بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقتدار میںآ تے ہی خارجہ پالیسی کے میدان میں جو تیزیاںو طراریاں دکھائی تھیں‘ اب ٹھنڈی پڑتی جا رہی ہیں ۔ آنے والے دنوں میں‘ ان کے شرق بعید کے دوروں کی بلند آہنگی کی ہوا بھی نکلنے والی ہے‘ جب مودی‘ چین کا دورہ کرتے ہوئے مشترکہ دلچسپیوں کا اقرار کریں گے۔جاپان اور آسٹریلیا کے دوروں میں انہوں نے یک جہتی اورمشترکہ مفادات کے بڑے بڑے دعوے کئے۔ جب وہ چین کے ساتھ اسی طرح کے رشتوں کے دعوے کریں گے تو وہاں بھی امور خارجہ میں‘ ان کی نا پختگی کے چرچے ہوتے نظر آئیں گے۔ بھارت نے حامد کرزئی کے تعاون اور امریکہ کی مدد سے افغانستان میں بہت دور تک اپنے پنجے پھیلا لئے ہیں اوروہ پاکستان پردبائو ڈلوانے کے لئے اس ملک کو اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں بھی مودی صاحب کی خارجہ پالیسی ‘ مدد گار ثابت نہیں ہو رہی۔
پہلے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں۔مودی صاحب کے حامی‘ بھارتی میڈیا نے امریکی صدر اوباما کے دورے پر‘ خوشی اور جوش و خروش کا اظہار کرتے ہوئے‘ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں یہ گرم جوشی‘ مودی صاحب کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔بھارتیوں کے ہلکے پن یا خوش فہمیوں کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ مودی‘ اوباما تعلقات کو‘ دوستانہ بے تکلفی کی بلندیوں پر دکھانے کے لئے‘ فخر سے لکھا اور بتایا گیا کہ بھارتی وزیراعظم‘ صدر اوباما کو ''بارک‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔واضح رہے امریکہ کے کلچر میں‘ انتہائی بے تکلف دوستوں کو پہلے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دو ملکوں کے انتظامی سربراہ ‘ ایک دوسرے کو سرکاری پوزیشن میں ملتے ہیں اور سرکاری مصروفیات کے دوران جو میل جول ہوتا ہے‘ اس میں دونوں فریق ایک دوسرے کی قومی اور علاقائی حیثیت کا خیال رکھتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بھارتی وزیراعظم کی حیثیت میں‘ امریکی صدر سے ملاقات کرتا ہے تو ایسا دو عہدوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگر مودی صاحب نے امریکی صدر کو پہلے نام سے بلا لیا تو اس کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں ‘ یا وہ سفارتی طور طریقوں سے واقف نہیں یا انہوں نے امریکہ جانے سے پہلے‘ میزبان ملک کے کلچر اور پروٹوکول کے بارے میں بریفنگ نہیں لی۔ بھارتی میڈیا نے یہ نہیں بتایا کہ جواب میں صدر اوباما‘ مودی صاحب کو کیا کہہ کر بلاتے ہیں؟ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ صدراوباما نے سفارتی آداب کا پوری طرح خیال رکھا ہو گا۔ اب ہم ان کامیابیوں کی طرف دیکھتے ہیں جو وزیراعظم مودی نے اوباما کے دورہ بھارت کے دوران حاصل کیں۔ بھارتی میڈیا نے انہیں ''بریک تھرو‘‘ قرار دیا اور بتایا کہ مودی کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان‘ سول نیو کلیئر کوآپریشن ڈیل پر عمل درآمد ممکن ہوا۔اور پس منظر یہ بیان کیا کہ یہ ڈیل کیوں کی گئی؟ اس کے بنیادی نکات کیا تھے؟ اور اس کے جزوی اثرات کا تجزیہ کرنے کے بعد‘ تشویش پیدا ہوتی ہے یا اطمینان؟
امریکہ سمجھتا تھا کہ بھارت غیر جانبدار کیمپ کا لیڈر ہے‘ سوویت یونین اور روس کی طرف جھکائو رکھتا ہے۔ وہ اپنا زیادہ تر بھاری اسلحہ روس سے خریدتا ہے اور اس ملک میں ایک نیم سوشلسٹ اقتصادی نظام رائج ہے۔پاکستان کے ساتھ امریکہ کے دوستانہ تعلقات ‘ سرد جنگ کے پورے عرصے اور بعد کے کئی سالوں میں بھی جاری رہے۔چین کے مالی اور فوجی طاقت بننے کے بعد‘ صدر بش نے فیصلہ کیا کہ بھارت کو مخالف کیمپ سے نکال کراپنی طرف لاکر‘اسے چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کے مقابلے کے لئے تیار کیا جائے۔اس وجہ سے صدر بش نے بھارت کو سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی منتقل کرنے اوریورینیم تک رسائی دینے کی پیش کش کی۔ بھارت‘ نے ا مریکہ کی طرف سے ''ون ٹو تھری‘‘ کی پیش کش کو یہ سمجھ کر قبول کیا کہ وہ ایٹمی بجلی گھر بنانے کے لئے یورینیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔اس معاہدے کا نام ''ون ٹو تھری‘‘ امریکہ‘ بھارت اور سول نیوکلیئر معاہدے کی نسبت سے رکھا گیا لیکن بھارت میں اس معاہدے پر سیاسی کش مکش شروع ہو گئی۔ نتیجے میں سول معاہدے پر عمل درآمد رک گیا۔ اسی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے امریکہ نے بھارت کے ساتھ تعلقات کا نیا دور شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے امریکی دلچسپی دیکھ کر بھارتی اپوزیشن پارٹی یعنی موجودہ حکومت کے لیڈروں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے تمام معاملات کا ازسر نو جائزہ لیا اور اس میں بھارت کو لاحق خطرات ‘دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے امکانات اور دلی پر امریکہ کی طرف سے آنے والے ممکنہ دبائو کے تجزئیے کے بعد‘ طے پایا کہ امریکہ کے ساتھ تعطل کا شکار ہونے والے تمام معاملات کو ازسر نو دیکھا جائے اور جہاں تک ممکن ہو سکے‘ اقتصادی کساد بازاری اور شرح ترقی میں گرتے ہوئے اضافے کو روکنے کے لئے امریکہ سے مدد لینے کی کوشش کی جائے۔دوسری طرف مغربی بلاک کے لیڈروں اور مبصرین نے سوچ کر رائے دی کہ این پی ٹی(نان پرو لی فریشن ٹریٹی) کی وجہ سے متعدد اقوام نے جو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف تھیں‘ اپنے پروگرام بند کر دئیے۔ یہ کامیابی دوہرے وعدوں کی بنیاد پر حاصل کی گئی۔ اول ایسے ممالک ‘جو ریسرچ میں کافی آگے بڑھ چکے تھے‘ وہ اپنی پیش قدمی روک دیں ۔ دوم‘ جو ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کے
قریب تھے‘وہ بتدریج اپنے پروگرام بند کر دیں اور جو ایسا نہیں کرے گا‘ اسے نیو کلیئر ٹیکنالوجی اور توانائی نہیں دی جائے گی۔دو ملکوں‘ پاکستان اور بھارت نے‘ اس معاہدے پر دستخطوں سے انکار کر دیا۔اسرائیل نے نہ اقرار کیا اور نہ دستخط کئے لیکن وہ رازداری سے ایٹمی ہتھیار بناتا رہا۔ اس پس منظر میں جب بھارت کے ساتھ‘ این پی ٹی کا معاہدہ کیا گیا تو ایٹمی اسلحہ کی تیاریاں روکنے والے ملکوں میں تشویش پیدا ہوئی اورعالمی برادری کو فکر پڑی کہ ایٹمی دوڑ میں پیچھے رہ کر‘ اسے خسارہ نہ اٹھانا پڑے۔بھارت اورا مریکہ کے مابین‘ این پی ٹی کا سب سے زیادہ اثر پاکستان اور بھارت پر ہوا۔ پہلی نظر میں لگتا تھا کہ این پی ٹی سے کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ٹیکنالوجی اور فیول کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی‘ محض سویلین مقاصد کے تحت دی جائے گی خصوصاً بجلی پیدا کرنے کے لئے۔ بھارت کے حامیوں کی رائے تھی کہ اسے صرف یورینیم کی کمی ہے۔ اگراین پی ٹی پر عمل درآمد شروع ہو گیا تو بھارت کو اپنے تیار کردہ ری ایکٹروںاورایٹمی آبدوزوں کو آدھے فیول پر چلانا پڑے گا جس کا مطلب یہ ہو گا کہ بھارت نے اپنے ذرائع سے جو صلاحیت حاصل کر لی ہے ‘ وہ نصف رہ جائے اورایٹمی اسلحے کا پروگرام متاثر ہو جائے۔بھارت یہ پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا؛ چنانچہ ا مریکہ کے ایما پر اسے رعایت دی گئی کہ این پی ٹی سے بچانے کے لئے پابندی لگا دی جائے کہ بھارت کو صرف پر امن مقاصد کے لئے افزودہ یورینیم فراہم کیا جا سکے گا۔ بھارت‘ اپنے ذرائع سے یورینیم کی افزودگی میں آزاد ہو گا ‘اس پر نیو کلیئر ٹریڈ کی پرانی پابندیوں میں‘ ترمیم کر دی گئی اور اجازت دے دی گئی کہ وہ پر امن مقاصد کے لئے خام یورینیم خرید سکتا ہے۔ اس طرح اسے چور دروازے سے ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کی سہولت مہیا ہو گئی۔ بھارت کے ساتھ اس معاہدے کے بعد‘ پاکستان نے فوراً ہی یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کر کے‘ ایٹمی اسلحے کا ذخیرہ بڑھانا شرو ع کر دیا۔یہ دونوں ملک‘ کشمیر کے تنازعے پر کئی جنگیں لڑچکے ہیں۔ جب سے ان کے درمیان ایٹمی اسلحہ سازی کی دوڑ شروع ہوئی ہے‘ عالمی برادری تشویش میں مبتلا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا کر‘ امریکہ نے اسے چین کے خلاف استعمال کرنے کا سوچا تھا لیکن اب اسے مایوسی ہونے لگی ہے۔ نریندر مودی‘ چین جا کر ‘اس کی مالی طاقت سے استفادہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آخری نتیجہ یہ ہے‘ نہ بھارت امریکہ کی مدد سے اپنے مالیاتی مسائل میں کمی لا سکا ‘ نہ امریکہ بھارت کے ذریعے چین پر دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں آیا۔البتہ چین نے اپنی مالیاتی طاقت کے زور پرخطے اور دنیا میں اپنی حیثیت کو مستحکم کر لیا ہے۔ اب افغانستان میں بھی چین‘ پاکستان اور امریکہ باہمی تعاون کو ٹھوس شکل دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور افغانستان نے بھارت کوبھاری اسلحہ کی خریداری کا جو آرڈر دے رکھا تھا‘ اسے معطل کر دیا ہے۔