"MMC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ

پاکستان کی تاریخ دستوری اور قانونی اعتبار سے مختلف احوال سے گزرتی رہی ہے ۔ ماضی میں ہماری عدالتِ عظمٰی نے مختلف مواقع پرمارشل لا کو قانونی جواز فراہم کیا۔ جنرل (ر) محمد ضیاء الحق اور جنر ل (ر)پرویز مشرف کے مارشل لا کو نہ صرف جواز عطا کیا بلکہ کسی استدعا کے بغیر آمرِ مطلَق اور شخصِ واحد کو دستور میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔اس عدالتِ عظمیٰ کے دیے ہوئے ان اختیارات کی روشنی میں حکمرانوں نے دستور میں ترامیم بھی کیں اورپھر Indemnity Bill کے ذریعے مختلف اوقات میں ہماری پارلیمنٹ نے آمرانہ دور کے ما ورائے دستور اقدامات کو دستوری تحفظ بھی عطا کیا ۔ ان میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کے سول مار شل لا اور اقدامات کو 1973کے دستور میں ، جنرل (ر) محمد ضیا ء الحق اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے ماورائے دستور اقدامات کو بالترتیب آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم کے ذریعے دستوری تحفظ عطا کیا گیا ۔ 
ہمارے سیاسی اور صحافتی طَنَّاز (Satirist) اِسے ''نظریۂ ضرورت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی خوش فہمی کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ''نظریۂ ضرورت‘‘کو دفن کر دیا گیا ہے ۔ در اصل یہ اضطراری جبر کا مسئلہ ہے اور اس کا مدار اِس پر ہوتا ہے کہ کسی صاحبِ منصب میں دباؤ برداشت کرنا یا مفادات و مراعات اور منصبی وجاہت سے دستبردار ہونے کا حوصلہ کتنا ہے ؟ ہم میں سے ہر ایک اپنے سوا دوسرے سے عزیمت کی آس لگاتاہے۔ کسی بھی اصول کو دوسرے پر لاگو کرنا آسان ہوتا ہے ، اپنے آپ پر برتنا مشکل ہوتا ہے ۔ مثلاً ہمارے عالی مرتبت جج جناب جسٹس جواد ایس خواجہ، جو ماشاء اللہ 16اگست کو چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھانے والے ہیں، آئے دن حکومت کے ذمے دارکو ڈانٹتے رہتے ہیں کہ حکومتی خط وکتابت اور کارروائی اردو میں کیوں نہیں ہوتی؟ لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام دفتری ریکارڈ ، عدالتی کارروائی اور عدالتی فیصلوں میں اردو کو نافذ کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکے۔ چنانچہ سپریم کورٹ آف پاکستان کانو سو صفحات پر مشتمل حالیہ فیصلہ بھی انگریزی زبان میں آیا ہے ۔ تا ہم یہ بات درست ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں میں اپنے اختلافی یا اضافی نوٹ اردو میں لکھے ہیں اور ان کی اردو بھی ماشاء اللہ اچھی ہے ، اس کی ہم صدقِ دل سے تحسین کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے باوقار منصب پر فائز ہونے کے بعد اپنے 35روزہ عہد میں اس حوالے سے کافی پیش رفت فرمائیں گے ، کیونکہ اتنی مختصر مدت میں تمام تر اخلاص اور حسنِ نیت کے باوجود پورے نظام کو بدلنا اتنا آسان نہیں ہے ، لیکن کسی بھی اعلیٰ مقصد کی طرف پیش رفت کے لیے پہلی اینٹ اور بارش کا پہلا قطرہ بھی غنیمت ہوتا ہے اور آئندہ آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ کاکام دیتا ہے۔ 
زیرِ بحث عدالتی فیصلے پر اہل ِ علم و قلم کے کافی وقیع تبصرے آئے ہیں ۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے 1993میں نواز شریف صاحب کی حکومت کی معزولی کے خلاف آئینی پٹیشن کی سماعت کے اوائل ہی میں کہا تھا کہ جناب مولوی تمیز الدین خان سابق اسپیکر قومی اسمبلی کی پٹیشن پر جسٹس منیرکا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے مطابق تھا، جناب محمد خان جونیجو کی حکومت کی معزولی کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ زمینی حقائق کے مطابق تھا کہ قوم نئے انتخاب کے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی اور اب ہم میرٹ پر فیصلہ کریں گے ۔ لیکن بعد میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف کی حکومت کومعزول کرنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے خلاف پٹیشن پر عدالت ِ عظمیٰ نے ایک بار پھر میرٹ کو الوداع کہا اور اضطراری جبر کو قبول کر لیا ۔ جو با ضمیر جج صاحبان جبر کے آگے جھکنے پر آمادہ نہ ہوئے ، انہیں منصب سے معزول کر کے گھر بھیج دیا گیا، علامہ محمد اقبال نے کہا تھا ؎
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت 
فیصلہ تیرا ، تیرے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم 
میرے نزدیک سپریم کورٹ آف پاکستان کا حالیہ فیصلہ میرٹ اور زمینی حقائق کا امتزاج ہے ۔ آئین میں ترمیم کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کی خود مختاری اور بالا دستی کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور یہ درست ہے تاکہ آئندہ کے لیے ایک جہت اور دستوری شعار کا تعین ہو جائے ۔ ہماری پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش صائب رہتی ہے یا نہیں، اس کا جائزہ Case to Case لیا جاتا رہے گا ۔ اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے میرٹ کی تصوراتی معراج سے نیچے اتر کر زمینی حقائق کا ادراک کیا ؛ بے امنی، قتل و غارت ، تخریب و فساد اور دہشت گردی سے نجات کے لیے ، جس میں پہل کا شرف جنرل راحیل شریف کو حاصل ہے ، قومی اتفاقِ رائے کی حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور اس میں یہ پیغام بھی مضمر ہے کہ ہمارا نظامِ عدل کامل انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے ، اس کی وجوہ متعدد ہیں :ہمارا ضابطۂ قانون ، وکلاء کا مجرموں کے دفاع اور تحفظ کے لیے نت نئے حیلے اور تاخیری حربے استعمال کرنا ، ہمارے تحقیقی اور تفتیشی اداروں کی نا اہلی اور ناکامی ، کرپشن کا ناسور وغیرہ۔ یہ اسباب تو ہر خاص و عام کی زبان پر ہیں ، لیکن دہشت گردی کے حوالے سے ایک بڑا سبب جبر اور خوف اور عدم تحفظ کا احساس بھی ہے اور شاید یہ سب سے بڑا سبب ہے اور اس سے ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مختلف سطحوں کی ماتحت عدلیہ کے معزز جج صاحبان بھی مستثنیٰ نہیں ہیں ۔
اگر چہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کے فیصلے پر نظر ثانی کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے ، مگر اس اختیار کا استعمال سنگین مجرموں اور قاتلوں کے بچاؤ کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اگر کہیں صریح نا انصافی نظر آئے ، تو اس کے ازالے کے لیے ہونا چاہیے ، ورنہ اگر فوجی عدالتوں کے قیام کے باوجود مجرموں کے بچاؤ کے لیے قانونی ضوابط اور دلائل کی موشگافیوں کا سہارا لیا گیا اور فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم باری باری باعزت بری ہو کر نکلنے لگے، تو فوجی عدالتوں کا خوف بھی لوگوں کے ذہنوں سے نکل جائے گا اور عوام کو بے حد مایوسی ہو گی ۔ 
سر دست صورتِ حال یہ ہے کہ چودہ اگست کو پوری قوم نے دل و جان سے یومِ پاکستان منایا ، مسلح افواج بھی قوم کے شانہ بشانہ نظر آئیں اور بلوچستان میں جہاں پاکستان کا قومی پرچم لہرانا اور قومی ترانہ پڑھنا ، ناقابلِ تصور تھا اور جر م بنا دیا گیا تھا، جشنِ آزادی کے مناظر نے ایک بار پھر لوگوں میں اعتماد پیدا کیا ہے ، حب الوطنی کے جذبات اَز سرِ نو اجاگر ہوئے ہیں اوراہلِ پاکستان ،جو مختلف حوالوں سے طبقات میں بٹے ہوئے تھے ، ایک قوم نظر آئے اور عوام میںاپنے وطنِ عزیز پر ایک اعتماد پیدا ہوا ہے۔ یہ ایک نہایت اچھی بات ہے ، ورنہ 2014ء سے پہلے لگ بھگ ایک عشرے تک یومِ آزاد ی اور یومِ پاکستان منانے کا رواج ختم ہو چکا تھا۔ دہشت گردی کے خوف سے قومی وحدت اور تصورِ ملت کی ان علامات کی بساط کو لپیٹ دیا گیا تھا۔ ہم نے خود اپنے محلوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو قومی پرچم کے رنگوں پر مشتمل لباس میں ملبوس اور قومی جھنڈوں کو جابجا لہراتے ہوئے دیکھا ۔ میں نے اپنی شعوری زندگی میں پہلی بار ایک رکشہ ڈرائیور کو قومی پرچم کی چادر اوڑھ کر رکشہ چلاتے ہوئے دیکھا۔ یہ سب مناظر بڑے دلکش اور حسین معلوم ہو ئے ۔
حسنِ اتفاق سے اس سال چودہ اگست جمعۃ المبارک کو واقع ہو ا اور مساجد میں جمعۃ المبارک کو خطابات میں تحریک ِ پاکستان اور پاکستان کو دَرپیش مسائل پر خطابات ہوئے ۔ مجھے جمعۃ المبارک کے خطاب کے حوالے سے کئی ای میل پیغامات موصول ہوئے اور با شعور لوگوں نے اسے پسند کیا کہ مساجد کے منبر سے نئی نسل میں تحریکِ پاکستان کے حوالے سے آگہی پیدا کی جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ ہماری مسلح افواج ملک کے حال اور مستقبل کو محفوظ اور پر اُمن رکھنے کے لیے کوشاں ہے ۔ ایک پرامن اور بااعتماد قوم ہی ترقی کی شاہراہ پر اقوامِ عالم کا مقابلہ کرسکتی ہے ، نئی نسل کو یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ کسی نے پاکستان سونے کی طشتری میں رکھ کر نہیں دیا ، بلکہ اس کے پیچھے بے انتہا قربانیاں ہیں۔ ہمارے اکابر اور قائدینِ تحریکِ پاکستان کی عزم و استقامت سے بھرپور جُہدِ مسلسل ہے اور یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ یہ وطنِ عزیز دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا اور اسلامی قومیت کے نظریے کی جھلک ہمارے نظام میں نظر آنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں