پاکستانی معیشت پر قرضوں کے اثرات

پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ پچھلی قسط ادا کرتے ہیں تو اگلی قسط کی باری آ جاتی ہے۔ آمدن میں اضافہ اس رفتار سے نہیں ہو رہا جس تیزی سے سود کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ درحقیقت آمدن کا سست رفتاری سے بڑھنا نظام میں پختگی پیدا کرنے کی علامت ہے۔ آپ شاید حیران ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سست روی کو پختگی کا ضامن سمجھ لیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سوچ سمجھ کر اور لمبی اننگ کے لیے سٹریٹیجی تیار کی جاتی ہے تو منزل کی طرف اس کی رفتار آہستہ ہی ہوتی ہے۔ کہیں رکنا پڑتا ہے اور کہیں راستے کے کانٹے ہٹانا پڑتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت بھی شاید اسی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس لیے آمدن میں اضافے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ بہتری نظر آ رہی ہے لیکن رویہ محتاط دکھائی دے رہا ہے۔ اگر ماضی کی حکومتوں کی بات کی جائے تو بہت سے ایسے مواقع آئے جب یہ محسوس ہوا کہ حکومت کی معاشی پرفارمنس بہت بہتر ہو گئی ہے‘ جی ڈی پی سمیت تمام معاشی اشاریے بھی اچانک مثبت دکھائی دینے لگے‘ بظاہر ملک میں پیسے کی ریل پیل بھی نظر آئی‘ ڈالر کو بھی مصنوعی انداز میں کنٹرول کیا گیا لیکن کچھ سالوں بعد جب حقیقت کھلی تو وہ انتہائی لرزہ خیز تھی۔ معلوم ہوا کہ کوئی مستقل اور دیر پا حکمت عملی موجود نہیں تھی‘ صرف غبارے میں ہوا بھری گئی تھی‘ جیسے ہی وقت گزرا‘ ہوا نکل گئی اور معیشت بیٹھ گئی۔ ماضی کے برعکس اب پالیسیاں زیادہ حقیقی اور دیرپا بنتی نظر آ رہی ہیں۔ برآمدات کے شعبے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حکومت نے آمدن بڑھانے کے لیے برآمدات کے شعبے میں بہتری لانے کی جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ممکنہ طور پر بہتر نتائج دے رہی ہے۔ اگر ٹیکسٹائل سیکٹر کی بات کی جائے تو جولائی 2020ء سے دسمبر 2020ء تک مستقل گروتھ دیکھنے میں آئی۔ صرف اگست کے مہینے میں تقابلی جائزے کے حساب سے برآمدات کم رہی ہیں‘ اگست 2019ء میں ٹیکسٹائل برآمدات 1191 ملین ڈالر اور 2020ء میں 1008 ملین ڈالر تھیں۔ اس حساب سے 15.39 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جسے اگلے مہینوں میں آسانی سے کور کر لیا گیا؛ تاہم ماہِ ستمبر سے دسمبر تک گروتھ بالترتیب 11.30، 6.18، 9.27 اور 18.3 فیصد بہتر رہی جو حوصلہ افزا ہے لیکن یہ آمدن اتنی نہیں کہ ملک کے قرضے اتارے جا سکیں۔ اس بہتری سے اگر کرنٹ اکائونٹ خسارہ مثبت رہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ فی الحال قرضوں کا بوجھ مزید قرض لے کر ہی اتار جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آ رہا۔
معاشی حا لات کے پیش نظر حکومت نے قرض لینے کا عندیہ دیا ہے‘ اور ابتدائی طور پر اسلام آباد کے ایف نائن پارک کو بطورِ ضمانت رکھوانے کی خبریں سامنے آئیں۔ اگرچہ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے اس کی مخالفت کی ہے، ممکن ہے کہ اب کوئی اور عمارت یا مقام گروی رکھوا کر اس کے عوض تقریباً پانچ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر‘ جو تقریباً نو سو تیس ارب روپے بنتے ہیں‘ حاصل کیے جائیں گے۔ یہ رقم اسلامی سرمایہ کاری کے تحت حاصل کی جائے گی جس کی ترتیب کچھ یوں ہو گی کہ حکومت رقم دینے والوں کو گروی رکھی جانے والی جگہ یا عمارت فروخت کر دے گی۔ انویسٹر وہ جگہ یا عمارت حکومت کو لیز پر دیدے گا‘ جیسے ہی حکومت انویسٹرز کی رقم واپس کرے گی‘ پارک کی ملکیت حکومت کو منتقل ہو جائے گی۔ اسے سکوک بانڈز بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں منافع کی شرح بہت کم ہوتی ہے؛ تاہم روایتی قرضوں کی نسبت انہیں سستا قرض کہا جاتا ہے۔ اپوزیشن حکومت پر تنقید کر رہی ہے کہ ملکی اثاثے گروی رکھ کر ملک چلانا تحریک انصاف کی ناکامی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی اثاثوں کے عوض قرض لینا کیا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے؟ کیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار میں اس طرح قرض نہیں لیے گئے؟
ملکی اثاثوں کو گروی رکھ کر قرض لینے کی روایت پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں چودہ مرتبہ سکوک ٹرانزیکشنز کی گئیں اور تقریباً پانچ سو آٹھ ارب روپے حاصل کیے گئے جو پچھلے بارہ سالوں میں لیے گئے سکوک قرضوں کا 29.5 فیصد ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013 سے 2018 تک اپنے دورِ حکومت میں چار مرتبہ سکوک بانڈز کی ٹرانزیکشنز کیں اور چار سو پینتیس ارب روپے قرض حاصل کیا جو 25.6 فیصد بنتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت نے موٹرویز کو گروی رکھ کر یہ قرض حاصل کیے تھے۔ اس سے پچھلے دور میں مسلم لیگ نے موٹرویز بنائیں‘ ان کی بنیاد پر انتخابات میں فتح حاصل کی اور جب حکومت بنا لی تو انہی سڑکوں کو گروی رکھ کر قرض لے لیے۔ یہ وہ معاشی منصوبہ بندی تھی جس کے متعلق ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ وہ معیشت کا بہترین دور تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ بہتر تھا تو برا کسے کہتے ہیں۔
اب آئیے ایک نظر تحریک انصاف کے دور پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ اڑھائی سالہ دورِ حکومت میں پی ٹی آئی نے بارہ سکوک ٹرانزیکشنز کی ہیں اور 762 ارب روپے قرض حاصل کیا ہے۔ یہ پچھلے بارہ سال کے سکوک قرضوں کا 44 فیصد بنتا ہے جو سب سے زیادہ ہے۔ تینوں سیاسی جماعتیں پچھلے بارہ سالوں میں ایم ون موٹروے اسلام آباد سے پشاور، ایم ٹو موٹروے اسلام آباد سے لاہور، ایم تھری موٹروے اسلام آباد سے فیصل آباد اور جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ گروی رکھوا چکی ہیں۔ پچھلے سال مئی میں پاور ڈسٹری بیوشن اینڈ جنزریشن کمپنیز کے اثاثوں کو گروی رکھوا کر دو‘ دو ارب روپے سکوک قرض کے نام پر حاصل کئے گئے۔ پچھلے سال مارچ میں موجودہ حکومت نے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو 780 ارب روپے قرضے کے عوض مقامی سکوک بانڈز کے لیے گروی رکھوا دیا تھا۔ اس اثاثے کے عوض حکومت 562 ارب روپے قرض حاصل کر چکی ہے۔ بقیہ 190 ارب روپے اگلے چند ماہ میں حاصل کیے جائیں گے؛ چونکہ سکوک سے حاصل کیے گئے فنڈز پر شرح منافع بہت کم ہوتا ہے اس لیے ایک اندازے کے مطابق‘ تحریک انصاف نے ایئر پورٹ کے بدلے سکوک بانڈز جاری کر کے انیس اعشاریہ ایک ارب روپے بچائے۔ اسی طرح انرجی سکوک جاری کر کے تقریباً اٹھارہ ارب روپے بچائے گئے، یعنی کہ اگر روایتی طرز پر قرض لیے جاتے جیسے ہوتا ہے تو ایئر پورٹ ڈیل میں 19 ارب اور انرجی اثاثے ڈیل میں 18 ارب روپے زیادہ ادا کرنا پڑتے۔
اگر موازنہ کیا جائے تو اب تک سب سے زائد قرض تحریک انصاف کی حکومت نے لیے ہیں۔ جب وجوہات جاننے کی کوشش کی گئی تو بتایا گیا کہ پچھلی حکومتوں نے زیادہ شرح سود پر قرض لے رکھے تھے‘ ہم نے ان قرضوں کو ختم کر کے کم ریٹ پر قرض لیے ہیں۔ ان کے عوض اثاثے گروی ضرور رکھوانے پڑے ہیں لیکن وہ اثاثے حکومت پاکستان کے استعمال میں ہی رہیں گے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی آمدن بڑھائی جائے۔ اس طرح کے اقدامات سے وقتی فوائد تو حاصل ہو سکتے ہیں لیکن ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اورکامیابی سے چلانے کے لیے بچت کرنے کے بجائے آمدن بڑھانا ہو گی۔ آمدن کے نئے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔ بچت کرنے سے ایک حد تک فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن لانگ ٹرم میں بچت کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ جسے حکومت بچت کہتی ہے‘ اس کی قیمت دوسرے طریقے سے ادا ہو رہی ہوتی ہے جس کے اثرات کچھ عرصہ بعد سامنے آتے ہیں۔ مستقبل میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن ایک بات واضح نظر آ رہی ہے کہ ملکی آمدن بڑھانے کے لیے موجودہ حکومت جو اقدامات کر رہی ہے‘ وہ قدرے حوصلہ افزا ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والا وقت موجودہ وقت سے بہتر ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں