وسط ستمبرسے کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور عالمی سرحدوں پر‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان تباہ کن فائرنگ کا جو تبادلہ ہو رہا ہے‘ یہ نہ تو حادثاتی ہے اور نہ ماضی کی سرحدی خلاف ورزیوں کا تسلسل۔ ماضی میں زیادہ تر خلاف ورزیاں‘ لائن آف کنٹرول کی ہوا کرتی تھیں‘ دونوں ملکوں کی طرف سے مختلف اور فوری وجوہ کی بنا پر‘ فائرنگ کا تبادلہ ہو جاتا لیکن جلد ہی سیکٹر کمانڈروں کی میٹنگ میں معاملات طے کر کے‘ فائر بندی بحال کر دی جاتی تھی۔ زیادہ تر خلاف ورزیاں بھارت کی طرف سے ہوا کرتیں‘ اور الزام لگایا جاتا کہ پاکستان کی طرف سے مسلح مداخلت کار‘ مقبوضہ کشمیر میں تخریب کاری کے لئے داخل ہو رہے ہیں۔ انہیں روکنے کے لئے بھارتی فوجیوں کو فائر کھولنا پڑا۔ یہ فائرنگ‘ زیادہ سے زیادہ دو چار دن میں ختم ہو جایا کرتی تھی۔ اس مرتبہ یہ سلسلہ بھارت کی طرف سے شروع ہوا اور ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ قریباً چھ ہفتے کی سرحدی خلاف ورزیوں کے بعد‘ سیکٹر کمانڈرز کی ایک میٹنگ ہوئی لیکن فوراً ہی خلاف ورزیاں بھی شروع کر دی گئیں۔ یہ سلسلہ ماضی سے اس لئے مختلف ہے کہ پہلے بھارت کی طرف سے جب بھی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی جاتی‘ جواب میں عذر پیش کیا جاتا کہ پاکستان کی طرف سے مسلح دہشت گرد سرحدپار کر رہے تھے یا ان کی نقل و حرکت جاری تھی۔ بھارت کی طرف سے انہیں روکنے کے لئے فائر کھولا گیا‘ لیکن اکتوبر سے فائرنگ کا جو سلسلہ مسلسل جاری ہے‘ بھارت کی طرف سے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی جا رہی۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ خلاف ورزیاں اچانک واقعات کے نتیجے میں نہیں ہو رہیں‘ یہ بھارتی حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اس کے متعدد شواہد موجود ہیں۔
موجودہ بھارتی حکومت کے سربراہ‘ نریندر مودی نے‘ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی‘ اعلان کر دیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میںآ گئے تو ''پاکستان سے ہونے والی دہشت گردی پر‘ زیرو ٹالرنس (Zero Tolerance) کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ پاکستان کے ساتھ جب تک ہم اسی کی زبان میں بات نہیں کریں گے‘ اس وقت تک پاکستان کوئی سبق حاصل نہیں کرے گا‘‘۔ مودی صاحب نے اپنے آپ کو بطور مرد آہن پیش کرتے ہوئے‘ دعویٰ کیا ''دشمن نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے کہ وقت بدل چکا اور اس کی روایتی حرکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی‘‘۔ انہوں نے نئی پالیسی کا نعرہ دیتے ہوئے کہا ''یہ وقت خالی باتوں کا نہیں ہے۔ بولی کے جواب میں بولی ہو گی اور گولی کے جواب میں گولی‘‘۔ اگر مودی صاحب کی دھمکیوں میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو ان کے وزیر دفاع‘ ارون جیٹلی نے اس کی مزید وضاحت کر دی۔ انہوں نے پاکستان کو ''سخت‘‘ وارننگ دیتے ہوئے کہا ''بھارتی فوج خاموش نہیں رہے گی‘ ہم پاکستانی فوج کو متعدد محاذوں پر انگیج کریں گے کیونکہ جب سے جھڑپیں شروع ہوئی ہیں‘ پاکستان کی طرف سے جارحیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘‘۔ پنجابی میں اسے ''آٹا گوندی ہلدی کیوں ایں‘‘؟ اردو میں یوں کہا جا سکتا ہے ''آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو‘‘؟ یہ خوئے بد را بہانہ بسیار‘ کی ایک شکل ہے۔ معمولی عقل و فہم کا انسان سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان‘ بھارت کے ساتھ چھیڑ خانی سے کسی فائدے کی توقع نہیں کر سکتا۔ داخلی طور پر ہم دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ ہیں۔ پاکستانی فوج‘ ملک کے بڑے حصے میں‘ دہشت گردوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ میں مصروف ہے۔ افغانستان کی طرف سے‘ ہمارے علاقوں میں مداخلت ہوتی رہتی ہے۔ حال میں ایران کے ساتھ بھی‘ سرحدی صورت حال معمول کی نہیں رہ گئی۔ ایران کے مسلح دستے‘ موقع بہ موقع پاکستانی علاقے میں داخل ہو کر‘ سرحدی محافظوں کو شہید کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ کراچی میں سماج دشمن عناصر‘ طالبان اور سیاسی دہشت گردوں نے‘ ہماری سکیورٹی فورسز کو انگیج کر رکھا ہے‘ جن میں فوج کی ایک شاخ‘ رینجرز بھی شامل ہے۔ سیاسی طور پر قریباً دو ماہ سے‘ ہمارے ملک میں مسلسل احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ملک شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے۔ یکے بعد دیگرے‘ دو تباہ کن سیلابوں کے اثرات سے ہماری معیشت ابھی تک سنبھل نہیں پائی۔ قحط اور زلزلوں کی تباہ کاریوں کے اثرات‘ اپنی جگہ پریشان کن ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی بھی حکومت‘ بھارت جیسے بڑے پڑوسی کے ساتھ‘ سرحدی خلاف ورزیاں کر کے‘ اسے مشتعل کرنے کا نہیں سوچ سکتی۔ خود بھارتی دانشور اور اہل الرائے‘ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی طرف سے مودی حکومت کی غلط الزام تراشیوں پر اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے ''میکزمو (Machismo) (اترانا) کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف بنایا گیا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دبائو کی پالیسی کسی بھی وقت گھوم کر کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے‘‘۔
پاکستان میں خدمات انجام دینے والے‘ ایک بھارتی سفارت کار نے رائے دی ''طاقت کا معمول سے زیادہ مظاہرہ ہی‘ وہ چیز ہے‘ جو پاکستانی فوج چاہتی ہے اور ہم اس کے جال میں پھنس رہے ہیں‘‘۔ جبکہ بعض دوسرے دانشوروں کی رائے تھی ''مودی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار ہی نہیں‘ مودی کی پالیسیوں کو آزمانے کے لئے‘ پاکستانی دانستہ جو صورت حال پیدا کر دیتے ہیں‘ مودی کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں رہتا کہ اس سے باہر نکل کر‘ کوئی حل تلاش کریں‘‘۔ اس مباحثے کے علاوہ‘ ایسے بہت سے مسائل ہیں‘ جن کا تعلق پاکستان کے بارے میں‘ مودی کی نئی لائن سے ہے۔ اس پر خاص توجہ نہیں دی جا رہی مثلاً مودی جہادی گروپوں اور خود پاکستان میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ یہ جہادی گروپ پاکستانی ریاست کے خلاف‘ بھی برسر پیکار ہیں لیکن دہلی‘ ریاست پاکستان اور جہادی گروپوں کو ایک ہی سمجھتا ہے۔ نتیجے میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان‘ ٹکرائو کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے‘ جس کی دو مثالیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردی کی جو واردات ہوئی‘ ا س کے ردعمل میں بھارت نے‘ فوراً ہی پاکستان کے خلاف مہم شروع کر دی‘ سرحدوں پر فوج لگا دی گئی۔ کئی روز تک یہ خطرہ برصغیر پر منڈلاتا رہا کہ دونوں ملکوں میں کسی بھی وقت‘ باقاعدہ جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ یہ خطرہ بے بنیاد نہیں تھا۔ اگر امریکی حکومت بروقت مداخلت کر کے‘ بھارتی حکومت کو قائل نہ کرتی‘ تو جنگ شروع ہو سکتی تھی لیکن بعد میں جب بھارتی حکومت نے تحقیقات کیں اور مقدمات چلائے تو دہشت گردی کے ذمہ دار بھارتی جبروتشدد کا نشانہ بننے والے لوگ نکلے۔ اسی طرح جب ممبئی میں دہشت گردی کے افسوس ناک واقعات ہوئے‘ جن میں بھارتی شہریوں کے ساتھ کئی بیرونی ملکوں کے شہری بھی‘ موت کا نشانہ بنے۔ اس وقت بھی بھارتی حکومت نے‘ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا اور جنگ کی سی صورت حال پیدا کر دی۔ اس وقت بھی امریکہ اور دیگر بااثر ملکوں نے درمیان میں آ کر‘ تصادم اور کشیدگی کی فضا کو ختم کیا لیکن دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات‘ معمول پر لانے کی پھر بھی کوشش نہیں کی گئی۔
بی جے پی کی حکومت نے‘ کنٹرول لائن اور عالمی سرحدوں کی خلاف ورزیوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے‘ یہ اتفاقیہ واقعات کا نتیجہ نہیں۔ ایک باقاعدہ منصوبے کا حصہ ہے‘ جس کا ثبوت بھارتی وزیر اعظم‘ وزیر دفاع اور دوسرے لیڈروں کے بیانات ہیں‘ جن میں یہ بات زور دے کر کہی جاتی ہے کہ ''ہم پاکستان کو سبق سکھا رہے ہیں‘‘۔ یہ بیانات از خود اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں‘ اتفاقیہ حادثات کا نتیجہ نہیں‘ بھارت کی اس طے شدہ پالیسی کا نتیجہ ہے‘ جس کے تحت وہ پاکستان پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے‘ طاقت آزمائی پرآمادہ ہے۔ یہ پالیسی سیاسی نعرے بازیوں تک محدود ہو تو نظر انداز کی جا سکتی ہے۔ انتخابی بیانات میں اس کا اظہار بھی مقامی ضروریات کی وجہ سے ممکن ہے لیکن جب کوئی حکومت‘ جس کے تصرف میں تمام ریاستی ادارے ہوتے ہیں‘ وہ اترانا شروع کر دے تو معاملہ سنجیدگی اختیار کر لیتا ہے۔ بھارتی حکومت اور اس کے ترجمان جس راستے پر چل رہے ہیں‘ وہ تصادم کی طرف جاتا ہے۔ ان کے بیانات میں ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایڈونچر بھی کر بیٹھیں گے۔ بھارت کی پیدا کردہ کشیدگی کے نتیجے میں‘ جو نئی طاقتیں متحرک ہو سکتی ہیں‘ ان پر پاکستان اور بھارت‘ دونوں کا اختیار نہیں ہو گا۔ مثال کے طور پر‘ پچھلے دنوں دہشت گردوں کے ایک گروپ نے‘ ایک پاکستانی فریگیٹ پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ یہ حملہ انتہائی مہارت سے تیار کی گئی سازش کے تحت ہوا۔ پاکستان کے حفاظتی دستوں نے بروقت کارروائی کر کے‘ منصوبے کو ناکام بنا دیا۔ خدانخواستہ اگر پاکستان دشمن‘ دہشت گردوں کا یہ گروپ کامیاب ہو جاتا اور بھارت کے کسی جنگی جہاز پر اینٹی شپ میزائل چلا دیتا تو صورت حال کیا بنتی؟ بھارت کی سابقہ حکومتیں نارمل حالات میں‘ دہشت گردی کے معمولی واقعات پر‘ جنگ کی تیاریاں کرتی رہی ہیں لیکن بحری جنگی جہاز پر تباہ کن حملے کی اطلاع پا کر‘ پہلے سے حالت اشتعال میں آئے ہوئے‘ بھارتی حکمران کیا کچھ کر سکتے تھے؟ یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں‘ جن سے پاکستان اور بھارت ہی نہیں‘ دنیا بھر کے اہل فکر پریشان ہیں۔ میں نے ایک چھوٹی سی مثال دی ہے لیکن بھارت کے موجودہ حکمرانوں کی جو ذہنی کیفیت ہے‘ اس کی موجودگی میں پونے‘ دو ارب انسانوں کا مستقبل خطرے میں آ چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں‘ ایٹمی طاقتیں ہیں۔ جنگ میں کوئی دوسرے کو شکست نہیں دے سکتا؛ البتہ دونوں ایک دوسرے کو تباہ کر کے پونے دو ارب انسانوں کو موت اور موت سے بھی بدتر‘ زندگی میں دھکیل سکتے ہیں۔ ہم دونوں کے لئے واحد راستہ یہی ہے کہ عقل و ہوش کا راستہ اختیار کریں۔ طاقت کے نئے ذرائع کو اگر صدیوں پرانے تصورات اور تعصبات کے ذریعے‘ استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔