتی۔اس کے افسر اور جوان وطن کی آن پر اس لئے قربان ہو جاتے ہیں کہ اہل وطن کی آزادی اور خود مختاری محفوظ رہے اور سر زمین وطن کے ایک ذرے پر بھی دشمن کا قبضہ نہ ہو۔سپاہی کے لئے اس کی شان اور اس کی آن ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔اس پس منظر میں اگر آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل‘ جنرل ظہیر الاسلام کی تصویرٹی وی پر چلا کر مسلسل قتل کی سازش کا الزام لگایا جاتا رہے‘ تو فوج کے تمام افسروں اور جوانوں پر کیا گزری ہو گی؟ جنرل ظہیر ایک مثالی جنرل کی طرح کبھی نمودونمائش کی طرف راغب نہیں ہوئے۔ ہمیشہ خود کو عسکری دنیا تک محدود رکھا۔ حد یہ کہ سماجی سرگرمیوں میں بھی بہت کم حصہ لیتے ہیں۔ بقول عمران خان ''فوج اور جنرل ظہیر کے ساتھ ایک میڈیا گروپ نے جو سلوک کیا‘ وہ دشمن بھی نہیں کرتا۔‘‘ یہ معاندانہ مہم عوام کے لئے غیرمتوقع تھی اور جس طرح کہتے ہیں کہ زندگی میں کبھی ایک چھوٹا سا حادثہ‘ خوابیدہ محبتوں کو یوں بیدار کرتا ہے کہ خود حیرت ہوتی ہے۔ وہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا ہمارے درمیان واقعی اتنی شدید محبت ہے؟عوام اور فوج کا یہ پیار بھرا رشتہ گرد آلود ہو رہا تھا۔ہر کسی کو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بیروزگاری اور معاشی مستقبل کے بارے میں بے یقینی اور تشویش ہے۔
دہشت گردی نے عوام کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ جان و مال کا تحفظ ختم ہو چکا ہے۔ پرامن شہریوں کا جینا محال ہے۔ گھروں‘ بازاروں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں‘ مساجد‘ امام بارگاہوں‘ ٹرینوں‘ بسوں‘ ویگنوں‘ جلسوں‘ جلوسوں‘ غرض کسی بھی مقام پر زندگی محفوظ نہیں۔ ہر بچہ ‘ بڑا‘ عورت اور بوڑھا گھر سے نکلتے وقت یہی سوچتا ہے کہ اسے واپس آنا نصیب بھی ہو گا یا نہیں؟ ایک وقت ایسا آیا کہ ہمیں اسلام آباد کے لالے پڑ گئے۔ عالمی میڈیا میں رننگ کمنٹری نشر ہونے لگی کہ دہشت گرد‘ دارالحکومت سے اب اتنے کلومیٹر دور رہ گئے ہیں۔ اب اتنے کلومیٹر آگے بڑھ چکے ہیں اور کتنی دیر کے بعد وہ اسلام آباد میں داخل ہونے والے ہیں؟ عدم تحفظ کا احساس پورے ملک میں پیدا ہو چکا تھا۔ ایسے وقت میں حکومت کی رضامندی حاصل ہوتے ہی‘ فوج نے دہشت گردوں کے خلاف ماہرانہ آپریشن کر کے‘ انہیں تھوڑے ہی دنوں میں مار بھگایا۔ سوات کی زندگی تیزی سے معمول پر آنے لگی اور اہل وطن کو اطمینان ہوا کہ ملکی دارالحکومت کا دفاع کرنے والے موجود ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف فوج کے ساتھ پولیس کا ذکر نہ کرنا ‘ ناانصافی ہو گی۔ فوج نے آگے بڑھ کر دہشت گردوں سے ٹکر لی‘ تو پولیس نے شہروں کے اندر اپنے محدود وسائل اور ناقص اسلحہ کے ساتھ ‘ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے‘ جس قدر ممکن ہوا‘ عوام کو تحفظ فراہم کیا۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاک فوج نے پیش کیں۔ میرے علم کے مطابق پاکستان کی کسی جنگ میں ہمارے اتنے جونیئر آفیسرز اور جنرل شہید نہیں ہوئے‘ جتنے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وطن پر قربان ہو گئے۔ حکومت ‘ عسکری قیادت کے پاس رہی یا منتخب قیادت کے‘ پاکستانی عوام کے تحفظ و بقا کی اس جنگ کو‘ جس میں ہماری فوج مسلسل قربانیاں دے رہی ہے‘ کبھی جنگ بنا کر پیش ہی نہیں کیا گیا۔ یہ بتانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی کہ ہماری فوج ایک ایسے دشمن کے ساتھ لڑ رہی ہے‘ جو ہمارے فوجیوں کے چاروں طرف چھپا بیٹھا ہے اور کہیں سے بھی اچانک برآمد ہو کر‘ حملہ آور ہو رہا ہے؟دنیا میں کسی فوج کو ایسی تکلیف دہ اور بے حوصلہ کرنے والی جنگ میں کم ہی دھکیلا گیا‘ جس میں پاکستانی فوج برسوں سے ایک لمحے کا آرام کئے بغیر مسلسل لڑ رہی ہے۔ لیکن اسے عوام کی طرف سے وہ بھرپور تائید‘ حمایت ‘ محبت اور حوصلے نہیں مل رہے‘ جو سپاہی کو اندرونی طاقت اور جذبہ دیتے ہیں۔ جنگ میں اسلحے اور گولہ بارود سے زیادہ انہی کی ضرورت ہوتی ہے اور سپاہی کو یہ جذبہ صرف عوام کی محبت سے ملتا ہے۔میں نے کئی بار غور کیا ہے کہ ہم کیسی قوم ہیں؟ ہماری فوج ‘ ہمارے وطن کو بچانے کے لئے خون بہا رہی ہے اور ہم اس لڑائی کے جائز ہونے پر‘ بحث و مباحثہ کر رہے ہیں؟ ذرا اس سپاہی اور افسر کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کیجئے‘ جو ایک بے رحم اور عقب سے حملہ کرنے والے دشمن کے ساتھ جان پر کھیل کر جنگ کر رہا ہو اور اس کی قوم کے اندر‘ اسی بات پر اتفاق نہ ہو کہ یہ جنگ جائز ہے یا نہیں؟ایسے بے رحم اور مذہبی لیڈر بھی موجود ہیں‘ جو قاتلوں کواپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ جب اس طرح کی سوچ حکومت کرنے والوں میں بھی پیدا ہو جائے کہ ''دہشت گرد ہمارے ہی بگڑے ہوئے بچے ہیں۔‘‘ تو ان فوجیوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی؟ جو اپنے شہید ساتھیوں کی لاشیں اٹھا کر لا رہے ہیں۔ برستی گولیوں میں زخمیوں کو سنبھال کر نکالتے ہیں۔ ان کے جنازے پڑھتے ہیں۔ انہیں قبروں میں دفنا تے ہوئے شہیدوں کے خاندانوں کی حالت دیکھی ہے ‘ جن کا سب سے خوبصورت اور جیالا بیٹا‘ ایک شہید کی صورت میں گھر واپس آیا ہو۔ میں حیران ہوں کہ ایسی کیفیت میں اپنے عوام اور وطن کی خاطر لڑنے والوں کے دلوں پر اس وقت کیا گزری ہو گی؟ جب ہمارے فوجیوں اور شہریوں کو خون میں نہلانے والے دہشت گرد کو تو شہید قرار دیا جائے اور وطن کے لئے شہید ہونے والے جنرل کے بارے میں کہا جائے کہ ''میں اسے شہید نہیں مانتا۔‘‘ لمحے گزر جاتے ہیں۔ الفاظ ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ یادیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ مگر دلوں پر لگے ہوئے زخم مندمل نہیں ہوتے۔ گزشتہ آٹھ نو برسوں سے قربانیاں دیتی ہوئی فوج کے ساتھ‘ ہمارے مذہبی اور سیاسی لیڈروں نے جو طرزعمل روا رکھا‘ عوام اسے برداشت اور دل ہی دل میں ملامت کرتے رہے۔مگر اظہار کس کے سامنے کرتے؟ ان لیڈروں کے سامنے؟ جو اس جنگ کی صداقت پر یقین ہی نہیں رکھتے ۔ جن میں سے بیشتر کے دلوں میں دشمن سے ہمدردی پائی جاتی ہے اور وہ اپنی فوجوں کی شکست کے لئے دعائیں مانگ رہے ہیںتاکہ ان کی مرضی کا نظام نافذ ہو جائے‘ جس میں وہ اقتدار کے مزے اڑائیں؟جب لاوا اندر اندر پکتا رہے اور اس کا ابال آخری حد تک پہنچ جائے‘ تو پھر وہ کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔
19اپریل کی شام کو جب ایک میڈیا ہائوس کی طرف سے پاک فوج کی عزت و وقار پر اوچھا وار کیا گیا‘ تو پیدا ہونے والا شدید ردعمل حادثاتی نہیں تھا۔ اس اوچھے وار سے وہ آتش فشاں پھٹا‘ جس کی تہہ میں برسوں سے لاوا پک رہا تھا۔ ارباب اختیار کی بے عملی‘ بے حسی اور دشمن کے خلاف نیم دلانہ پالیسیوں کو مزید برداشت کرنا‘ عوام کے لئے ناممکن ہو گیا۔ یہ ردعمل ایک میڈیا گروپ کے خلاف نہیں‘ اس بے حسی اور قوت فیصلہ سے محرومی کے خلاف تھا‘ جس کا مظاہرہ ہمارے فیصلہ ساز کرتے آ رہے ہیں۔میں اپنا زیادہ وقت ‘ عوام کے درمیان گزارتا ہوں۔ جو کچھ میرے میڈیا گروپ کی آنکھیں دیکھتی ہیں‘ وہ بھی میری نظر میں رہتا ہے اور میں اپنے مشاہدے کی بنا پر پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ 1965ء کے بعد عوام اور پاک فوج کے درمیان محبت کا رشتہ ایک مرتبہ پھر فطری انداز میں سامنے آیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ مناظر پہلی بار دیکھے ہیں کہ ہر طبقے اور علاقے کا پاکستانی بے اختیار ہو کر‘ فوج کی عزت پر کئے گئے حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے سامنے آ گیا ہے۔ اس محبت کے رشتے کی بحالی کے مناظر دیکھ کر‘ میرے حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ مستقبل پہ میرا یقین مزید پختہ ہو گیا ہے۔ میں نہیں جانتاکہ اس رشتے کی بحالی کے نتائج کیا ہوں گے؟ لیکن جب ملک کے عوام اور فوج کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ بحال اور مضبوط ہو جائے‘ تو پھر کیا یہ سوچنے کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ ہمارامستقبل کیسا ہو گا؟ میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ آج پاکستان کے ہر دردمند شہری کی طرف سے‘ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب آئے گا۔ مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔جواب ہمہ گیر عوامی ردعمل کے نعروں میں لہرا رہا ہے۔ فتح کا عز م کامل رکھنے والے مجاہدوں کی تلواروں کی طرح۔ مجھے رنج ہے کہ ہمارے ایک با وقار جنرل کی تصویر مسلسل کئی گھنٹے ٹی وی پر ایسے گھٹیا انداز میں دکھائی گئی جیسے کسی مفرور ملزم کو تلاش کیا جا رہا ہو۔اس نا پسندیدہ حرکت کا حساب تو عوام لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ میں اس محبت کی بازیابی پر خوش ہوں جو مدتوں کے بعد پاک فوج اور عوام نے دریافت کی ہے۔