پاک امریکہ تعلقات کی بحالی

'' جنرل کیانی مذاکرات کے دوران بہت کم بولتے ۔ ان کے خیالات میں بھی شفافیت نہیں تھی۔ ان کے برعکس' جنرل راحیل بولتے کم اور کر کے زیادہ دکھاتے ہیں۔ وہ الفاظ میں نہیں' عمل میں بولتے ہیں۔ امریکی ان کے ساتھ' خود کو آسودہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ جنرل راحیل جو کہتے ہیں' عمل بھی کر کے دکھاتے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ ریٹائرڈ جنرل جاوید اشرف قاضی کے ہیں' جو انہوں نے جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ سے پہلے ''واشنگٹن پوسٹ ‘‘کے نمائندے سے کہے ۔ امریکیوں کی نظر میں جنرل کیانی' ان دہشت گردوں کے خلاف' کارروائیوں میں قابل اعتماد'اتحادی نہیں تھے جو افغانستان کے اندر جا کے ' دہشت گردی کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ چار سال سے پاکستانی فوج کے کسی سربراہ کو امریکہ میں خوش آمدید نہیں کہا گیا لیکن آرمی چیف جنرل راحیل شریف گزشتہ دنوں' اپنے پہلے دورے پر' امریکہ پہنچے تو ان کا غیر معمولی خیر مقدم کیا گیا۔ امریکیوں نے شمالی وزیرستان میں ' ان کی قیادت میں جاری آپریشن کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جنرل راحیل جو کہتے ہیں ' وہ کر کے دکھاتے بھی ہیں۔افغانستان میں فوجی خدمات انجام دینے والے ' امریکی لیفٹیننٹ جنرل 'جوزف اینڈریسن نے شمالی وزیرستان آپریشن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ''پاکستان سے کارروائیاں کرنے والے 'حقانی گروپ کا نیٹ ورک اب زخموں سے چُور چُور ہے ۔ اب وہ اس قابل نہیں رہ گیا کہ افغانستان میں' دہشت گردی کی بڑی کارروائیاں کر سکے‘‘۔ فوجی ماہرین کے تبصروں سے ' وزیراعظم نوازشریف کے دورہ امریکہ کے لئے ' راستہ ہموار ہوا۔پاک افغان تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ' حامد کرزئی تھے ۔نئے افغان صدر اشرف غنی کے اقتدار سنبھالتے ہی' دونوں ملکوں کے رابطوں میں تیزی آئی۔نئی حکومت نے کرزئی کی پالیسیاں مسترد کر کے ' مختلف انداز میں کام شروع کیا ۔ امریکہ' جو افغانستان سے مکمل انخلا کے منصوبے بنا رہا تھا' نظر ثانی پر مجبور ہو گیا اور اس نے مزید ایک سال تک' افغانستان میں دس ہزار کے قریب امریکی فوجی رکھنے کے معاہدے پر دستخط کر دئیے ۔ اشرف غنی نے ' بھارت کے ساتھ ' ہتھیاروں کی خریداری کے مذاکرات معطل کر دئیے ۔یہ پاکستان اورچین ' دونوں کے لئے مثبت اشارہ تھا۔اشرف غنی نے حکومتی معاملات کنٹرول میں لیتے ہی چین کا کامیاب دورہ کیا' جس سے پاکستان کو مزید اطمینان ہوا کہ حکومت خطے میں نئی پالیسی تشکیل دے رہی ہے ۔ پاکستان میں بجا طور پر'یہ امید پیدا ہوئی کہ افغانستان کرزئی کی طرح صرف بھارت پر انحصار کرنے کے بجائے ' دوسری طرف بھی دیکھ سکتا ہے ۔ چین جغرافیائی اعتبار سے 
افعانستان کے زیادہ قریب ہے ۔ دونوں ملکوں کی سرحدیں واخان کے مقام پر' ملتی ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے بعد' اگر کوئی ملک افغانستان میں زیادہ ترقیاتی کام کر رہا ہے تو وہ چین ہے ۔ اس نے افغانستان کے قدرتی وسائل سے استفادہ کر نے کا ایک بڑا انفراسٹرکچر پہلے ہی سے کھڑا کر رکھا ہے ۔ نئے حالات میں چین کے کردار میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور پاکستان بجا طور سے یہ توقع کر رہا ہے کہ بھارت ' امریکی افواج کے انخلا کے بعد' اپنے اثرورسوخ میں اضافے کے جو منصوبے بنا رہا تھا' وہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ جب افغانستان کی تعمیر نو کے عمل میں چین کے عمل دخل میں اضافہ ہو گا تو وہاں پاکستان کے لئے بھی حالات سازگار ہوسکتے ہیں۔
یہ کہنا تو قبل ازوقت ہو گا کہ بھارت افغان تعلقات' کیا رخ اختیار کریں گے ؟۔ ابھی خطے میں مزید تبدیلیاں رونما ہوتی نظر آرہی ہیں۔ان تبدیلیوں کا تعلق' بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں حائل رکاوٹیں دور کرنے سے ہے ۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے برسراقتدار آتے ہی ' امریکہ سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کر لیں تھیں۔ انہوں نے تجارت اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے لئے ' جو امیدیں لگائیں تھیں' ان کے دورہ امریکہ کے دوران ' وہ پوری نہ ہو سکیں۔ اس سلسلے میں جو مذاکرات ہوئے ' ان میں مودی' بھارت میں سرمایہ کاری اور باہمی تجارت میں اضافے کے لئے ' زیادہ تعاون کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن امریکیوں نے محسوس کیا کہ بھارت حسب روایت ' امریکہ سے تو ہر قسم کے تعاون کی امید رکھتا ہے لیکن خود کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ مودی جو بڑی بڑی امیدیں لے کر' امریکہ گئے تھے ' وہ پوری نہ ہو سکیں۔ ظاہر ہے مودی حکومت نے دو نوں ملکوں کے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لے کر سوچا ہو گا کہ وہ' امریکہ کو پوری طرح مطمئن کرنے کے لئے ' کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ امریکہ بھی باہمی تعلقات کو زیادہ عرصے تک' سرد خانے میں نہیں رکھ سکتا تھا۔ مودی نے نئی تیاریوں کے بعد' دوبارہ اعلیٰ سطحی رابطے کے لئے ' جنوری میں بھارت کے یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت کے لئے ' صدر اوباما کو دعوت دی' جو انہوں نے قبول کر لی گئی۔ان سے پہلے ' چین کے صدر اسی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کر چکے تھے ۔
ماضی میں روایت تھی کہ کوئی بھی اعلیٰ امریکی عہدیدار 'برصغیر کے دورے پر آتا تووہ' بھارت کے پاکستان کو ضرور شامل کرتا۔ یہ روایت بہت عرصے تک جاری رہی لیکن صدر کلنٹن نے عملی طور پر ' اس روایت کو ختم کر دیا۔ امریکہ کو شکایت تھی کہ پاکستان نے کولیشن سپورٹ پروگرام میں حصہ دار بن کر' دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرنے کے جو سمجھوتے کئے تھے ' ان پر پوری طور عمل نہیں کیا گیا۔امریکیوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی فوجیوں کی ہلاکتوں پر شدید غم وغصہ تھا' جس کا وقتاً فوقتاً اظہار کیا گیا۔ سلالہ چیک پوسٹ کا واقعہ' شدید امریکی خفگی کا اظہار تھا۔پاک امریکہ تعلقات میں' بدمزگی کشیدگی کی حدوں کو چھونے لگی تھی۔ حد یہ ہے جب پاکستانی صدرزرداری ' امریکہ گئے ' تو انہیں مہمان صدر سے رسمی ملاقات کا موقع بھی نہیں دیا گیا حالانکہ سفارتی سطح پر اس کی کوشش کی گئی تھی۔امریکہ کے رویے میں تبدیلی اس وقت شروع ہوئی جب جنرل راحیل شریف نے ' دہشت گردوں کے ساتھ حکومتی مذاکرات کو نظر انداز کرتے ہوئے ' شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر دیا۔ امریکی انتظامیہ نے اس اقدام کو بڑی توجہ سے دیکھا اور اسے یہ رپورٹیں ملیں کہ پاکستانی فوج کا یہ آپریشن بلا امتیاز اور بے حد موثر ہے ۔جب امریکیوں کو یقین ہو گیا کہ جنرل راحیل شریف' دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی میں سنجیدہ ہیں 'تو انہیں اس پالیسی پر خیرمقدمی سگنل ملنے لگے ۔ا مریکی نمائندوں نے ان سے ملاقاتیں کیں۔ باہمی اعتماد میں مزید اضافہ ہو اور جنرل راحیل شریف کو دورہ امریکہ' کی باضابطہ اور خصوصی دعوت دی گئی۔ امریکہ کے سکیورٹی سسٹم' کے تمام اہم شعبوں میں' انہیں بطو رمہمان مدعو کیا گیا۔انہیں خصوصی فوجی میڈل سے نوازا گیا۔ا س دورے کو' ہر لحاظ سے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے ۔پاک امریکہ اور علاقائی تعلقات' میں جو پیچیدگیاں پیدا ہو چکی تھیں' بڑی حد تک اس دورے کے نتیجے میں دور ہو گئیں۔افغانستان کے ساتھ' جو دیرینہ کشیدگی چلی آرہی تھی' وہ ختم ہونے لگی۔ جس کا ٹھوس ثبوت جنرل راحیل شریف کا وہ بیان ہے 'جس میں انہوں نے داعش سمیت دہشت گرد تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی کا اعلان کیا ہے ۔تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خصوصاً پاکستان اورافغانستان میں دہشت گردوں اور داعش کے خلاف ' کارروائیوں کے لئے پاکستان نے نہ صرف ذمہ داریاں قبول کر لی ہیں بلکہ امریکہ نے مکمل اعتماد کرتے ہوئے ' پاکستان کے ساتھ ازسرنو تعاون 
شروع کرنے اور بڑھانے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے ۔صدراوباما ' بھارت کے دورے کا فیصلہ کافی دن پہلے کر چکے تھے ۔ اگر جنرل راحیل کے دورے سے پہلے کی صورت حال برقرار رہتی تو امکان تھا کہ وہ بھارت کے دورے کے لئے پاکستان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرتے ۔ میں صدر اوباما کے ٹیلی فون کو' جنرل راحیل کے دورے کے مثبت نتائج میں سے ایک سمجھتا ہوں۔ صدراوباما نے وزیراعظم نوازشریف کو یقین دلایا کہ وہ پاک امریکہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے خصوصی طور پر'افغانستان کے ساتھ تعلقات میں ہونے والی مثبت پیش رفت کی تعریف کی ۔ دونوں حکومتوں کے ترجمانوں کی طرف سے 'ٹیلی فون پر ہونے والی اس گفتگو کے بارے میں کوئی سرکاری بیان تو دیکھنے میں نہیں آیا۔اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ صدر اوباما نے اپنے دورہ بھارت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 'پاکستان اور بھارت کے مابین' موجودہ کشیدگی ختم کرنے کے لئے اپنے میزبانوں سے بات کریں گے ۔ خبر ہے کہ امریکہ نے دہلی میں رابطے بھی شروع کر دئیے ہیں۔ مذاکرات کا جو سلسلہ' معطل ہو چکا ہے ' ان کی بحالی کے سوال پر بات چیت چل رہی ہے ۔جنرل راحیل نے امریکہ کا یہ دورہ انتہائی اہم اور فیصلہ کن لمحات میں کیا ۔ یہی وقت ہے جب خطے میں باہمی تعلقات کی نئی جہتیں تلاش کی جارہی ہیں خصوصاً افغانستان میں بحالی امن کے لئے ' ہر علاقائی اور عالمی طاقت اپنا کردار اد ا کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے ۔چین اور امریکہ' افغانستان میں بحالی امن کے عمل کو کامیابی سے آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں خصوصاً وہ طاقتیں جو افغانستان کی متوقع خانہ جنگی سے براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہو سکتی ہیں'ان میں چین' بھارت اور روس بھی شامل ہیں۔افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی' مقبوضہ کشمیر' چین اور وسطی ایشیا میں اپنی کارروائیوں کا دائرہ پھیلا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں جلدازجلد امن اور استحکام' سب کی مشترکہ ضرورت بن گئی ہے ۔ روس اور چین اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں اور وہ پاکستان کے کردار کی بھی ضرورت محسوس کرتے ہیں صرف بھارت کا اعتماد حاصل کرنا مشکل ہے ۔توقع کی جارہی ہے کہ امریکہ ' بھارت کوافغانستان میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار پر اعتماد میں لینے کی کوشش کرے گا۔ اگر راہ نکل آئی تو یہی تعاون آگے بڑھ کر پاکستان اور بھارت میں بھی شروع ہو سکتا ہے ۔ایران کو بہر حال افغانستان میں ہونے والی کوششوں میں حصے دار بننا ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔بات آگے بڑھی تو ہم جلد ہی' پاکستان اور ایران کے مابین 'سفارتی رابطوں کا ایک نیا سلسلہ دیکھیں گے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں