آج باراک اوباما ‘بھارت کے65ویں یوم جمہوریہ کی تقریبات میں بطور چیف گیسٹ شرکت کرنے والے‘ پہلے امریکی صدرہوں گے۔ یہ اعزاز روایتی طور پر‘ بھارت اپنے انتہائی قریبی دوستوں اور اتحادیوں کو دیتا ہے۔اس بار بنیادی فرق یہ ہے کہ بطور وزیراعظم‘ نریندر مودی نے بھارت کی غیر جانبداری کی دیرینہ خارجہ پالیسی کا رخ بدل دیا ہے۔ اب تک بھارت ‘عالمی تعلقات میں روس کا سٹریٹیجک ساتھی تھا ۔ مودی حکومت نے پرانی خارجہ پالیسی کو خیرباد کہتے ہوئے‘ بھارت کے قومی مفادات‘ امریکہ کے ساتھ‘ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کے ذریعے وابستہ کر لئے ہیں۔ صدر اوباما‘ بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کر کے‘ وزیراعظم مودی کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا عملی اظہار کریں گے۔مودی نے آزادی کے بعد کی خارجہ پالیسی کی تمام روایات کو ایک طرف رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ پارٹنر شپ کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ یوں تو وہ ابتدا ہی سے امریکی اتحادی تھے لیکن انہوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی کا رخ بدلنے کا کبھی اعلان نہیں کیا تھا۔من موہن سنگھ کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ‘ تعلقات کی نوعیت بدلنا شروع کی تھی لیکن وہ غیر جانبدارانہ پالیسی کا رسمی اعلان ضرور کرتے رہے اور روس کے ساتھ اپنی دیرینہ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کو بظاہر برقرار رکھا۔ روسیوں نے اندازہ کر لیا تھا کہ بھارت کا جھکائو‘ امریکہ کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔اسی لئے اکتوبر2012ء میں‘ صدر پوٹن نے پاکستان کے دورے کا پروگرام بنایا۔ وہ2تاریخ کو پاکستان آنے کی تیاری کر چکے تھے لیکن بھارتی حکومت نے اس پارٹنر شپ کو خطرے میں دیکھ کر‘ صدر پوٹن کے خدشات دور کرنے کی اتنی موثر کوششیں کیں کہ صدر پوٹن نے اپنا یہ دورہ‘ اچانک منسوخ کر دیا جبکہ پوٹن اس وقت کے صدر‘ زرداری کو ایک خط لکھ چکے تھے‘ جس میں انہوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعاون میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔اس وقت بھارت‘ روس کے ساتھ کئی بلین ڈالر کے اسلحے کی خریداری پر مذاکرات کر رہا تھا۔ یقینا بھارت نے صدر پوٹن کے دورۂ پاکستان کو روکنے کے لئے‘ یہ سودا منسوخ کرنے کی دھمکی دی ہو گی۔ اس وقت امریکہ افغانستان سے اپنی افواج نکالنے پر غور کر رہا تھا۔ امریکی افواج کی واپسی کے بعد‘ روس کی خواہش تھی کہ وہ افغانستان میں‘ دوبارہ اپنے قدم جمائے اور وہ کابل کے ساتھ روابط استوار کرنے کے لئے‘ بھارت کی مدد کا خواہش مند تھا۔ اس وقت پاک افغان تعلقات میں شدید کشیدگی تھی جبکہ کرزئی حکومت کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہت قریبی تھے ۔ پاکستان‘ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو پوری طرح سمجھ نہیں پا رہا تھا اور روس کے ساتھ تعلقات بڑھا کر‘ امریکہ کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پاکستانی حکومت نے خود بھی امکانی نتائج کو دیکھتے ہوئے صدر پوٹن کو دورے سے روک دیا۔ ظاہر ہے امریکی دبائو بھی موجود تھا۔ من موہن سنگھ حکومت بھی ‘بھارت کی پالیسی میں مکمل تبدیلی کا خطرہ مول لینے سے ڈر رہی تھی کیونکہ ان کی حکومت کا انحصار کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے تعاون پر تھا۔وہ اپنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دبائو میں جدید امریکی اسلحہ کی خریداری میں تو اضافہ کر رہے تھے لیکن روس کی آزمودہ دوستی سے دستبردار ہونے میں انہیں تردد تھا۔
بی جے پی واضح طور سے‘ کمیونزم مخالف جماعت ہے اور مودی اس کے انتہا پسند گروپ کے لیڈر ہیں۔ بھارت کا ابھرتا ہوا سرمایہ دار‘ یورپ اور امریکہ کی مارکیٹیوں میں زیادہ حصہ لینے کے لئے بے چین تھا ۔ اس کی خواہش تھی کہ بھارت جب امریکہ سے اسلحہ کی خریداری کے بڑے بڑے سودے کرنے میں مصروف ہے تو کیوں نہ امریکی حکمرانوں سے‘ بدلے میں اپنے لئے بہتر تجارتی شرائط حاصل کی جائیں۔من موہن سنگھ حکومت کو متذبذب دیکھ کر‘ بھارتی سرمایہ داروں نے اپنا وزن بی جے پی کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد بھارتی سیاست میں جو طوفانی تبدیلیاں آئیں‘ وہ حیرت انگیز تھیں۔ انتخابات قریب آگئے تھے اور بی جے پی کے پاس وزارت عظمیٰ کا امیدوار موجود نہیں تھا۔ کئی سنیئر لیڈر‘ پارٹی میں اپنی خدمات کی بنیاد پر قیادت کے حقدارتھے اور بی جے پی بطور پارٹی‘ متفقہ طور سے ایسا لیڈر منتخب کرنے میں مشکلات سے دوچارتھی‘ جسے وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے قوم کے سامنے پیش کر سکے۔ ان حالات میں سرمایہ دار لابی متحرک ہوئی اور بی جے پی کو انتخابات میں کامیاب کرانے کے لئے‘ کھلا سرمایہ جھونک دینے کا یقین دلاتے ہوئے مشورہ دیا کہ اگرنریندر مودی کو امیدوار چن لیا جائے تو وہ ہر ممکن کوشش کر کے‘ بی جے پی کو کامیاب کرائیں گے۔نریندر مودی‘ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت میں‘ بھارتی سرمایہ داروں کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کر چکے تھے۔ انہوں نے اپنے صوبے گجرات میں سرمایہ داروں کو کھلی آزادی مہیا کی ۔انہیں سرکاری زمینیں اونے پونے داموں دے کر‘ کارخانے لگوائے اور صوبائی ٹیکسوں میںتوقعات سے زیادہ رعایات دیں۔ اس طرح مودی‘ بھارت کی سرمایہ دار لابی کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت تک مودی‘ امریکہ کے پسندیدہ امیدوار نہیں تھے لیکن ملکی سرمایہ دار لابی کا ایک بڑا حصہ‘ ان کی حمایت پر آماد ہ ہو گیا۔ اس طرح بھارتی اور امریکی سرمایہ داروں نے مل کر‘ نریندر مودی کو دیکھتے ہی دیکھتے‘ ایک مقبول قومی لیڈر کے طور سے آگے بڑھا دیا۔ جس طرح بھارت کے الیکٹرانک میڈیا نے‘ بیک آواز اور اندھا دھند مودی کی حمایت کی‘ وہ نیم ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں اپنی مثال آپ ہے۔
مودی کی شاندار فتح‘ مکمل طور پر دائیں بازو کے ووٹروں کی بھر پور حمایت کا نتیجہ تھی۔ کانگریسی حکومتیں بہت عرصے تک تو اپنی پارٹی کے اندر موجود بائیں بازو کے گروپوں کے دبائو میں رہیں اور جب من موہن سنگھ کی حکومت آئی تو وہ اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے لئے‘ بائیں بازو کے سیاست دان اتحادیوں کی محتاج تھی۔ وہ نئے حقائق اور اندرونی دبائو کی وجہ سے پالیسی میں مکمل تبدیلی سے ڈرتی رہی۔ امریکہ کے ساتھ اسلحے کی خریداری کے معاہدے ہوتے رہے اور بھارتی سرمایہ دار‘ امریکہ اور مغرب کی منڈیوں میں‘ اپنے لئے راستے کھولتے رہے۔ اس طرح بھارت کے سرمایہ دار‘ نئی بورژوائی اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ‘ روسی اسلحہ کی کمتری کو دیکھتے ہوئے‘ امریکہ سے جدید ٹیکنالوجی اور اسلحہ خریدنے کے لئے دبائو ڈالتی رہی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ جب امریکہ ایک بار کسی ملک کی اسٹیبلشمنٹ‘ سکیورٹی سسٹم اور مارکیٹ میں قدم جما لے‘ تو پھر وہ ادرک کے پنجوں کی طرح نیچے نیچے چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔یہی کچھ اس نے بھارت میں کیا۔
جب نریندر مودی بھر پور اور فیصلہ کن کامیابی کے ساتھ‘ بھارت کے وزیراعظم بنے تو امریکہ نے زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے‘ مودی کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا جبکہ حقیقت میں وہ بھارت کے قابل اعتماد اتحادی اور پسندیدہ لیڈر تھے۔ وہ ‘ امریکہ جانے سے پہلے اس کے قریبی اتحادی ملکوں کے دوروں پر گئے اور بعد میں امریکہ کا دورہ رکھا۔امریکہ کے دورے میں ہر چند دونوں نے پارٹنر شپ کی بنیادیں اور دائرے وسیع کرنے کے منصوبے بنا لئے لیکن پراپیگنڈے سے گریز کیا گیا۔ صدر اوباما کا موجودہ دورہ بھی غیر رسمی انداز میں رکھا گیا۔ انہیں بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں چیف گیسٹ کی حیثیت سے مدعو کرنا ‘ایک رسمی سی کارروائی کے طور پر دکھایا گیا جبکہ اس کے پردے میں بڑے ٹھوس اور بنیادی سودے کئے جائیں گے۔یوں سمجھئے کہ بھارت کی دیرینہ غیر جانبدارانہ پالیسی‘ اب ماضی کا حصہ بن کر رہ جائے گی۔بھارت اور امریکہ کے درمیان2005ء میں ڈیفنس اور سکیورٹی پارٹنر شپ کا ایک دس سالہ معاہدہ ہوا تھا‘ اب دس سال کی مدت ختم ہونے پر اس کی تجدید کر دی جائے گی۔اس کے ساتھ ہی سٹریٹیجک پارٹنر شپ کے دھارے کو مزید وسیع کرتے ہوئے ٹریڈ‘ ٹیکنالوجی ٹرانسفر ‘ کو پروڈکشن‘ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوجی کارروائیاں اور سکیورٹی کے استحکام کے لئے‘ کئی جزوی معاہدے کئے جائیں گے۔ مشترکہ فوجی مشقوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا اور اگلے دس برس میں امریکہ ‘بھارتی مارکیٹ سے روس کو باہر نکال کر ڈیفنس مارکیٹ پر اپنی اجارہ داری قائم کر لے گا۔امریکہ نے بھارت کو پر امن ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا جو محدود معاہدہ کیا تھا‘ اس کی حدودکو وسعت دیتے ہوئے‘ بھارت کے مطالبات پورے کر دئیے جائیں گے۔ بھارت‘ چین اور پاکستان کی طرف سے مفروضہ خطرات کا سامنا کرنے کے لئے‘ امریکہ سے اتحادی کے درجے کا تعاون مانگے گا۔ سٹریٹیجک اتحادی کی حیثیت سے بھارت ڈیفنس‘ انڈسٹری اور اسلحہ کی ماڈرنائزیشن کے لئے‘ امریکہ سے بھر پور تعاون حاصل کرے گا اور بدلے میں امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کو بھاری بزنس دے گا اور کوشش کر ے گا کہ ایشیا میںایک سٹریٹیجک ڈیمو کریٹک ‘ کائونٹر ویٹ ( دوسرے پلڑے کا پاسنگ) کی حیثیت میں امریکہ کا اتحادی بنے۔دونوں ملکوں میں خریدار اور فروخت کنندہ کے جو تعلقات ہیں‘ انہیں پارٹنر شپ‘ مشترکہ ڈویلپمنٹ اور کو پروڈکشن میں بدلے۔ اس وقت بھارت اپنی فوجی ضروریات کا ستر فیصد درآمد کرتا ہے۔ مودی نے'' میک ان انڈیا‘‘ کا جو نعرہ لگایا ہے‘ فوجی زبان میں اس کا مطلب ڈیفنس مینو فیکچرنگ سیکٹر میں شراکت داری بڑھانا ہے۔بھارت آنے سے پہلے‘ صدر اوباما نے اپنی تقریر میں ایک معنی خیز جملہ کہا ہے کہ'' کسی بھی خطے میں چین کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہاں کی سیاست کا رخ‘ وہ متعین کرے‘‘۔ یہ پاک چین تعلقات کی طرف معنی خیز اشارہ ہے۔