جب بدقسمتی کسی آنگن میں ڈیرے ڈال لے تو دن سال اور سال صدیوں کے برابر محسوس ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ برے وقت کی سب سے بڑی خامی یہ ہوتی ہے کہ وہ جلدی نہیں گزرتا۔ شاید اسی لیے موجودہ دورِ حکومت میں وقت کی رفتار سست ہو گئی ہے۔ 2021ء کا آخری مہینہ بھی مکمل ہونے کو ہے۔ اس سال کی حکومتی معاشی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو اعدادوشمار حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتے۔ ہر آنے والا سال پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ مشکل اور پریشان کن ثابت ہو رہا ہے۔ عمران خان صاحب جب سے وزیراعظم بنے ہیں‘ یہی دعویٰ کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ چھ ماہ میں حالات تبدیل ہو جائیں گے‘ بہت جلد ہم مشکل دور سے نکل جائیں گے بلکہ بعض مقامات پر تو یہ بھی فرما دیا کہ اب ہم مشکل وقت سے نکل گئے ہیں اور صحیح راستے پر چل پڑے ہیں،لیکن بعد میں جب مہنگائی کا نیا طوفان عوام کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے تو پھر چھ ماہ کا مزید وقت مانگ لیا جاتا ہے۔ حکومت شاید حقائق بیان کرنے سے ڈرتی ہے لیکن عوام زمینی حقائق تک پہنچ چکے ہیں اور انہیں تسلیم کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ عمومی رائے بن چکی ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں معیشت اسی طرح زبوں حالی کا شکار رہے گی کیونکہ تحریک انصاف کے پاس وہ معاشی ٹیم ہی نہیں ہے جس کے خواب انہوں نے عوام کو دکھائے تھے۔ دو سو معاشی ماہرین صرف الیکشن سے پہلے کی تقرریوں میں موجود تھے۔ تقریباً تمام اہم اداروں کے سربراہوں کو ساڑھے تین سالوں میں پانچ سے چھ مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت ابھی تک صحیح ٹیم ہی سلیکٹ نہیں کر پا رہی۔
اگر وزارتِ خزانہ پر نظر دوڑائیں تو تین سال‘ چار ماہ کے عرصے میں چھ سیکرٹری خزانہ اور پانچ وزیرخزانہ لائے جا چکے ہیں۔ رواں سال یعنی 2021ء میں ہی دو وزیرخزانہ بدلے گئے ہیں۔ شوکت ترین صاحب تیسرے ہیں۔ کامیاب سرکار چلانے کے لیے مستقل مزاج ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کرکٹ میچ کی طرح ہر اوور کے بعد کھلاڑیوں کی پوزیشن بدلنے اور ملک چلانے کے لیے کھلاڑیوں کی پوزیشن طے کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت شاید ابھی تک اس فرق کو نہیں سمجھ پائی۔ اسی لیے 2021ء کے اختتام پر بھی وزرا اور عوام میں بے یقینی اور اضطراب کی کیفیت نمایاں ہے۔ ایک طرف طرزِ حکومت عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے اور دوسری طرف رواں سال کے معاشی اعدادوشمار عوام کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔
آئیے سب سی پہلے ڈالر پر نظر ڈالتے ہیں۔ 2021ء میں ڈالر کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومتی کارکردگی پر لکھنے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پچھلے بیس سالوں میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً ایک سو بیس روپے اضافہ ہوا۔ شوکت عزیز کے دور میں ایک ڈالر تقریباً ساٹھ روپے کے برابر تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو پانچ سالوں میں ڈالر تقریباً پچاس فیصد مہنگا ہو کر نوے روپے تک جا پہنچا۔ تیس روپے کے اس اضافے کا ذمہ دار آئی ایم ایف کو ٹھہرایا گیا کیونکہ پیپلز پارٹی کے بقول‘ جب وہ اقتدار میں آئی تو خزانہ خالی تھا جیسے اب تحریک انصاف نے بھی یہی دعویٰ کیا۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت میں ڈالر مختلف اتار چڑھائو کے ساتھ ایک سو سات روپے پر تک قائم رہا البتہ نگران حکومت میں ڈالر کی قیمت تقریباً ایک سو پچیس روپے تک بڑھ گئی۔ مجموعی طور پر اس میں پینتیس روپے کا یعنی28 فیصد اضافہ ہوا۔ اب تحریک انصاف کے سوا تین سالوں میں اس کی قیمت میں پچپن روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے یعنی 30 فیصد۔ صرف اسی سال یعنی2021ء میں ڈالر کی قیمت 153 روپے سے سے بڑھ کر 180 روپے تک پہنچ گئی۔ 27 روپے کا فرق پاکستانی تاریخ میں کسی ایک کیلنڈر سال میں پڑنے والا سب سے بڑا فرق ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ اس حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے تک ڈالر کی قیمت دو سو روپے تک پہنچ چکی ہو گی۔ اگرچہ اسے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے پروپیگنڈا قرار دیا جاتا ہے لیکن تین سال اور چار ماہ میں ڈالر کے ایک سو اسی روپے تک پہنچے پر یہ افواہیں حقیقت میں بدلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ گزشتہ سالوں میں حکومت ڈالر کی قیمت بڑھنے کا ملبہ منی ایکسچینجرز پر ڈالتی رہی اور اس سال افغانستان میں طالبان کی حکومت اور درآمدات بڑھنے کو قصور وار ٹھہرایا گیا۔ جب ہم نے اپنے کالموں کے ذریعے اس حقیقت کو عوام پر آشکار کیا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے سبب ڈالر کی سمگلنگ میں اتنا نمایاں فرق نہیں پڑ سکتا، آٹھ ارب ڈالر کی درآمدات پر ڈالر ایک سو اسی روپے پر نہیں جا سکتا تو حکومت اپنے مؤقف میں تھوڑی سی تبدیلی لائی اور پھر سارا ملبہ بینکوں پر ڈال دیا۔ مشیرِ خزانہ نے بینکوں کو مافیا قرار دیا اور ناکامی کا بوجھ ان کے کاندھوں پر ڈال کر بری الذمہ ہوگئے، لیکن شاید حکومت کو علم نہیں کہ اب عوام کو سچ جاننے میں وقت نہیں لگتا۔ ڈالر کی قیمت کے حوالے سے عوامی سطح پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے ڈالر کی قیمت دو سو روپے تک لے جانے کا معاہدہ کر چکی ہے۔ فی الحال اختتامی لمحات کی جانب بڑھتا سالِ رواں ڈالر کی قیمت کے حوالے سے بدترین سالوں میں شمار کیا جائے گا۔
اب ایک نظر مہنگائی پر ڈال لیتے ہیں۔ موجودہ سال مہنگائی کے حوالے سے بھی‘ پچھلے سال کی طرح پریشان کن رہا۔ 2020ء میں مہنگائی کی اوسط شرح تقریباً گیارہ فیصد تھی۔ جون 2021ء تک مہنگائی کی شرح تقریباً نو فیصد رہی لیکن اس میں اضافہ ڈالر کی قیمت بڑھنے اور شرح سود میں اضافے کے بعد ہوا۔ بجٹ پیش کرنے سے ایک ماہ پہلے‘ مئی میں ڈالر کی قیمت میں بتدریج اضافہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے لیکن مہنگائی میں ہوشربا اضافہ شرحِ سود میں اضافے کے بعد ہوا۔ سٹیٹ بینک نے پچھلے تیرہ سالوں میں پہلی مرتبہ ایک ماہ میں ڈیرھ فیصد شرح سود بڑھائی جس کے بعد نومبر میں مہنگائی کی شرح ساڑھے گیارہ فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد شرح سود میں سو بیس پوائنٹس کا دوبارہ اضافہ کیا گیا جس کے مہنگائی کے گراف پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق دسمبر میں مہنگائی ساڑھے بارہ فیصد سے تجاوز کر چکی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید اضافے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ ڈالر اور شرح سود کے علاوہ جس عنصر نے مہنگائی میں اضافہ کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہیں۔ دسمبر 2020ء میں فی لیٹر پٹرول کی قیمت 103 روپے تھی جو دسمبر 2021ء میں بڑھ کر 140 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ دسمبر میں اوگرا نے دس روپے فی لیٹر کمی کی تجویز دی تھی مگر سرکار نے پانچ روپے پٹرولیم لیوی بڑھا کر صرف پانچ روپے قیمت کم کی۔ 31 دسمبر کو بھی پانچ روپے مزید لیوی ٹیکس بڑھانے کی تیاری ہے۔ سرکار نے اسی سال آئی ایم ایف سے جون 2022ء تک پیٹرولیم لیوی تیس روپے فی لیٹر تک بڑھانے کا معاہدہ کیا ہے۔ اسی لیے بتدریج ہر ماہ چار سے پانچ روپے فی لیٹر اضافہ کیا جائے گا یعنی موجودہ تناظر میں پٹرول کی قیمت تقریباً 180 روپے فی لیٹر تک بڑھ جائے گی جس سے آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔
موجودہ سال کے آخری تین مہینوں میں جو معاشی تباہی آئی ہے اس کے منفی اثرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ 2021ء کو اس اعتبار سے بھی مشکلات کا سال کہا جا رہا ہے کہ جہاں ایک طرف پاکستان میں پہلی مرتبہ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا‘ وہیں پٹرول بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 146 روپے تک پہنچ گیا۔ سرکار اس کی ذمہ داری عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت پر ڈال رہی ہے جو کسی قدر درست ہے مگر پورا سچ نہیں ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم بھی ہوئی ہیں۔ اگر حکومت کمی کا پورا فائدہ عوام کو منتقل کرتی تو اس وقت پٹرول تقریباً ایک سو بیس روپے فی لیٹر بہ آسانی دستیاب ہو سکتا تھا۔ (جاری)