نئی علاقائی مثلث

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے‘ عالمی اور علاقائی طاقتوں میں جو نیا توازنِ طاقت نمودار ہو رہا ہے‘ اس سے پاکستان‘ سعودی عرب اور بھارت کے تعاون کی شکل میں ‘ایک نئی اور قابل یقین سٹریٹجک مثلث وجود پذیرہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ غیر محسوس طریقے سے ہوتا رہا، لیکن ہماری سیاسی قیادت اور امور خارجہ کے ماہرین نے‘ اپنے ملک کو داخلی‘ معاشی اور انتظامی خلفشار میں مبتلا رکھا۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور ہم پہلی سردجنگ کی پرچھائیوںمیں ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ نئی مثلث میں پاکستان اور بھارت کی موجودگی‘ اس کاحیرت انگیز عنصر ہے۔ پاکستان اور بھارت‘ روایتی طور پر دو متحارب ملک ہیں‘ جو آزادی کے بعد تین بڑی لاحاصل جنگیں لڑنے کے باوجود بقائے باہمی کی بنیاد‘ یعنی دیتانت کی طرز پر بھی‘ معمول کے تعلقات بحال نہیں کر پائے۔ آج یہ نئی مثلث واضح طور پر حقیقت میں بدلتی نظر آ رہی ہے۔ سعودی عرب وہ طاقت ہے‘ جس نے اس نئی سٹریٹجک مثلث کا خواب دیکھا اور پھر زمینی حقائق کے ردوبدل میں مثبت کردار ادا کر کے‘ اس مثلث کو حقیقت میں بدلنے کی کوششیں شروع کیں۔ ان کوششوں کی ابتداء اس وقت ہوئی‘جب 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران‘ ذوالفقار علی بھٹو نے سربراہوں کے ایک خفیہ اجلاس میں‘ تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی تجویز پیش کی‘سعودی عرب کے شاہ فیصل نے‘ نہ صرف اس کی پرجوش تائید کی بلکہ بھٹو کے ساتھ مل کر‘تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی ایک تنظیم بنانے کی عملی کوششیں بھی شروع کر دیں۔ شاہ فیصل اور بھٹو دونوں کو جس طرح راستے سے ہٹایا گیا‘ وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک حصہ ہے۔ لیکن شخصیتوں کے رخصت ہوجانے کے بعد‘ ان کے پیش کردہ تصورات ختم نہیں ہوا کرتے۔ شاہ فیصل کی شہادت کے بعد ان کے جانشینوں نے طے کر لیا تھا کہ مستقبل میں سعودی عرب‘ عالمی امور میں اپنی تجارتی اور سیاسی پالیسیاں امریکی اثرات سے آزاد رہ کر بنائے گا۔ شاہ فیصل شہید ہو گئے، لیکن ان کی شہادت سے ان کے جانشینوں نے جو سبق حاصل کیا‘ اسے آج تک نہیں بھلایا جا سکا۔ 
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ بھٹو کی شہادت کے بعد ‘ پاکستان میں خودشناسی اور قومی آزادی کے جس نئے جذبے نے سر اٹھایا‘ اس کی ترجمانی کا ذمہ‘ ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ نے اٹھایا‘ جس کے صنعتی و تجارتی مفادات کو بھٹو نے بری طرح سے تباہ کیا تھا۔ نوازشریف اسی خاندان کے نمائندے ہیں۔ جس آزادی و خودمختاری کی پاداش میں بھٹو پھانسی پر چڑھے تھے‘ اس کا عَلم نوازشریف نے تھام لیا اور بھٹو نے قومی آزادی و خودمختاری کی بنیادی شرط پوری کرنے کے لئے جو ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا‘ اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ بم بنانے کی صلاحیت پاکستان بہت پہلے حاصل کر چکا تھا، لیکن اس کا عالمی سطح پر باقاعدہ اعلان کرنے کے لئے‘ اسی جرأت رندانہ کی ضرورت تھی‘ جو نوازشریف نے کر دکھائی۔ دنیا میں طاقت کے دو ہی بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ معاشی طاقت اور تباہ کاری کی طاقت۔ ایک طاقت سافٹ ہے اور دوسری ہارڈ۔ پاکستان اگر معاشی طاقت حاصل کرنے کا راستہ اختیار کر لیتا‘ توبھارت کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ‘ مقصد کا حصول مشکل ہوتا۔ نوازشریف نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ جس پر چلنے میں خطرات ضرور تھے لیکن کامیابی فوری اور یقینی تھی۔ جبکہ معاشی استحکام اور خوشحالی کا راستہ طویل بھی ہوتا اور پرخطر بھی۔ انسان اپنی طرف سے کیا سوچتا ہے؟ اور قدرت اس سے کیا کام لے رہی ہوتی ہے؟ نوازشریف بھٹو سے انتقام لینے کے لئے سیاست میں اترے، لیکن تاریخ نے ان سے بھٹو کے خواب کو تعبیر دینے کا کام لیا‘ جو انہوں نے پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو مستحکم بنیاد مہیا کرنے کے لئے دیکھا تھا۔پاکستان دشمن قوتوں نے نوازشریف کو بھی اسی انجام سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی‘ جس سے بھٹو کو دوچار کیا گیا تھا۔ نوازشریف بچ کیسے نکلے؟ 
پاکستان دشمنوں کے عزائم کی ناکامیاں دیکھ کر‘ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ نہج البلاغہ میں حضرت علیؓ کا 250واں قول ہے ''میں نے اللہ کو پہچانا‘ ارادوں کے ٹوٹ جانے‘ نیتوں کے بدل جانے اور ہمتوں کے پست ہو جانے سے۔‘‘ 1971ء کی شکست کے بعد بھارت نے پاکستان کو ہمیشہ کے لئے سرنگوں کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ اس نے جارحیت کا ارتکاب کر کے‘ پاکستان کو نصف حصے سے محروم کر دیا۔ نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو آئے۔ انہوں نے ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ جس کی پاداش میں بھٹو کوپھانسی لگا دیا گیا۔ضیاالحق نے بھٹو کی دشمنی میں نوازشریف کے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔نوازشریف نے سیاست ‘ پیپلزپارٹی سے حساب چکانے کی خاطر شروع کی۔ لیکن انہوں نے بھٹو کے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچا کے‘ وہی کام کر دیا‘ جو بھٹو صاحب چاہتے تھے۔ کس نے کیا چاہا اور قدرت نے کیا کیا؟ تحیرات کا سلسلہ یہیں پہ ختم نہیں ہوتا۔ جس وقت پاکستان نے ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کیا‘ اس وقت سعودی عرب ‘ امریکی غلبے سے آزاد ہونے کے راستے پر گامزن تھا۔ قدرت نے اسے زبردست مالیاتی قوت کا مالک بنا دیا تھا، لیکن جتنے بڑے کھیل میں سعودی عرب شامل ہونا چاہتا تھا‘ اس میں حصے دار بننے کے لئے سعودی عرب‘ طاقت کے دوسرے ستون سے محروم تھا۔ یعنی تباہ کاری کی حتمی صلاحیت۔ دوسرے لفظوں میں ایٹمی طاقت۔ طاقت کی علاقائی کشمکش میں‘ ایران اور سعودی عرب روایتی حریف ہیں۔ ایران نے انقلاب کے بعد‘ ایٹمی طاقت کے حصول کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ جس پر سعودی عرب شدید تشویش میںمبتلا تھا۔ سعودی قیادت کو اچھی طرح معلوم تھا کہ دنیا کی کوئی دوسری طاقت‘ اسے ایٹمی
صلاحیت حاصل کرنے کا موقع نہیں دے گی۔ قذافی کی کوششوں کا انجام سامنے آ چکا تھا اور سعودی عرب میںشاہ فیصل کی جانشین قیادت‘ دور جدید کی سیاست کاری میں کافی مہارت حاصل کر چکی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دوطرفہ تعلقات کی بنیادیں پہلے سے موجود تھیں۔ ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے لئے شاہ فیصل شہید نے ہی‘ پاکستان کی حوصلہ افزائی شروع کر دی تھی۔ سعودی عرب کی طرف سے کی جانے والی حوصلہ افزائی کا مطلب کیا ہے؟ یہ سب جانتے ہیں۔ یہ رشتہ ہمیشہ برقرار رہا۔ بھٹو کے زمانے میں بھی۔ ضیاالحق کے زمانے میں بھی۔ ضیاالحق کے بعد والے عشرے میں بھی۔ اس رشتے نے اس وقت نئی جہت اختیار کر لی‘ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کر دیئے۔ نوازشریف اور سعودی عرب کی سٹریٹجک انڈرسٹینڈنگ بڑی واضح تھی۔ سعودی عرب نے بدلتے ہوئے علاقائی حقائق کی روشنی میں‘ بھارت پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھی۔بھارت ‘ مسلم دنیا میں ایران کو اپنا ممکنہ حلیف سمجھتا تھا۔ سعودی عرب کے ساتھ اس کے تعلقات رسمی تھے۔ کیونکہ بھارت اور روس کے تعلقات زیادہ قریبی اور گہرے تھے اور سعودی عرب اس وقت امریکہ کے سرگرم حامیوں میں شامل تھا۔ اس پس منظر میں بھارت نے ایران کو سٹریٹجک پارٹنر بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر لی تھی۔ اس نے ایران سے تیل کی خریداری میں اضافہ شروع کر دیا اور چاہ بہار کی بندرگاہ کو ترقی دے کر اپنے لئے وسطی ایشیا کے ساتھ رابطوں کے متبادل راستے تعمیر کرنے کے منصوبے تیار کر لئے۔ ان پر عملدرآمد کے ابتدائی اقدامات کر لئے گئے تھے۔ ان رابطوں میں پاکستان کوشریک کرنے کی خاطر‘ گیس پائپ لائن میں پاکستان کو شامل کر لیا گیا۔ یہ تعاون نئی سردجنگ میں گیم چینجر ثابت ہو سکتا تھا۔ روس اور بھارت کے درمیان زمینی راستے کھل جاتے‘ تو امریکہ کی سٹریٹجک پوزیشن پر‘ شدید ضرب لگ سکتی تھی۔ امریکہ اور سعودی عرب کو ہنگامی طور پر فوری جوابی اقدام کرنا پڑا۔ امریکہ نے ایران کو ''پرامن‘‘ ایٹمی ٹیکنالوجی کی پیش کش کر دی۔ سعودی عرب نے تیل کی فروخت کے لئے‘ بھارت کے سامنے بہتر شرائط رکھ دیں۔ یہاں تک کہ بھارت کے ساتھ سٹریٹجک تعاون کا معاہدہ کر کے‘ اس کی توانائی کی ضروریات کی فراہمی کے انتظامات کو آسان اور محفوظ بنا دیا۔ امریکہ کی طرف سے ایٹمی تعاون اور سعودی عرب کی طرف سے آسان شرائط پر تیل مہیا کرنے کی ضمانت حاصل کر کے‘ بھارت کا بنیادی مسئلہ یعنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بہتر آپشنز دے دیں۔ ایران کے معاملے میں امریکہ اور سعودی عرب ابھی تک ایک پیج پر نہیں آئے۔ لیکن ان کی وسیع تر سٹریٹجک پارٹنرشپ آج بھی قائم ہے۔ سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات کی نوعیت ‘بھارت کو امریکہ کے ساتھ تعاون برقرار رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ روس ‘ بھارت کو چین کے مقابلے میں وہ ضمانتیں اور سہولتیں مہیا نہیں کر سکتا‘ جو امریکہ دے رہا ہے۔ سعودی اور بھارتی سٹریٹجک تعاون کے عمل میں‘ پاکستان کی شرکت ایک نئی علاقائی مثلث کا خاکہ تیار کر رہی ہے۔ اس کے بے شمار مضمرات ہیں۔ جن کا جائزہ لینے کے لئے مزید ایک قسط لکھنا پڑے گی۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں