حالیہ بھارتی انتخابات کا نتیجہ‘ قریباً نوے سال پہلے شروع ہونے والی اس کشمکش کا حاصل ہے جو غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف جدو جہد کی صورت میں شروع ہوئی۔ایک طرف کانگریس تھی جو غیر مذہبی سیاست کی دعویدارتھی اور دوسری طرف آرایس ایس،جو مذہبی بنیادوں پر بھارتی قوم پرستی پر یقین رکھتی تھی۔ خود کانگریس کے اندر بھی مذہبی رحجان رکھنے والا ایک گروپ تھا جس کی قیادت مہاتما گاندھی کر رہے تھے۔ بظاہر وہ سیکولرازم کا نام لیتے لیکن سیاست میں مذہبی طرزفکر رکھتے تھے۔آر ایس ایس کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تنظیم عام سیاسی پارٹیوں کی طرح نہیں ۔اس کے بانی انتہائی متعصب ہندو تھے۔برہمنیت کو سیاست کی بنیاد سمجھتے تھے۔ برہمنیت سے مراد نسل پرستی ہے‘ جس میں برہمن کو ہندوئوں کی اعلیٰ ترین نسل سمجھا جاتا ہے اور وہ دیگر تمام ذات پات اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں پر برتری رکھتے ہیں۔ یہ برہمن تحریک ‘ دوسری جنگ عظیم سے کچھ پہلے چلنے والی تحریکوں سے بہت متاثر تھی۔یوں تو وہ لوگ غیر ہندو کو کمتر درجے کا شہری تصور کرتے ہیں لیکن مسلمانوں سے ا نہیں خاص نفرت ہے۔برہمن ذہن میں یہ تصوربری طرح رچ گیا تھا کہ مسلمان بیرونی حملہ آور ہیں‘ انہوں نے ہم پر تلوار کی طاقت سے صدیوں حکومت کی۔ جب تک ہم سیاسی اور سماجی طور پر‘ مسلمانوں کو پیچھے نہیں دھکیل دیں گے‘ عظیم بھارت ‘رام لکشمن کے زمانے کی طرح طاقتور اور آسودہ نہیں ہو سکے گا۔اس تنظیم میں ماضی کا فخر‘ جدید قوم پرستی کا نظریہ اورفاشسٹ تحریکوں کی تنظیمی صلاحیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ ابتدا میں یہ تحریک جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ مخالفین کو دبانے اور ان پر غالب آنے کے لئے‘ تشدد اور طاقت کے استعمال کو لازم سمجھا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لئے آر ایس ایس نے‘ بے شمار ذیلی تنظیمیں کھڑی کیںجو مختلف نعروں کے تحت کام کرتی تھیں۔
سب سے زیادہ توجہ‘ نوجوانوں کو جنگی تربیت دینے پرمرکوز رکھی گئی۔ اس تنظیم کا نام ''بجرنگ دل‘‘ تھا۔ بظاہر اسے جسمانی صحت قائم رکھنے کے لئے مشقیں کرائی جاتیں لیکن اصل میں فوجی تربیت دی جاتی۔ ہر شہر کے میدانوں اور گرائونڈوں میں نوجوان جمع ہوتے۔ ریٹائرڈ فوجی انہیں جنگی تربیت دیتے۔ بظاہر انہیں رضا کار کہا جاتا لیکن اصل میں وہ جنگجو ہوتے۔ اس کے علاوہ بھی تعلیم‘ تربیت‘ تجارت اور مالیات کی مہارتوں میں‘ اضافے پر زور دیا جاتا۔مسلمان کئی سو سالہ حکمرانی کے بعد ‘یونہی پسماندہ نہیں رہ گئے تھے‘ ہندو تنظیموں کی ہدایات کے تحت کام کرنے والوں نے ہر شعبے میں منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کو پچھاڑا۔درحقیقت کانگریس کے اندر آرایس ایس کا اثر و رسوخ تھا‘ جس کے جواب میں قائداعظمؒ نے مسلمانوں کو علیحدہ قوم اور سیاسی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا۔1947ء میں بھارت کے اندر مسلمانوں کا جو قتل عام کیا گیا ‘وہ آرایس ایس کی منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ کانگریسی حکومت‘ آرایس ایس کی تنظیمی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکی اور جہاں جہاں آرایس ایس کا اثر تھا‘ وہاں مسلمانوں کا خون‘ بے دردی سے بہا کر انہیں بھارت چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔جنوبی ہندوستان میں جہاں آرایس ایس کا اثرورسوخ نہیں تھا ‘وہاں امن رہا۔آرایس ایس کی انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ بھارتی عوام بلکہ ہندوئوں کی بھاری اکثریت کے لئے نا قابل قبول تھی۔اس نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئے متعددناموں سے مختلف تنظیمیں بنا کر‘ اپنا مشن آگے بڑھانے کا طریقہ اختیار کیا۔ پہلے جن سنگھ کے نام سے ایک پارٹی بنائی گئی۔ و ہ بھی جلد ہی بے نقاب ہو گئی۔1980ء میں جب کانگریس کا زور ٹوٹنے لگا تو جن سنگھ کے لیڈروں نے‘ اپنی سیاست کو قابل قبول بنانے کی غرض سے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اتحاد قائم کیا‘ جس کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی رکھا گیا۔ اسے عام طور پر بی جے پی کہا جاتا ہے۔آرایس ایس کو یہ طریقہ قبول نہیں تھا لیکن اٹل بہاری واجپائی‘ ایڈوانی اور جوشی جیسے سینئر لیڈروں نے سمجھایا کہ جب تک ہم دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مل کر‘ اپنی سیاسی طاقت کا استعمال نہیں کریں گے‘ پارلیمانی نظام میں عوام کی بھاری اکثریت‘ کبھی ہمارا ساتھ نہیں دے گی۔بی جے پی کا تجربہ کامیاب رہا۔لوک سبھا میں اس کی نشستیں بڑھنے لگیں اور نوے کے عشرے میں‘ اسے پہلی حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں تھی لیکن اس کے ممبروں کی تعداد دوسری جماعتوں ‘سے زیادہ تھی اس لئے واجپائی کو‘ وزیراعظم بنا کرموقع دیا گیا کہ وہ اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں۔ وہ اس میں ناکام رہے اور مخلوط حکومتیں بننے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تب کہا گیا کہ اب بھارت میں کوئی بھی جماعت ‘واحد اکثریتی پارٹی نہیں بن پائے گی ‘ آئندہ مخلوط حکومتیں ہی بنا کریں گی۔یہ اندازہ غلط نکلا۔ اندراگاندھی کی ہلاکت کے بعد‘ راجیو گاندھی نے وزیراعظم بن کر انتخابات کرائے توکانگریس ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئی۔راجیو کے بعد دوبارہ مخلوط حکومتوں کا دور آیا ۔ واجپائی اور ایڈوانی نے‘ بڑی احتیاط سے ‘بی جے پی کا برہمنی چہرہ چھپائے رکھا‘ جس کے نتیجے میں اسے ایک قومی سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
بی جے پی اپنی طرز کی واحد جماعت ہے ‘جس کی حقیقی طاقت آرایس ایس کے پاس ہے اور نمائشی قیادت ان لیڈروں کے پاس تھی‘ جو قوم پرستی کی سیاست کرتے تھے۔بی جے پی کے اپنے ڈھانچے کے اندر‘ سیاسی ورکرز طاقت حاصل نہ کر سکے۔ یہ طاقت آرایس ایس کی متعدد‘ جزوی اور اضافی تنظیموں کے ہاتھ میں تھی ‘جن میں دہشت گرد گروپ بجرنگ دل‘شیو سینا اور پورے بھارت میں مختلف ناموں سے پھیلی ہوئی دہشت گرد تنظیمیںشامل ہیں۔ گلی‘محلوں‘شہروں‘ قصبوں ‘ دیہات غرض یہ کہ آرایس ایس کے حامیوں کا اثر ورسوخ پورے بھارت میں پھیل گیا۔بی جے پی کی قیادت کے پاس سیاست کرنے کے لئے محدود اختیارات تھے۔ اس کے لیڈروں کی مسلسل کوشش رہی کہ اقتدار کی خاطر ‘آرایس ایس کے اصولوں کو نظر انداز کرنے والو ں کی جگہ‘ آرایس ایس کے فلسفے پر یقین رکھنے والے کسی سیاست دان کو آگے لایا جائے۔اقتدار کی خاطر ‘آرایس ایس کا فلسفہ پس پشت ڈالنے والے سیاست دانوں کو‘ ہمیشہ دبائو میں رکھ کرمرضی کے فیصلے کرائے گئے‘ جیسے بی جے پی کی سیاسی قیادت‘ جب مصلحت کی خاطرلبر ل ہونے کا تاثر دینے لگی تو آرایس ایس کے خفیہ لیڈروں نے ‘بابری مسجد کا مسئلہ کھڑا کر کے انہیں مجبور کر دیا‘ کہ وہ اس تحریک کی قیادت کریں۔ واجپائی نے مذہبی انتہا پسندی کو بر سرعام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایل کے ایڈوانی وزارت عظمیٰ کے لئے بہت بے تاب تھے۔ انہوں نے بابری مسجد کو شہید کرنے کے لئے‘ لانگ مارچ کی قیادت سنبھالی۔جب بی جے پی کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو آرایس ایس کے لیڈروں کو‘پس منظر میں رہ کر حکومت چلانے کے لئے ‘واجپائی کی تقرری قبول کرنا پڑی‘ جس کے نتیجے میں بی جے پی کو پورے پانچ سال تک حکومتی اختیارات کے ساتھ‘ عوام سے کھلے رابطوں کے مواقع مل گئے۔
آرایس ایس کے لیڈر ‘ایک طرف تو حکومت کو مشورے اور ہدایات دیتے رہے اور دوسری طرف اپنے اصل فلسفے کے تحت کام کرنے والے نوجوانوں کو تیار کرتے رہے۔ یہ تو کوئی نہیں بتا سکتا کہ اس مقصد کے لئے کتنے افرادکوآزمایا گیا؟لیکن تلاش ملک بھر میں جاری رہی۔ گجرات میں لکشمن رائو انعام دار‘ کٹر ہندو نظریات رکھنے والا ایک وکیل تھا ‘جسے وکیل صاحب کہا جاتا۔انہوں نے نو عمر لڑکوں کے لئے ‘وڈنگر قصبے میں ایک برانچ کھولی۔ نریندر مودی اس میں داخل ہو گئے۔ تب ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ وہ اپنے گرو کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے‘ اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطوں میں آئے۔ ان کا اعتماد حاصل کیا۔ واجپائی اور ایڈوانی دونوں ہی مودی پر مہربانیاں کرتے رہے۔ گجرات کی صوبائی اسمبلی میں ‘حکومت بنانے کا موقع ملا تو نریندر مودی کو آگے کر دیا گیا۔ بعد کی کہانی سب جانتے ہیں۔آرایس ایس کی قیادت نے‘ گجرات میں مودی کی پانچ سالہ کارکردگی دیکھ کر‘ یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب مودی کو تیز رفتاری سے اگلی صف میں لایا جائے۔آرایس ایس نے 1925ء میں جس مہم کا آغاز کیا تھا‘89برس کے بعدوہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ مودی کی صورت میں پارٹی کا کنٹرول‘ براہ راست آرایس ایس کے پاس آگیا۔اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ اقتدار کی سیاست پر یقین رکھنے والے‘ عناصر کو آہستہ آہستہ بااثر پوزیشنوں سے باہر کر دیا جائے۔ مودی کوآرایس ایس کی انتہا پسند پالیسیوں پر عملدرآمد کر کے‘ خفیہ قیادت کا اعتماد حاصل ہو گا۔ روایتی سرمایہ دارانہ نظام سے جتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا‘ وہ اٹھا لیا گیا۔بھارت کی شرح ترقی تیزی کے ساتھ گرنے لگی تھی۔ بے روزگاری ‘ مہنگائی اور کرپشن کے نتیجے میں ‘عوامی بغاوتوں کے امکانات بڑھتے نظر آرہے تھے۔ ایسی صورت میں دو ہی طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ محرومیوں کے شکار مظلوم عوام کو‘ بغاوتوں سے روکنے کے لئے ‘زندگی کی آسانیاں فراہم کر دی جائیں یا انہیں بے رحمی سے کچل دیا جائے۔نئی گلوبل سرمایہ داری نظریاتی رومانس کا زمانہ پیچھے چھوڑتی جا رہی ہے۔ اب سیاسی نظریات قصہ ماضی بن چکے ہیں۔دائیں اور بائیں بازو کی پہچان ختم ہو گئی ہے۔طاقتور قومیں انسانی حقوق کے تصورات سے‘ جان چھڑا کر ترقی کا عمل تیز کرنا چاہتی ہیں۔ بھارتی سرمایہ دار اور فاش ازم کی طرف مائل حکمران طبقے‘ استحصال کے لئے سازگارماحول چاہتے ہیں۔نرنیدر مودی اور ان کی پشت پناہی کر نے والے آرایس ایس کے لیڈر‘ شرح ترقی میں جلد از جلد اضافے کے خواہش مند ہیں۔ مودی نے سرمایہ داروں سے جو وعدے کئے ہیں‘ ان کے مطابق محنت کشوں کو جبر کے ذریعے‘ مفلسی کی خوفناک حالت میں دھکیلا جائے گا۔ سرمایہ داروں کو نفع خوری کی آسانیاں مہیا کرنے کے لئے ‘ پوری ریاستی طاقت استعمال کی جائے گی۔ سرکاری زمینیں اور معدنیات‘ اونے پونے سرمایہ داروں کے سپرد کر دی جائیں گی۔ پاک بھارت تعلقات کا ابہام ‘ختم کر کے واضح پالیسی اختیار کی جائے گی۔ آنے والے برسوں میں‘ دونوں ملک معمول کے حالات‘ بحال کرنے میں کامیاب ہوتے ہیںتو امن حاصل کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔ بصورت دیگر واضح محاذآرائی کی پالیسی اختیار کر کے‘ خود انحصاری کی طرف رخ کر لیا جائے گا۔ مودی حکومت کے دو چہرے ہوں گے۔ ایک بھارتی مسلمانوں کے لئے اور دوسرا غیر ملکی مسلمانوں کے لئے۔یہ طے ہے کہ بھارتی مسلمانوں پر انتہائی برا وقت آرہا ہے۔انہیں باقاعدہ پالیسی کے تحت ‘پستی کی آخری حدوں کی طرف دھکیلا جائے گا۔2002ء کے فسادات کے بعد‘ احمد آباد کی جو حالت ہوئی‘ بی جے پی کے دور اقتدار میں‘ اب پورے ملک کے اندر ہونے لگے گی۔احمد آباد میں‘ دو احمد آباد آباد ہیں ایک مسلمانوں کا احمد آباد‘ جہاں بجلی‘ پانی اور ضروریات کی کوئی سہولت میسر نہیں اور ایک ہندو احمد آباد‘ جہاں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہے۔