"MMC" (space) message & send to 7575

بوکھلاہٹیں

لفظ ''حکومت‘‘ کا مادّہ حکم اور حکمت ہے ۔ حکم کے معنی ہیں: 'اقتدار،Writ‘‘اور حکمت کے معنی ہیں:' بصیرت اور دانش‘۔ صحیح اور کامیاب حکومت وہی ہے جو اِن دونوں معانی کی عملی تصویر اورتعبیر ہو۔اگر حکومت ہے مگر اس حکومت کاتحکم (Writ)نہیں ہے تو وہ حکمرانی کے وقار پر ایک دھبہ ہے اور اگر اس حکمرانی میں دانش اور بصیرت نہیں ہے تو وہ حکومت بے فیض ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے: '' ہم نے مدنی دور میں اور اس کے بعد حکومت کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ رعایاکی فلاح کس میں ہے اور مکی دور میں ہمیں محکومیت کا تجربہ ہوا تو ہمیں معلوم ہوا کہ حاکم کن خوبیوں کا حامل ہوناچاہئے‘‘۔ یعنی ان دونوں اَدوار کے عملی تجربے نے ہمیں حکمرانی کا جوہرعطا کیا ۔ 
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران دنیا کے تجربے سے استفادہ کرتے ہیں نہ تاریخ عالَم کا مطالعہ کرتے ہیں اورنہ ہی خود اپنے تجربات سے سیکھنے کے لیے تیارہوتے ہیں۔ ہماری دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی عروج وزوال کے مختلف اَدوَار سے گزری ہیں ۔ 1999ء سے 2008ء تک ان دونوں جماعتوں کی قیادت نے جلاوطنی کا دورگزارا ہے، ابتلاوآزمائش کے دور سے بھی گزری ہیں ، لیکن ایسی کوئی علامت نظر نہیں آتی کہ انہوں نے ابتلاء و زوال سے کچھ سبق سیکھا ہو۔یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔
بجاطور پر توقع کی جارہی تھی کہ مسلم لیگ (ن)پوری تیاری کے ساتھ اقتدار سنبھالے گی؛ جن بے تدبیریوں اور بے احتیاطی کے سبب پیپلزپارٹی کی حکومت تضحیک کا نشانہ بنتی رہی، سوچے سمجھے بغیر اعلیٰ مناصب پر میرٹ کو نظر انداز کرکے تقرریاں کیں اوراعلیٰ عدالتوں نے اُن کو کالعدم قراردیا، بدعنوانیوں کی داستانیں بھی زبان زدِ خاص وعام ہوئیں ان سے یہ اپنادامن بچاکر رکھے گی ،لیکن صد افسوس کہ کچھ یہی صورتِ حال موجودہ حکومت کی بھی ہے ۔
نادرا کے چیئرمین کی معزولی و بحالی اور پھر استعفیٰ ، پیمرا کے چیئرمین کی معزولی وبحالی اورپھراستعفیٰ، اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کی برطرفی و بحالی اورپاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات اِس کی نمایاں مثالیںہیں ۔کیا رولز آف بزنس ہمارے حکمرانوں کو معلوم نہیں تھے اور اعلیٰ عدلیہ کے جارحانہ رویے کا انہوں نے مشاہدہ نہیں کیا تھا؟ پیپلزپارٹی نے تو اِس طرح کے اندازِ حکمرانی کو اپنا شِعار بنا لیا تھا اور شاید انہیں پے درپے ناکامیوں پر کوئی پچھتاوا بھی نہ تھا ، لیکن کیا موجودہ حکومت کے لیے فکری پختگی کو اپنانا دشوار تھا۔ ابوالعباس المبرد کی ''الکامل‘‘ عربی لغت ، ادب اور تاریخ کی ایک معرکۃ الاراء کتاب ہے اور اسے عربی کلاسیکل ادب کی چار نمایاں کتابوں میں شمار کیا گیا ہے، اس میں ایک قول ہے:''کسی بھی حتمی فیصلے اور اقدام سے پہلے خوب سوچ بچار کرو، ہم ہر ایسی رائے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں جس پر بعدمیں نادم ہونا پڑے‘‘۔
بوکھلاہٹ پر مبنی اقدامات سے حکمرانوں کی دانش کے بارے میں اچھا تأثر قائم نہیں ہوتا، بطورِ خاص اس تناظر میں کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا سیاستدانوں بالخصوص حکمرانوں کی بوکھلاہٹوں کی تلاش میں رہتا ہے، کیونکہ انہیں اپنی اسکرین کی رونقیں قائم رکھنے سے غرض ہوتی ہے ، حکمرانوں کی توقیر ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے کی تقلید کے حوالے سے شِعار بھی تقریباً وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے حوالے سے اُمّت مسلمہ کا بیان فرمایا:''تم پچھلی اُمّتوں کے غلط روش کی پوری پوری پیروی کروگے حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں گھسے تھے توتم بھی ایساہی کروگے،ہم (صحابۂ کرام) نے عرض کیا: یارسول اللہ !کیا گزشتہ امتوں سے آپ کی مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تواورکون؟‘‘(سُنن ترمذی:7320)
چودھری نثار علی خاں کو مسلم لیگ (ن) کا ایک سلجھا ہوا، پختہ کار اور سنجیدہ سیاست دان سمجھا جاتاتھا اور وفاق کی سطح پر اپنی جماعت میں وزیرِ اعظم کے بعد ان کوسب سے سینئر اور مؤثر ترین رہنما کادرجہ حاصل تھا، مگر انہوں نے بھی مایوس کیا۔ اسلام آباد اور پوری قوم کی نبض کو ایک مخبوط الحواس شخص سکندرحیات نے گھنٹوں ساکت وجامد رکھا اورالیکٹرانک میڈیا نے بھی ایک نان ایشو کو سب سے اہم مسئلہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ اس واقعے نے پوری دنیا پر عیاں کردیا کہ وزیرِ داخلہ بروقت قوتِ فیصلہ سے عاری ہیں، پھر اس کے بارے میں اُنہوں نے تجسُّس پر مبنی بیان دیا، لیکن اس کے بعد کچھ برآمد نہ ہوا۔
کچھ یہی صورتِ حال ریاست سے متصادم عناصر سے مذاکرات کی ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ مذاکرات ہورہے ہیں یا نہیں، اگر ہورہے ہیں تو کس سے ہورہے ہیں اور کن اصولوں پر ہورہے ہیں، ہرچیز ایک چیستان اور مُعَمّہ(Puzzle) بنی ہوئی ہے۔ کبھی کہا جاتاہے کہ مذاکرات شروع ہوا ہی چاہتے تھے کہ معطل ہوگئے ، کبھی کہا جاتاہے کہ اب بھی پس پردہ کام ہورہا ہے، الغرض حکومت کبھی ایک جانب لپکتی ہے اور کبھی دوسری جانب، کبھی مولانا فضل الرحمن کو مدد کے لیے پکارا جاتاہے اور کبھی مولانا سمیع الحق کو اور اب تو وزیرِ اعظم نے عمران خان اور سیدمنور حسن کو بھی مدد کے لیے پکارا ہے۔سیدمنور حسن نے اس پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ حکومت کی جانب سے اپنی ناکامی کا اعلان ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے حکومت کی سوچ اورسَمت واضح کیوں نہیں ہے؟ پس بہتر یہ ہے کہ وزیراعظم جناب محمد نوازشریف،جناب آصف علی زرداری یا سید خورشید احمد شاہ ، جناب عمران خان، مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق، سید منورحسن ، چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی بند کمرے میں بیٹھیں اور اس مسئلے کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کریں،ایک حکمتِ عملی ترتیب دیں اور اس پر عَلانیہ پیش قدمی کریں۔ان میں سے باقی تمام جماعتیں توکسی نہ کسی حیثیت میں ہمارے نظامِ حکومت کا حصہ ہیں،یعنی سسٹم میں ''IN‘‘ہیں،مولانا سمیع الحق حکومتی نظام سے تو باہر ہیں،مگربجا طورپر اُن کا دعویٰ ہے کہ شورش زَدہ علاقے اورریاست سے مُتصادم گروہوں میں وہ کسی نہ کسی طرح ''IN‘‘ہیں ۔اگر اُنہیںکامیابی نصیب ہوجاتی ہے تویہ تمام زُعماء اپنی حکمتِ عملی کی کامیابی کا کریڈٹ لے سکتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں اُس کی ذمے داری بھی قبول کریں اور نتائج کا بھی مل کر سامنا کریں ۔ 
صورتِ حال یہ ہے کہ مذاکرات کی حامی جماعتیں یا عناصر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ریاست سے متصادم تمام عناصرکا مذاکرات یا مصالحت پر آمادہ ہونا عملاً ناممکن ہے، کیونکہ ان کے مُربّی (Sponsor)داخلی اور خارجی قوتوں کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں۔ لہٰذا دبے لفظوں میں اب یہ سب تسلیم کرنے لگے ہیں کہ وہ عناصر جو کسی بھی صورت میں مذاکرات اور مصالحت پر آمادہ نہ ہوں توان سے جنگ ہی آخری چارۂ کار ہوگا ۔ 
یہاں پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ جوزُعماء کہتے ہیں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے ، وہ آخری مرحلے پر اِس ناگزیر جنگ پرکیسے متفق ہوں گے،خواہ یہ جنگ ایک مُتحارب گروپ کے خلاف ہویا کئی گروپوں کے خلاف اور اس صورت میں باقی مُتحارب گروپ ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا تحویلِ قبلہ کرلیں گے ۔ اور جو مُتحارب عناصر مذاکرات یا مصالحت پر آماد ہ ہوں گے ، تو ان کے مطالبات کی بھی ایک طویل فہرست ہوگی ، مثلاً اُن کے تمام قیدیوں کی غیرمشروط رہائی، اُن کے لئے عام معافی کا اعلان اور وزیرستان اورقبائلی علاقے سے پاکستانی افواج کا اِنخلا ،یعنی اُس علاقے پر ریاستی عملداری سے دستبرداری اور ان کو مطلوبہ معاوضے ادا کرنا، اس کے بعد نفاذِ شریعت کا مسئلہ آئے گا۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ جس سنجیدگی کا متقاضی ہے،ابھی تک اُس سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کیاگیا ،حکومت صرف وقت گزاری سے کام لے رہی ہے،جسے پنجاب کے محاورے میں ڈنگ ٹپاؤ کہتے ہیں؛حالانکہ یہ ریاست کی یکجہتی ،سالمیت ،استحکام اوربقا کا مسئلہ ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں