مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کے عزائم

آخر کار بی جے پی‘ کشمیری قوم کی مشترکہ جنگ آزادی میں دراڑیں ڈال کر ‘ ہندو مسلم منافرت کی بنیاد پر ‘ کشمیری قوم کو تقسیم کرنے کے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ انتہاپسند ہندو قیادت‘ تعصب میں ایسی انتہائوں تک پہنچ جاتی ہے‘ جن کی لپیٹ میں آ کر معاشرہ متحد اور منظم نہیں رہ سکتا۔ تحریک پاکستان کا مطالعہ کرنے والے‘ طالب علم اس بات پر متفق ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے حامی‘ محمد علی جناح ؒ کو مطالبۂ پاکستان کی طرف دھکیلنے والے‘ انتہاپسند ہندو لیڈر تھے۔ قائدؒ نے متحدہ ہندوستان میں رہ کر‘ مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت پر ‘ ہندوستان کو متحد رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی‘ لیکن گاندھی سے لے کر نہرو تک‘ ہر کانگریسی لیڈر نے ان مطالبات کو آئینی تحفظ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کی مکمل تاریخ کتابوں میں موجود ہے۔ قائد اعظمؒ نے آخری کوشش اس وقت کی‘ جب انہوں نے کیبنٹ مشن پلان کو معمولی ردوبدل کے ساتھ قبول کر لیا تھا‘ لیکن قائداعظمؒ کی اس آخری کوشش کو بھی پنڈت نہرو نے ناکام بنایا‘ جبکہ نہرو کے اس خیال کو ولبھ بھائی پٹیل نے انتہائی شکل دے دی۔ مورخین کہتے ہیں کہ کیبنٹ مشن پلان کے تحت بھی آزادی کا جو بنیادی خاکہ پیش کیا گیا تھا‘ اس میں مسلمانوں کے بجائے ‘ ہندوئوں کے مفادات کو واضح طور پر تحفظ دیا گیا تھا‘ لیکن اس پلان کے تحت ‘ پنڈت نہرو کی وزارت عظمیٰ کی ضمانت نہیں دی گئی تھی‘ جبکہ نہرو اپنے لئے اس منصب کی ضمانت چاہتے تھے۔ اتنی سی بات پر قائداعظمؒ کو تقسیم کے حتمی مطالبے پر مجبور کر دیا گیا۔ 
تنازعہ کشمیر کی اپنی ایک تاریخ ہے‘ جسے برصغیر کی تاریخ کا ہر طالب علم اچھی طرح جانتا ہے۔ کشمیری عوام‘ آزادی کی جنگ جیتنے کے قریب تھے کہ بھارت گھبراہٹ کے عالم میں یہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ میں چلا گیا اور بے بنیاد الزام تراشیوں پر مبنی شکایت کر کے‘ سلامتی کونسل سے مداخلت کا مطالبہ کر دیا۔ بھارت کی شکایت یہ تھی کہ پاکستان ‘فوجی طاقت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے‘ اس لئے اقوام متحدہ اس امر کی ضمانت دے کہ پاکستان ‘ کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف ‘ ان پر کوئی انتظام مسلط نہ کرے۔ پاکستان اس حقیقت کو منوانے میں ناکام رہا کہ تقسیم کے فارمولے کی بنیاد پر مہاراجہ کشمیر‘ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ بھارت نے اسی دلیل کو بنیاد بنا کر حیدر آباد دکن پر قبضہ کیا‘ لیکن جب جوناگڑھ اور مناودر کے مہاراجوں نے تقسیم کے بنیادی اصول کی روشنی میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا‘ تو ان دونوں ریاستوں پر فوج کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا۔ ایک نوزائیدہ مملکت کی حیثیت میں پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے‘ ایک نئی ریاستی مشینری تیار کرنا تھی۔ پاکستان کے حصے کی فوج ابھی تک وطن میں آ کراپنی ذمہ داریاں نہیں سنبھال پائی تھی۔ بھارت نے اپنے سائز اور سفارتی طاقت کے ذریعے‘ ناانصافی کی بنیاد پر تنازعہ کشمیر کو عالمی حیثیت دلوا دی اور خود ہی تنازعہ کشمیر کے حل کا فارمولا‘ یو این میں پیش کر کے‘ کشمیری عوام سے حق خود ارادیت کا جو وعدہ کیا گیا تھا‘ اسے طویل عرصے تک موقوف رکھا گیا اور جیسے جیسے بھارت‘ کشمیر پر اپنا فوجی قبضہ مستحکم کرتا گیا‘ اپنے وعدوں سے انحراف کرتا رہا۔ کشمیری عوام سے بار بار وعدے کئے گئے کہ انہیں اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دیا جائے گا‘ لیکن جب وہ تمام عالمی طاقتوں کو اپنے ناجائز قبضے کا حامی بنا چکا‘ تو اس نے کشمیر کو ہمیشہ کے لئے ہضم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ بظاہر کانگریس اور بی جے پی متضاد پالیسیوں کی دعویدار ہیں‘ لیکن کشمیر کے معاملے پر ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ کانگریس نے بھی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو فوجی طاقت کے بل بوتے پربے رحمی سے کچلا‘ عالمی رائے عامہ کی پروا نہیں کی اور پاکستان کے داخلی مسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ کشمیریوں کی تحریک آزادی مسلسل ناکام بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ بھارت نے بارہا مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابات کرا کے‘ دنیا کو منوانے کی کوشش کی کہ کشمیری عوام نے انتخابات میں حصہ لے کر‘ بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر دیا ہے‘ لیکن نہ تو بھارت کے اس دعوے کو کشمیری قوم نے قبول کیا اور نہ ہی پاکستان نے آج تک تسلیم کیا ہے‘ لیکن حالات و واقعات کے ساتھ اب پوزیشن میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ 
بی جے پی نے حالیہ انتخابات میں‘ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت داخلی خود مختاری کی جو ضمانت دی گئی ہے‘ اسے ختم کرنے کی تجویز کو منشور کا حصہ بنا دیا‘ حالانکہ اس شق میں کشمیر کو داخلی خودمختاری دے کر‘ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اسے بھارتی ریاست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ یہ شق ختم کرنا‘ بھارت کی عالمی ضمانتوں کے بھی خلاف ہے۔ کشمیری عوام اور پاکستان‘ دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقوام متحدہ سے اپیل کر کے‘ بھارت کو آرٹیکل 370 ختم کرنے سے روکیں۔ مگر اب حالات ایسے ہیں کہ نہ تو پاکستان کو سلامتی کونسل میں اراکین کی مطلوبہ تعداد کی حمایت مل سکتی ہے اور نہ اب کشمیری قوم کا دیرینہ اتحاد قائم رہ سکے گا۔ ابھی تک کشمیری قوم نے متحد رہ کر‘ داخلی خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لئے مضبوطی سے جدوجہد کی اور بلاامتیاز مذہب اپنی اس خصوصی حیثیت سے دست بردار ہونا قبول نہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں باربار انتخابات کے باوجود‘ بھارت کشمیری عو ام کو داخلی خود مختاری کے حق سے محروم رکھنے میں ناکام رہا‘ مگر حالیہ انتخابی نتائج نے صورتحال کو یکسر بدل دیا ہے۔ حکمران جنتا پارٹی کا دعویٰ اب یہ ہے کہ بھارتی عوام نے کشمیریوں کو داخلی خودمختاری کی جو گارنٹی دے رکھی تھی‘ حالیہ انتخابات میں ووٹروں نے اسے ختم کرنے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے‘ حالانکہ بھارت کی حکومت اور نہ ہی عوام کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم کر کے‘ انہیں آزادی کے حق سے‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم کر دیں۔ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد‘ مقبوضہ کشمیر میں جو انتخابات منعقد کرائے‘ ان میں واضح طور سے ہندومسلم ووٹوں کو‘ مذہبی نفرت کی بنیاد پر تقسیم کر دیا۔ ماضی میں خودمختاری کے سوال پرکشمیری قوم اتحاد کا مظاہرہ کرتی رہی اور وہاں جو انتخابات منعقد کرائے گئے‘ ان کا بائیکاٹ کر کے ثابت کیا کہ نام نہاد اسمبلیوں کو ‘ عوامی نمائندگی کا کوئی اختیار حاصل نہیں‘ لیکن بی جے پی نے ہندومسلم نفرت کی بنیاد پر ‘ ووٹوں کو تقسیم کر دیا۔ جموں میں ہندوئوں اور سکھوں کو اکثریت حاصل ہے‘ جبکہ وادی میں مسلمان اور لداخ میں بدھ مت کے پیرو کار اکثریت میں ہیں۔ بھارت کے گزشتہ عام انتخابات میں لداخ کی نشست پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کر لی تھی‘ لیکن حالیہ انتخابات میں لداخ اور وادی ‘ دونوں کے ووٹروں کی بھاری اکثریت نے کشمیری قوم پرستوں کے حق میں فیصلہ دیا۔ نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کی نئی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن ایسی ہو گئی کہ بی جے پی کو سازش کرنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ ریاستی اسمبلی میں بی جے پی نے صرف 25نشستیں حاصل کیں‘ جبکہ حکومت بنانے کے لئے 44نشستوں کی ضرورت تھی۔ کشمیری قوم پرستوں میں سب سے زیادہ نشستیں پی ڈی پی کو ملیں‘ جو 28 ہیں ۔ بی جے پی کی نشستیں 25 ہیں۔ نیشنل کانگریس کی 15 ہیں اور انڈین کانگریس کی 12۔ صورتحال یہ ہے کہ نئی ریاستی حکومت بنانے کے لئے بی جے پی کو ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں‘ لیکن بی جے پی کے بغیر جو حکومت بھی بنے گی‘ بی جے پی کی متعصب قیادت اسے کبھی نمائندہ تسلیم نہیں کرے گی اور دہلی میں اپنی حکومت کی طاقت کا استعمال کر کے‘ ریاستی حکومت کے لئے کام کرنا مشکل بنا دے گی۔ پی ڈی پی نے بہت کوشش کی کہ اس کی اکثریتی حیثیت کو تسلیم کر کے‘ وزارت اعلیٰ اسے دی جائے لیکن بی جے پی ‘جو سازش کے تحت‘ ریاستی اسمبلی میں داخل ہوئی ہے‘ وزارت اعلیٰ کی کرسی اپنے پاس رکھنے پر بضد ہے۔ یوں اس نے بی جے پی کے بغیر ریاستی حکومت کا قیام ناممکن بنا دیا اور ہندو غیرہندو کا سوال کھڑا کر کے‘ ریاست میں گورنرراج کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ گورنر‘ بھارتی حکومت کا نمائندہ ہے۔ اس طرح بی جے پی نے انتخابات میں شکست کے باوجود‘ ریاستی اقتدار اپنے قبضے میں کر لیا ہے اور وہ اپنی اس پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘ ریاستی اسمبلی کے باقی نمائندوں کو بلیک میل کر کے‘ وزارت عظمیٰ پر اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہونے لگا ہے۔ ایک طرف بی جے پی‘ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے‘ اسے بھارت کا حصہ بنانے پر تلی ہے‘ تو دوسری طرف ریاستی پارٹیاں اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں‘ لیکن بی جے پی ‘ بھارت پر اپنی حکومت کی طاقت استعمال کر کے‘ کشمیریوں کے اس حق کو بھی سلب کرنے پر تلی ہے‘ جو انہیں بھارتی آئین نے دے رکھا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان ‘ سلامتی کونسل یا عالمی عدالت میں جانے کی کوشش ضرور کر سکتا ہے‘ لیکن اقوام متحدہ‘بھارت کے دبائو کی وجہ سے کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب جو کچھ بھی ہو گا‘ کشمیری عوام کو کرنا پڑے گا۔وہ 67سالوں سے قربانیاں دیتے آ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آزادی کشمیر کی جنگ کو‘ مقبوضہ کشمیر کے عوام کب تک جاری رکھ سکتے ہیں؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں