تیزی سے ترقی کی طرف گامزن معیشتوں کے گروپ برکس کے بارے میں اب تک کی جانے والی پیش گوئیوں سے کچھ خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ یہ اتحاد مغربی مرکزی دھارے سے ماورا ایک سفارتی فورم اور ترقیاتی سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہا ہے۔ تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں کے طور پر برکس ممالک کے بارے میں پیش گوئیاں پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے بجائے یہ اتحاد مغربی مرکزی دھارے سے باہر‘ ایک سفارتی فورم اور ترقیاتی فنانسنگ کی پیشکش کر رہا ہے۔ برکس ممالک یعنی برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور جنوبی افریقہ موجودہ بین الاقوامی مالیاتی اور سیاسی فورمز کے متبادل کے طور پر خود کو ترتیب دے رہے ہیں۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا افسانہ ختم ہوا‘ برکس ممالک اب اپنے جیو پولیٹکل دور کا تجربہ کر رہے ہیں۔ برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور جنوبی افریقہ G7کا ایک متبادل ماڈل فراہم کرتے ہوئے گلوبل ساؤتھ کے نمائندوں کے طور پر مورچہ سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
G7دنیا کی سب سے ترقی یافتہ معیشتوں کا ایک غیر رسمی فورم ہے جس کی بنیاد 1975ء میں رکھی گئی تھی۔ جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ‘ اٹلی‘ جاپان‘ کینیڈا اور امریکہ بھی اس کے رکن ہیں۔ ابتدا میں برازیل‘ روس‘ انڈیا اور چین کے رکن ممالک کے ناموں کے مخفف BRIC گروپ کو 2001ء میں کثیر الاقوامی سرمایہ کاری بینک‘ گولڈ مین زیکس کے اُس وقت کے چیف اکانومسٹ جِم او نیل نے وضع کیا تھا۔ اس وقت چاروں ممالک نے بلند اقتصادی ترقی کی شرح کو برقرار رکھا تھا اور برکس کا لیبل ان ممالک کے مستقبل کے بارے میں اقتصادی اُمید کی نشانی تھا۔ یہ گروپ G7کی طرح بین الحکومتی تعاون کے لیے ایک پلیٹ فارم بن گیا۔ 2009ء میں چاروں ممالک نے روسی علاقے یکاترینبورگ میں اپنی پہلی سربراہی ملاقات کی۔ 2010ء میں جنوبی افریقہ کو اس گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی اور اس طرح BRIC میں S شامل کرکے اسے BRICS کر دیا گیا۔ 2014ء میں تقریباً 46بلین یوروز کے ساتھ برکس ممالک نے عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے متبادل کے طور پر ایک نیا ترقیاتی بینک شروع کیا۔ اس کے علاوہ Contingent Reserve Arrangement نامی لیکویڈیٹی میکانزم بھی بنایا۔ یہ پیشکشیں نہ صرف خود برکس ممالک کے لیے پُرکشش تھیں بلکہ بہت سی دوسری ترقی پذیر اور اُبھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے بھی‘ جنہیں آئی ایم ایف کے پروگراموں اور کفایت شعاری کے اقدامات سے کافی تلخ تجربات کا سامنا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک نے برکس گروپ میں شامل ہونے میں دلچسپی ظاہر کی۔ برکس بینک نے نئے اراکین کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ 2021ء میں مصر‘ متحدہ عرب امارات‘ یوراگوئے اور بنگلہ دیش نے اس کے حصص خریدے‘ تاہم یہ بینک کے بانی اراکین کی جانب سے کی گئی متعلقہ 10بلین ڈالرکی سرمایہ کاری سے بہت کم تھے۔ یوکرین میں روسی جنگ کے آغاز کے بعد سے برکس ممالک نے اپنے آپ کو مغرب سے دور رکھا ہے۔ بھارت‘ جنوبی افریقہ‘ برازیل یا چین‘ روس کے خلاف پابندیوں میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ سفارتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ یوکرین کی جنگ نے مشرقی حمایت یافتہ روس اور مغرب کے درمیان ایک واضح تقسیم کی لکیر کھینچ دی ہے۔
پاکستان بھی برکس کا رکن بننا چاہتا ہے اور چین اسے برکس کا رکن بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن انڈیا کو ڈر ہے کہ چین برکس پر قبضہ کر سکتا ہے چونکہ یوکرین جنگ کے بعد روس مکمل طور پر چین کے زیر اثر ہے۔ اسی لیے برکس میں روس کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے اور چین نے خلیجی ممالک میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے بعد دنیا نے دیکھا کہ عرب ممالک میں چین کا اثر و رسوخ کیسے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ اگر چین اپنے زیر اثر ممالک کو برکس کا رکن بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو انڈیا اس اہم عالمی تنظیم میں تنہا ہو جائے گا۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق چین برکس کو دنیا کی سات بڑی ترقی یافتہ معیشتوں کے گروپ جی سیون کا حریف بنانا چاہتا ہے۔ چین برکس کو نیٹو مخالف بلاک کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ انڈیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ انڈیا کے امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ انڈیا اس وقت امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش میں ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سیاست میں زیرو سَم نظریے یعنی امریکہ بمقابلہ سویت یونین یا امریکہ بمقابلہ چین نے تقویت پکڑی تھی لیکن چین نے ترقی کے بعد اس نظریے کو اپنے وِن وِن ماڈل سے تبدیل کر دیا۔ یعنی چین نے اپنے ترقی کے ثمرات خطے کے دوسرے ممالک تک پہنچانے کی کوشش کی اور اس طرح اقتصادی تعاون میں امریکہ کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا۔ دوسری طرف امریکہ آج بھی سرد جنگ کے ماڈل پر کام کرتا ہے جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں چینی ماڈل کامیاب ہو رہا ہے جس میں کسی بھی ملک کے سیاسی نظام‘ وہاں کے انسانی حقوق کی صورتحال سے بالا تر ہو کر ایسے اتحاد قائم کیے جا رہے ہیں جس میں معاشی تعاون پر بات ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو دنیا کے 154ممالک تک پھیل گیا ہے۔ آج کی دنیا میں جیو پالیٹکس کی جگہ جیو اکنامکس نے لے لی ہے۔ اقتصادی معاملات نے سکیورٹی کے خطرے سے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کے ممالک معاشی تعاون تنظیموں کا حصہ بن رہے ہیں۔ اسی وجہ سے روس یوکرین کے معاملے پر بھی انڈیا جانبدار رہنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس کی وجہ عالمی معیشت کی حقیقت ہے۔ ایک جانب وہ روس سے تیل اور اسلحہ خرید رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے ساتھ تجارت اور سکیورٹی پر بات کر رہا ہے۔ انڈیا کو برکس میں سعودی عرب اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کے شامل ہونے سے کوئی زیادہ خوف نہیں کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی انڈیا اور پاکستان شامل ہیں۔ پاکستان کا برکس میں شامل ہونا خوش آئند ہو گا کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستان کو آزادانہ تجارت اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعاون کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ پاکستان اور انڈیا اپنے مابین متعدد تنازعات کے حل کی جانب بھی بڑھ سکتے ہیں۔ مستقبل کی دنیا میں ممالک کو سیاسی تناظر کے بجائے اقتصادی تعاون پر دیکھا جائے گا اور اس دوڑ میں امریکہ اور یورپ چین سے ہار رہے ہیں۔
برکس کوشاں ہے کہ ڈالر کے غلبے کو ختم یا کم کیا جائے اور متبادل کرنسیوں کو ڈالر کے مقابلے پر لایا جائے مگر کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا بھر میں تجارت‘ لین دین اور عالمی مالی نظام پر اس وقت ڈالر کا جو غلبہ ہے‘ اسے ختم یا کم کیا جا سکے یا اس کی جگہ کوئی متبادل نظام لایا جا سکے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ برکس اپنی الگ کرنسی ڈالر کے مقابلے پر لانا چاہتا ہے اور اپنا الگ معاشی اور تجارتی نظام قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن اس بارے میں بار بار بات کرنے کے باوجود کوئی ٹھوس تجاویز سامنے نہیں آ سکی ہیں۔ 2015ء میں برکس ممالک نے نیا ترقیاتی بینک قائم کیا تھا جسے امریکہ اور یورپ کے غلبے والے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک کا متبادل قرار دیا جا رہا تھا‘ لیکن صورتحال یہ ہے کہ 24برس قبل معرضِ وجود میں آنے والی کرنسی یورو بھی‘ جسے یورپ کی مستحکم معیشتوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور جو اس وقت دنیا کی دوسرے نمبر کی کرنسی ہے‘ عالمی منڈیوں میں واقعتاً ڈالر کی کوئی حریف ثابت نہ ہو سکی۔ اور ڈالر فارن ایکسچینج کے لین دین میں یورو سے تین گنا زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ آج تک ڈالر کے متبادل کوئی کرنسی بھی غلبے کی سطح تک نہیں پہنچ پائی ہے۔چنانچہ یہ خیال کہ راتوں رات آپ کے پاس ڈالر کے متبادل برکس کی نئی کرنسی ہو گی‘ محال ہے۔ اس میں وقت لگتا ہے۔ اس کیلئے اعتماد قائم کرنا پڑتا ہے اور میرے خیال میں یہ مرحلہ ابھی بہت دور ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر کبھی ڈالر کی اجارہ داری ختم ہوئی تو اس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ پاکستان کے 60فیصد سے زائد قرض ڈالرز میں ہیں۔ چین پاکستان کو یووان میں قرض دینا چاہتا ہے لیکن پاکستان چاہتا ہے کہ چین ڈالرز میں قرض دے تاکہ پاکستان قرضوں کی ادائیگی کر سکے۔ ڈالر کی اجارہ داری ختم ہونے سے پاکستانی روپیہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ درآمدات کم قیمت میں ممکن ہو سکیں گی۔ مہنگائی میں کمی اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکے گا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھی جلد برکس کا حصہ بنے اور ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے چین کا ساتھ دے۔