پاکستان پچھلے تقریباً ایک سال سے مستقلاً سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس دورانیے میں جس ڈرامائی انداز میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں بنی اور ٹوٹی ہیں‘ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عجب صورتحال ہے کہ سیاسی بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک کے بعد دوسرا سیاسی بحران تیار کھڑا ہوتا ہے۔ لانگ مارچ کے بعد اب قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے زیرِ بحث ہیں۔ گو کہ اس پر فوری عمل درآمد ہونا اور ممبرانِ اسمبلی کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں لیکن چیئرمین تحریک انصاف کی مقبولیت کے پیشِ نظر پارٹی اراکین سرِ تسلیم خم کرسکتے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں سے فوری مستعفی ہونے پر کھربوں روپوں کے بجٹ ایم پی ایز کے ہاتھوں سے نکل سکتے ہیں۔ الیکشن مہم چلانے کے لیے ترقیاتی کام کرانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ایک طرف ایم پی ایز ترقیاتی بجٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا حکم مل رہا ہے۔ یہ معاملہ چند دنوں میں ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا‘ بلکہ اگلے کئی ماہ تک بہ آسانی کھینچا جا سکتا ہے۔ حتمی فیصلے کے لیے ایک مرتبہ پھر عدالتوں کا رخ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومتیں بننے اور توڑنے کا یہ سلسلہ ابھی یونہی چلتارہے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوبارہ انتخابات کرانے پر تقریباًبیس سے پچیس ارب روپے یا اس سے بھی زیادہ سرمایہ خرچ ہو سکتا ہے۔ غریب ملک کے عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو اس طرح ضائع کرنا نامناسب عمل ہے۔ تحریک انصاف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پہلے ہی اکثریت میں ہے‘ الیکشن جیتنے کے بعد اگر وہ دوبارہ اکثریت میں آجائے تو وفاق کی طاقت کو کیا فرق پڑے گا؟ قومی اسمبلی کے انتخابات اپنے وقت ہی پر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ انتخابات چاہے مارچ میں ہوں یا اکتوبر میں‘ جیت اسی کی ہو گی۔ چیئرمین تحریک انصاف سے گزارش ہے کہ اگر انہیں اپنی کامیابی کا اتنا ہی یقین ہے تو کچھ تحمل کا مظاہرہ کریں۔
تحریک عدم اعتماد آنے سے پہلے پی ڈی ایم کی جانب سے کہا جاتا تھا کہ ملک کے معاشی حالات خراب ہیں‘تحریک انصاف کی حکومت کا گھر جانا ضروری ہے‘ نئی حکومت کے آنے سے سیاسی و معاشی استحکام آئے گا۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ 'رجیم چینج آپریشن‘ کے بعد ملک کی معاشی حالت بہتر ہوئی یا خراب ہوئی؟ اگر حقیقی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پچھلے سات ماہ میں معاشی حالت نہایت کمزور ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے پر انٹربینک میں ایک ڈالر تقریباً 179 روپے کا تھا جو آج تقریباً 224 روپے کا ہے۔ یہ اضافہ تقریباً 45 روپے بنتا ہے۔اسی طرح اس وقت اوپن اور گرے مارکیٹ میں ڈالر لگ بھگ 182روپے میں مل رہا تھا جو آج تقریبا 255 روپے میں مل رہا ہے۔ یہ فرق تقریباً 73 روپے بنتا ہے۔ تحریک انصاف کی پونے چار سالہ حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت میں تقریباً 54 روپے اضافہ ہوا تھا جبکہ پی ڈی ایم کی سات ماہ کی حکومت میں ڈالر تقریباً 73 روپے بڑھ چکا ہے۔ اسی طرح اگر مہنگائی کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو ان میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مارچ 2021ء میں مہنگائی کی شرح تقریباً تیرہ فیصد تھی جو پی ڈی ایم کی تین ماہ کی حکومت کے بعد ہی دوگنا بڑھ کر تقریباً پچیس فیصد ہو گئی تھی اور آج مہنگائی کی شرح تقریباً انتیس فیصد ہو چکی ہے۔ سات ماہ پہلے تک ماہانہ برآمدات تقریباً 2 ارب 73 کروڑ ڈالر یکارڈ کی گئی تھیں جو اب کم ہو کر تقریباً 2 ارب 37کروڑ ڈالر ہو گئی ہیں۔ حکومت نے ماہانہ بنیادوں پر برآمدات بڑھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ حکومت نے سالانہ برآمدات کا ہدف تقریباً 38 ارب ڈالر مختص کیا تھا جس کو حاصل کرنا ناممکن ہو چکا ہے بلکہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سالانہ برآمدات پچھلے سال کی نسبت کم ہوں گی۔ مالی سال 2022ء میں سالانہ برآمدات تقریباً 31 ارب ڈالرز تھیں جو 2021ء کے مالی سال کی نسبت تقریباً 25 فیصد زیادہ تھیں۔ 2021ء کے مالی سال میں برآمدات 25 ارب 30کروڑ ڈالرزتھیں جبکہ مالی سال 2020ء میںبرآمدات 21 ارب 40 کروڑ ڈالرز تھیں۔ تحریک انصاف کی دور میں برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔ مارچ 2022ء کی نسبت اندرونِ ملک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً 75 روپے سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں اِس وقت قیمتیں گزشتہ گیارہ ماہ کی کم ترین سطح پر ہیں۔ اسی طرح بجلی و گیس کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ مارچ 2022ء کی نسبت شرحِ سود میں تقریباً 65 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری اُس وقت اپنی بھرپور استعداد پر کام کر رہی تھی۔ مارکیٹ میں یہ تاثر عام ہو چکا تھا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں ملازمتیں زیادہ اور ماہر ورکرز کم پڑ گئے ہیں لیکن حالیہ رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک ہزار سے زائد ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو چکے ہیں۔ پچھلی حکومت میں بیس بڑے کارپوریٹ اداروں نے ریکارڈ منافع کمایا جس کا اثر عام آدمی کو بھی منتقل ہوتا دکھائی دیا لیکن موجودہ صورتحال میں بڑے کارپوریٹ سیکٹرز میں بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ بڑے آٹو مینوفیکچررز مہینے میں پندرہ دن اپنے پلانٹس بند رکھنے پر مجبور ہیں جس کے باعث بھاری نقصان ہو رہا ہے۔پاکستان کا کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ تقریباً 93 فیصد ہو چکا ہے جو مارچ 2022ء میں محض پانچ فیصد تھا۔ پاکستانی بانڈز کو عالمی مارکیٹ میں پچاس فیصد قیمت پر بھی کوئی خریدنے کو تیار نہیں جبکہ سات ماہ قبل یہی بانڈز منافع میں بیچے جا رہے تھے۔ شرحِ نمو تقریباً چھ فیصد تک پہنچ چکی تھی جو اب دو فیصد رہ گئی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جولائی سے اکتوبر کے عرصے میں ترسیلاتِ زر میں لگ بھگ 10 ارب ڈالرز کی کمی واقع ہوئی ہے جو پچھلے سال اسی دورانیے کی نسبت 8.6 فیصد کم ہے۔ اگر یہ صورتحال یونہی برقرار رہی تو مالی سال 2023ء کے اختتام پر ترسیلاتِ زر 30ارب ڈالرز ہوں گی جبکہ گزشتہ مالی سال ترسیلاتِ زر تقریباً 31 ارب ڈالرز تھیں۔ تحریک انصاف کے پونے چار سالہ دور میں ان میں مستقل اضافہ ہوا مگر اب ترسیلاتِ زر میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔کوئی بھی ایک ایسا شعبہ دکھائی نہیں دے رہا جہاں پی ڈی ایم کی حکومت نے معاشی کارکردگی کے جھنڈے گاڑے ہوں۔ بعض حکومتی حلقے اسحاق ڈار صاحب کے آنے کے بعد ڈالر کو قابو میں رکھنے کو حکومتی کامیابی قرار دے رہے ہیں جو حقائق کے منافی ہے کیونکہ بعض حلقے الزام لگا رہے ہیں کہ ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
میں نے پچھلے کالموں میں ذکر کیا تھا کہ حکومت چینی کی برآمد کی اجازت دیدے گی کیونکہ ایوانِ نمائندگان میں بیشتر کا منافع شوگر کی برآمدات سے وابستہ ہے۔ اگرچہ کچھ وزرا اس خبر کی تردید کر رہے ہیں مگر وزارتِ پیداوار کے ذرائع کے مطابق حکومت نے ایک سے ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے جس سے ملک میں چینی کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔ حکومت نے ابھی تک چینی کے سٹاک کی آزادانہ ویری فکیشن نہیں کی اور جو اعدادوشمار شوگر ملز مالکان نے پیش کیے ہیں‘ انہیں من و عن تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چینی برآمد کرنے سے مل مالکان کو تقریباً 12 ارب روپوں کا فائدہ ہو گا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے چینی سکینڈل سامنے آنے پر اپنی پارٹی کے ایک سینئر لیڈر سے راستے جدا کر لیے تھے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ چینی مافیا کے خلاف انکوائری ہوئی تھی اور پھر اس کی رپورٹ کو پبلک کر کے ذمہ داروں کا تعین بھی کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے سال چینی کا شدید بحران پیدا نہیں ہوا تھا۔ اب دوبارہ چینی کا ریٹ بڑھنے اور بحران پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔ ملز مالکان نے وعدہ کیا ہے کہ اگر چینی کی قیمت میں غیر ضروری اضافہ ہوا تو وہ اس کی بھرپائی بھی کریں گے۔ ماضی کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس وعدے پر عمل درآمد ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔