2اکتوبر سے کشمیر میں جنگ بندی کی جو خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں‘ انہیں ماضی کی طرح‘ روایتی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان میں پہلا فرق تو یہ ہے کہ بھارت نے دونوں ملکوں کے سیکرٹریز کے درمیان مذاکرات کا طے شدہ پروگرام منسوخ کیا۔ 2اکتوبر کو جنگ بندی لائن کی خلاف ورزیاں شروع ہو گئیں۔ جو مسلسل جاری ہیںاور ان میں دونوں طرف ہونے والا نقصان کافی زیادہ ہے۔ پاکستان کے ایک عسکری ماہر کے مطابق‘ جس سطح پر اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے‘ اسے چھوٹی جنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری تبدیلی یہ ہے کہ دس بارہ دن گزرنے کے باوجود‘ متاثرہ علاقوں کے کمانڈروں میں بات چیت نہیں ہو سکی‘ جو عموماً تھوڑی سی گولہ باری کے بعد ہو جاتی ہے اور دونوں فریق ایسے انتظامات کرتے ہیں کہ آئندہ جنگ بندی کی خلاف ورزی نہ ہو۔اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تیسری اور بنیادی تبدیلی‘ بی جے پی کی حکومت کا قیام ہے۔ یہ جماعت پہلی مرتبہ واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی ۔ طویل مدت کے بعد بھارت میں کسی پارٹی نے‘ مددکے بغیر‘ حکومت قائم کی ۔ کشمیر کے معاملے میں ‘نئی حکمران پارٹی واضح مقاصد رکھتی ہے۔ان میں اہم ترین یہ ہے کہ بی جے پی ‘ بھارتی آئین میں ترمیم کر کے‘ کشمیر کو ‘ بھارت کا آئینی حصہ قرار دے کر‘ اسے ہمیشہ کے لئے‘ ریاستی عملداری میں لانا چاہتی ہے۔ جب تک یہ پارٹی حکومت میں نہیں تھی‘ کشمیر پر بھارتی قبضے کو مستقل کرنے کا مطالبہ کرتی رہی۔ اب یہ واضح منصوبہ رکھتی ہے کہ اپنے دوراقتدار میں‘ اس مطالبے کو حقیقت میں بدل دیا جائے۔ ان نئے حقائق کی روشنی میں ‘ بھارت کے عزائم کا سامنا کرنے کے لئے‘ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے ہمیں‘ دونوں ملکوں میں پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کے طریقہ کار کا جائزہ لینا ہو گا۔بھارت کی طرف سے ہمیشہ پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہاں کے منتخب حکمرانوں کا دفاعی و خارجی امور خصوصاً‘ بھارت ‘ امریکہ اور افغانستان کے بارے میں پالیسی پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ انہیں وہی کرنا پڑتا ہے‘ جو فوج چاہتی ہے۔ میں اس معاملے میں کسی حیل و حجت سے کام نہیں لوں گا۔ یہ الزام سوفیصد درست نہیں۔ لیکن بعید ازحقیقت بھی نہیں۔ اس الزام کو برسوں سے دہرایا جا رہا ہے۔ آج تک حکومتی سطح پر اور ہمارے دانشوروں کی طرف سے‘ اس کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہم اس الزام پر یوںخاموش رہتے ہیں‘ جیسے یہ ہماری کمزوری ہو۔ آج تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ دنیا میں کونسا ملک ایسا ہے‘ جس کی منتخب حکومت ‘ دفاعی اور خارجہ امور میں‘ سکیورٹی کے اداروں سے مشاورت اور ان کی اِن پُٹ کے بغیر پالیسیاں بناتی ہو؟اسی طرح وہ کونسا ملک ہے‘ جہاںانتہائی اہمیت کے حامل ملکوںکے ساتھ‘ باہمی امور کے بارے میں پالیسیاں بناتے وقت‘ ان دونوں اداروں سے مشاورت نہ کی جاتی ہو؟ ہم پر جن تین ملکوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے‘ سکیورٹی فورسز کے ساتھ مشاورت کو الزام بنا کر پیش کیا جاتا ہے‘ کیا ان سے ہمارے تعلقات سنگاپور‘ ملائشیا یا برازیل کی طرح کے ہیں؟ کیا ہم ان تینوں میں سے کسی کے ساتھ مل کر یا کسی کے خلاف جنگ میں ‘حصہ نہیں لیتے رہے؟کیا دونوں صورتوں میں یہ ہماری ضرورت نہیں تھی کہ ہم باہمی سفارتی اور دفاعی امور میں‘ متعلقہ اداروں سے مشاورت کرتے؟ ہم 1948ء سے بھارت کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ ہمیں قدم قدم پر بھارت کی جارحانہ چالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فوجی تصادم ہوتے رہتے ہیں۔ کشمیر پر بھارت کے عزائم واضح ہیں۔بھارت نے مشرقی پاکستان کو‘ جو ہمارے ملک کا آئینی اور قانونی حصہ تھا‘فوج کشی کر کے‘ ہم سے علیحدہ کر دیا۔ مغربی پاکستان پر وہ‘ دو مرتبہ حملہ کر چکا ہے اور ہمارے دو صوبوں کے اندر علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کی عملی مدد کرتا ہے۔ ہم‘ بھارت کے ان جارحانہ عزائم سے بچنے کے لئے‘ اپنی سکیورٹی فورسز اور فوجی کمان سے مشورہ نہیں لیں گے‘ تو کیا بھارت سے پوچھیں گے؟ افغانستان میں35 سال سے ایسی خانہ جنگی جاری ہے‘ جس میں دوسپرطاقتیں ملوث رہیں۔وہاں کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے قوم پرستوں اور دہشت گردوں نے پاکستان میں اپنے مراکز قائم کر رکھے تھے۔ سوویت یونین اور امریکہ‘ دونوں سپرپاورز تھیں۔ امریکہ آج بھی ہے۔ ہم ان کے امکانی ردعمل کے بارے میں کس سے پوچھ سکتے تھے؟ اور ردعمل ہوتا‘ تو جوابی تیاریوں کے لئے ہمیں کون بتا سکتا تھا؟ سردجنگ میں ہم‘ امریکہ کے فوجی اتحادی تھے اور افغانستان کی جنگ میں‘ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی ہم مل کر مدد کر رہے تھے۔ گویا ہم گوریلا جنگوں میں مل کر حصہ لیتے رہے۔ جنگی معاملات میں منتخب حکومتیں کس سے مشاورت کرتی ہیں؟افغانستان کی جنگ میں‘ فوج اور وائٹ ہائوس کے درمیان کیا کچھ ہوتا رہا؟ اس کی تفصیل میڈیا اور کتابوں میں موجود ہے۔ وہاں تو صدر اوباما پر کسی نے الزام نہیں لگایا کہ وہ اپنے فوجی کمانڈروں کے دبائو میں کام کرتے ہیں۔ یہ دبائو نہیں ہوتا‘ ماہرانہ مشاورت کے تقاضے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں لاجواب ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ہاں وہی کچھ ہوتا ہے‘ جو پوری دنیا میں صدیوں سے ہو رہا ہے۔
بھارتی میڈیا اور دانشور‘ جنہوں نے اس بات کو ہمارے لئے طعنہ بنا رکھا ہے‘ ان کے اپنے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا بھارت کی دفاعی پالیسیاں فوج سے مشورہ کئے بغیر بنائی جاتی ہیں؟ کیا چین کے ساتھ تعلقات کے معاملات میں بھارتی حکومت‘ فوج کی مدد نہیں لیتی؟ اور کیا پاک بھارت تعلقات میں‘ بھارتی فوج کا عمل دخل نہیں ہوتا؟ پاکستانی فوج نے داخلی وجوہ کے پیش نظر چار مرتبہ اقتدار پر قبضہ کیا۔جہاں تک ہمارے داخلی معاملات کا تعلق ہے‘ اس سے کسی کو غرض نہیں ہونا چاہیے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ فوج نے اقتدار میں آ کر‘ امریکہ‘ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں کونسی بنیادی تبدیلی کی؟ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات‘ جس طرح سے چلتے آ رہے تھے‘ اسی طرح چلائے گئے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بھی یہی صورتحال ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں‘ جس طرح کا اتار چڑھائو فوجی حکومتوں کے زمانے میں آیا‘ اسی طرح جمہوری حکومتوں کے ادوار میںآتا رہا۔ ملکوں کے باہمی تعلقات کا فیصلہ‘ محض اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ نہیں کرتے۔ اس طرح کے فیصلے پوری ریاستی مشینری کرتی ہے۔ صرف عملدرآمد کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوتی ہے‘ جو اس کے ذمہ دار ہوں۔ رہ گیا یہ سوال کہ پاکستان میں فوج کا عمل دخل زیادہ رہا‘ تو یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔امریکہ کے بارے میںہم سب جانتے ہیں کہ وہاں پالیسی سازی کے عمل میں کبھی پینٹاگون حاوی ہوتی ہے اور کبھی نیشنل سکیورٹی کونسل۔ کبھی کانگرس غلبہ پا لیتی ہے اور کبھی وزارت خارجہ۔ یہ حالات کی نوعیت پر ہوتا ہے کہ کس ادارے میں‘کونسی طاقتوراور اپنی مہارت پر عبور رکھنے والی شخصیتیں ‘ دوسرے اداروں کے سربراہوں پر حاوی آ جاتی ہیں۔ بھارت میں پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کا زمانہ کسے یاد نہیں؟ کسی معاملے میں سردار پٹیل کی رائے غالب آ جاتی تھی اور کسی میں پنڈت نہرو کی۔
گزشتہ چند سال سے بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ پاکستان سے کیسے مختلف ہے؟ کشمیر کے معاملے پرپہلے تو سنا جاتا تھا کہ فوج‘ بھارت کی منتخب حکومت کا بس نہیں چلنے دیتی۔ اب تو اس کی مثالیں سامنے آ چکی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے شرم الشیخ میں‘ پاکستانی وزیراعظم سے کچھ وعدے کئے۔ واپس وطن گئے‘ تو موجودہ حکمران پارٹی بی جے پی نے‘ و ز یراعظم کی وہ درگت بنائی کہ وہ اپنے وعدوں ہی سے مکر گئے۔ بی جے پی اور بھارتی فوج میں بیٹھے انتہاپسندوں اورجنرلوں کے رابطے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس سے پہلے بھارتی وزیراعظم نے‘ سیاچن پر جا کر اعلان کیا کہ وہ اسے امن کا پہاڑ بنانے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف نے ملازمت میں رہتے ہوئے‘ صاف اعلان کر دیا کہ فوج ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ تازہ ترین مثال خارجہ سیکرٹریز کے مابین مذاکرات کی اچانک تنسیخ ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ہمارے ہائی کمشنر نے‘ حریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات کر لی تھی۔ بھارت کے سیاستدان تو حریت کانفرنس سے مذاکرات بھی کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بی جے پی والے بھی۔ اس بار کیا ہوا؟ حریت پسندوں کا مقابلہ کس سے ہے؟ ظاہر ہے فوج سے۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں‘ فیصلہ سازی کے عمل پر فوج کا غلبہ ہو گا۔ سیکرٹریوں کے مذاکرات ‘ فوج ہی کے دبائو میں منسوخ ہوئے۔ حریت کانفرنس سے رابطہ کرنے پر فوج ہی حکومت کو دبائو میں لائی اور آنے والے دنوں میںجو کچھ کشمیر میں ہو گا‘ وہ فوج ہی کرے گی۔ 65سال سے جاری تنازع کشمیر میں جنگ بندی کا کھیل اسی طرح جاری نہیں رہے گا۔ بھارت والوں نے سوچ سمجھ لیا ہے۔ ہم نے ایسا نہیں کیا‘ تو بلاتاخیر سوچنے سمجھنے کا عمل شروع کر دینا چاہیے۔جس پالیسی لاک نے دونوں ملکوں کو ‘ زمینی حقائق بدلنے سے روک رکھا ہے‘ اب اس کا ٹوٹنایقینی ہے۔ بھارت نے توڑ دیا۔ ہم نہیں توڑیں گے‘ تو خسارے میں رہیں گے۔