سیاست ہی نہیں ‘زندگی کے ہرشعبے میں ٹائمنگ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔دنیا کی بیشتر جنگیں اور تنازعات محض اس وجہ سے رونما ہوئے کہ اس وقت کے لیڈروں نے‘ بروقت فیصلوں کے موقعے سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ہمارے موجودہ بحران کی وجہ بھی یہی ہے۔ جو مسئلہ آج پور ی قوم کے لئے‘ پریشانیوں کا باعث بنا ہوا ہے اگر اس کا جائزہ لیا جائے کہ ابتدا کہاں سے ہوئی؟تو آپ حیرت سے کہیں گے ''بس اتنی سی بات تھی‘‘؟ واقعی یہ بڑی بات نہیں تھی۔ انتخابات کے بعد‘ ان میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں اور جماعتوں کا یہ حق ہوتا ہے کہ جسے بھی پولنگ میں کسی قسم کی خرابی یا دھاندلی کی شکایت ہو‘ وہ اپنا معاملہ لے کر‘ الیکشن ٹربیونل کے پاس جاتا ہے۔ اگر بر وقت دادرسی ہوجائے تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ کوئی فریق فیصلے پر مطمئن نہ ہو تو سپریم کورٹ کا رخ کرتا ہے اور جہاں کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے نتائج ایسے تھے کہ ان میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے اپنے اپنے طور پر‘ دھاندلی کی شکایت کی۔ بہت سے امیدوار الیکشن ٹربیونل کے پاس چلے گئے اور دوسرے احتجاج کرتے رہ گئے۔ کوئی غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا امیدوار تو دوبارہ گنتی کرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دوبارہ گنتی کے لئے‘ کم از کم پچاس لاکھ سے لے کر‘ ایک کروڑ روپیہ تک خرچ ہو جاتا ہے۔اچھا خاصا خوشحال امیدوار بھی انتخابی مہم میں اتنی رقم خرچ کر چکا ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ گنتی کے لئے‘ مزید اتنی بڑی رقم صرف نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں شاید ہی کبھی ایسے انتخابات ہوئے ہوں‘ جن کے نتائج پرتمام فریقوں نے اظہار اطمینان کیا ہو۔ کسی نہ کسی بڑی پارٹی کو شکایت رہی کہ اس کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔خصوصاً نوے کے عشرے میں‘ جو دو بڑی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف‘ الیکشن میں حصہ لیا ۔ان میں سے ہارنے والی پارٹی یہی شکایت کرتی رہ گئی کہ اس کے خلاف دھاندلی ہو گئی ہے۔ بعد میں تحقیق سے بھی یہی ثابت ہوا کہ بعض نادیدہ قوتوں نے انتخابی نتائج میں ردوبدل کر کے‘ ایک مخصوص پارٹی کو فائدہ پہنچایا۔جنرل ضیاء الحق کی ناگہانی موت کے بعد‘ ہونے والے
چار انتخابات کا ریکارڈ دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں کوشکایت رہی کہ انہیں اقتدار سے محروم رکھنے کے لئے‘ انتخابی نتائج میں‘ ردوبدل کیا گیا۔ مثلاًطویل مارشل لا کے بعد1988ء میں جو انتخابات ہوئے‘ ان کی کہانیاں آج تک زبان زدعام ہیں۔ اب یہ راز نہیں رہ گیا کہ بے نظیر کو شکست دینے کے لئے‘ آئی ایس آئی نے مختلف جماعتوں کو جمع کر کے‘ جو متحدہ محاذ بنایا‘ اس نے پوری کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو کو شکست دی جائے لیکن پیپلز پارٹی مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ اس کے بعد بے نظیر حکومت کو ختم کر کے1990ء میں انتخابات کرائے گئے توخفیہ ایجنسیوں کی مدد سے مسلم لیگ نے کامیابی حاصل کی۔ اس پر پیپلز پارٹی نے احتجاج کیا کہ اس کے ساتھ دھاندلی ہو گئی ہے۔1993ء میں نوازشریف کی حکومت کو ناجائز طور پر ختم کر کے‘ انتخابات کرائے گئے توعوامی رحجان کے برعکس‘ پیپلز پارٹی کو کامیاب قرار دیا گیا۔ان انتخابات کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ رات کے 12بجے تک نوے فیصدنتائج نوازشریف کے حق میں آرہے تھے۔اس کے بعد نتائج کا سلسلہ روک دیا گیا۔شب کے دو اڑھائی بجے مزید انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے توحیرت انگیز طور سے‘ ان کا رخ بدل گیا اور صبح تک پیپلز پارٹی کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ نومبر1996ء میں غیر متوقع طور پر‘ بے نظیر بھٹو کی حکومت ایک مرتبہ پھر برطرف کی گئی اور1997ء کے انتخابات میں نوازشریف بھاری اکثریت سے کامیاب دکھائے گئے۔ ان چاروں انتخابات کے نتائج متنازع رہے۔ آج یہ دونوں جماعتیں ان انتخابات میں‘ دھاندلی کا زیرلب یا برملا اعتراف کرتی ہیں۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں پہلے انتخابات2002ء میں ہوئے ۔ دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہوں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے بغیر‘ جو انتخابی نتائج آئے‘ ان میں یہی دو بڑی پارٹیاں زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوئیں اور دونوں ہی اس پوزیشن میں تھیں کہ مخلوط حکومت بنا لیں لیکن کامیاب پارٹیوں کے جوڑ توڑکے ذریعے‘ حکومت کے زیر سرپرستی ایک تیسری جماعت بنا دی گئی اور اقتدار اس کے سپر دہو گیا۔ اس میں سب سے زیادہ امیدوار پیپلز پارٹی کے تھے۔ جو ایک علیحدہ گروپ بنا کر‘ حکومت میں شامل ہوئے۔2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو دھاندلی کی شکایت رہی اور پیپلز پارٹی کو مخلوط حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔2013ء کے انتخابی نتائج سب کے لئے حیران کن تھے۔ جیسا کہ شروع میں لکھ چکا ہوں کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے دھاندلی کی شکایت کی لیکن بطور جماعت‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی جماعت کے خلاف ہونے والی دھاندلی پر شدید احتجاج شروع کر دیا اورآزمائشی طور پر‘ 4حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر کے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر ضمنی انتخابات کے نتائج میں بھی وہی امیدوار جیت گئے جو2013ء میں کامیاب ہوئے تھے تو وہ دھاندلی کے خلاف اپنی مہم ختم کر کے‘2013ء کے
انتخابی نتائج تسلیم کر لیں گے۔جو 4حلقے منتخب کئے گئے ان میں تحریک انصاف کے امیدوار عثمان ڈار‘ جہانگیر ترین‘ حامد خان اور عمران خان تھے۔ممکن ہے اگر ان چار حلقوں میں مسلم لیگ(ن) کے عام اراکین اسمبلی‘ متاثر ہو رہے ہوتے تو (ن) لیگ دوبارہ گنتی کا مطالبہ مان لیتی لیکن ان میں مسلم لیگ(ن) کے تین بڑے لیڈر خطرے میں تھے۔ جن میں سیالکوٹ سے خواجہ محمد آصف‘ لاہور سے خواجہ سعد رفیق اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق شامل تھے۔ مسلم لیگ(ن) نے اسی وجہ سے دوبارہ گنتی کا مطالبہ ماننے میں‘ لیت و لعل سے کام لیا۔تحریک انصاف دوبارہ گنتی کے تمام تقاضے پورے کر کے‘اپنے مطالبے پر اصرار کرتی رہی اور مسلم لیگ(ن) بغیر کسی معقول جواز کے‘ چاروں مذکورہ حلقوں میں‘ دوبارہ گنتی سے انکار کرتی رہی۔ اگر ابتدا ہی میں عمران خان کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کر کے‘ اس کا حل ڈھونڈ لیا جاتا تو کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ جہانگیر ترین والے حلقے میں مسلم لیگ(ن) کا امیدوار‘ پارٹی کا اہم لیڈر نہیں تھا اور ویسے بھی ضمنی الیکشن میں وہاں آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔ سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو چکے تھے۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف دو ایسے لیڈر تھے‘ جن میں سے کوئی ایک امیدوار مضبوط نظر آتا‘ اس کے حلقے میں دوبارہ گنتی تسلیم کر لی جاتی۔ گویاان چاروں حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کو اپنی پارٹی کے دو نمایاں اراکین کی نشستیں گنوانا پڑتیں۔ ضروری ہوتا تو ہارنے والے دونوں امیدواروں کو ضمنی انتخاب میں‘ دوبارہ کامیاب کرایا جا سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے دونوں فریق مذاکرات کے ذریعے‘ باہمی سمجھوتہ کر کے‘ ایک دوسرے کو رعایت دے دیتے مثلاً مسلم لیگ(ن) اپنے دو اہم امیدواروں کو محفوظ رکھنے کے لئے‘ باقی ماندہ دو نشستوں پر دوبارہ گنتی قبول کر لیتی تو مسئلہ حل کیا جا سکتا تھا۔مسلم لیگ(ن) کے پاس اتنی اکثریت موجود ہے کہ وہ ایک یا دو نشستوں سے محرومی‘ آسانی سے برداشت کر سکتی تھی اور وفاق میں اپنی حکومت ہونے کی وجہ سے‘ اپنے ہارے ہوئے امیدوار کے لئے کہیں سے بھی ضمنی الیکشن کا انتظام کر کے‘ اسے واپس قومی اسمبلی میں لا سکتی تھی۔ میں نے صرف مثالیں دی ہیں۔ دونوں پارٹیاں بات چیت کے ذریعے‘ کوئی حل نکالنا چاہتیں تو یہ ممکن تھا۔ کوئی بھی مسئلہ ابتدا میں آسانی سے حل کیا جا سکتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ‘ اگر وہ پیچیدہ ہوتا چلا جائے تو حل تلاش کرنا مشکل تر ہو جاتا ہے۔مسلم لیگ(ن) بروقت فیصلے کو التوا میں ڈالتے ڈالتے‘ آج یہاں تک آگئی کہ اس کا اقتدار خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔آج وہ ان چاروں نشستوں پر دوبارہ گنتی کے لئے آمادگی ظاہر کر رہی ہے‘ جن کا مطالبہ عمران خان نے کیا تھا اور اب تو دس نشستو ں کا ذکر آنے لگا ہے۔ صورت حال اب اتنی خراب ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو شاید پورے ملک میں قبل از وقت انتخابات پر تیار ہونا پڑے۔اس صورت میں وہ انتخابی شکست سے بھی دوچار ہو سکتی ہے کیونکہ مسلم لیگ(ن) اپنے دوراقتدار کے14مہینوں میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائی۔ اس نے بڑے بڑے منصوبوں کو ترجیح دے کر‘ عوامی مسائل کو نظر انداز کر دیا اور شاید یہ سوچا کہ بڑے منصوبوں کی تکمیل پر وہ عوام کو زیادہ فائدہ پہنچا کے‘ آئندہ انتخابات میں اپنی کامیابی کا راستہ ہموار کر لے گی لیکن ایک چھوٹے سے مسئلے کو حل کئے بغیر‘ آگے بڑھ جانا ہمیشہ پُرخطر ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنے خلاف لکھی گئی‘ ایک ایف آئی آر کی پروا نہیں کی تھی ‘ ان کی یہی غلطی انہیں پھانسی تک لے گئی۔ (ن) لیگ کے قائدین خوش نصیبی سے کسی ایسے خطرے میں نہیں آئے۔ اگرانتخابی اصلاحات کے بعد‘ قبل ازوقت انتخابات پر اتفاق کر لیا جائے تو جمہوریت محفوظ رہ سکتی ہے لیکن موجودہ بحران کا سیاسی حل نکالنے میں ناکامی ہوئی تو پھر یقینا جمہوریت ہی خطرے میں آ جائے گی۔ یہ فیصلہ کرنا حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کا کام ہے کہ اسے حکومت بچانا ہے یا جمہوری نظام؟ مزید دیر ہوئی توشاید یہ چوائس بھی میسر نہ آئے۔ان دنوں شریف برادران کے خلاف قتل کی ایف آئی آر لکھوانے کی بہت کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان سے ابھی قانونی طور پر‘ نمٹنے میں غفلت کی گئی تو یہ بروقت فیصلہ نہ کرنے کی ایسی غلطی ہو گی‘ جس کی تلافی کرنا شاید اختیار میں نہ رہے۔