"MMC" (space) message & send to 7575

صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری

گزشتہ دنوں اخبارات سے معلوم ہوا کہ ہمارے ممدوح جناب صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری صاحب نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے ۔جناب عمران خان اپنے تمام تر محاسن کے باوجود سیاسی مخالفین کے لیے دشنام اور تحقیر وتوہین کے چیمپئن ہیں ، وہ اپنی خوبیوں سے زیادہ اپنے مخالفین کی خامیوں پر جینا پسند کرتے ہیں ۔اس کے برعکس صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری ان کی ضد ہیں۔ یقینا صاحبزادہ صاحب نے یہ فیصلہ اپنے حالات اور مقامی تقاضوں کے مطابق کیا ہوگا، ہم بہر صورت ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں،ایسے لوگ جہاں بھی ہوں ، اَقدار کے زوال کے اس عہد میں ان کادم غنیمت ہے۔ صاحبزادہ نورالحق قادری اپنی افتاد ِطبع کے اعتبار سے ایک متواضع،متوازن، متین، خلیق اوروجیہ شخص ہیں، صاحبِ علم ہیں اور لنڈی کوتل خیبر ایجنسی کے ایک علمی و روحانی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں،ان کے والد ماجد جناب شیخ عبدالعزیز عرف شیخ گل صاحب قادری سلسلے کے شیخ طریقت ہیں، یہ سب لوگ متشرع، متدیّن اور صالح لوگ ہیں، ان کا قبائلی علاقے میں وسیع حلقۂ ارادت ہے، ان کا تعلق شنواری قبیلے سے ہے ،جو پاک افغان سرحد کے دونوں طرف آباد ہے ۔وہ دو بار قومی اسمبلی کے رکن اورزکوٰۃ وعشر کے وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن ان کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں ہے ،ان کی زبان سے کبھی تہذیب واخلاق سے گرا ہوا لفظ نہیں سنا، وضع دار ی اور دلداری ان کی فطرت ثانیہ ہے ۔ان کے برادر بزرگ صاحبزادہ عبدالمالک قادری بھی سینیٹر رہ چکے ہیں۔ سیاسی ودینی حلقوں میں یہ حضرات عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، یہ لوگ عربی کے اس مقولے کا مصداق ہیں :''مَنْ وَقَّرَ وُقِّرَ‘‘، جس نے دوسروں کی عزت کی ،اُس نے خود اپنے لیے عزت کمائی۔
یہ علمی وروحانی خاندان دینی مدارس کا ایک نیٹ ورک بھی چلا رہا ہے ، جمرود روڈ پشاور میں ''دارالعلوم جُنیدیہ غفوریہ‘‘ کے نام سے ان کا وقیع علمی ادارہ ہے اور خیبر ایجنسی میں اس کی متعدد شاخیں ہیں ، ان اداروں کی مالی کفالت یہ اپنے خاندان اور قریبی مخلصین کے تعاون سے کرتے ہیں۔ اسلام اور پاکستان کے لیے ان کی قربانیاں بھی بیش بہا ہیں، دہشت گردوں نے ان کے خاندان کے چار قریب ترین ذی علم افرادکو شہید کیا، یہ لوگ منگل باغ گروپ کی دہشت گردی کا نشانہ بنے، ان میں ان کے عالم وفاضل چچا علامہ حافظ عبدالعظیم صاحب اور بھائی علامہ نورالدین صاحب بھی شہید ہوئے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، علامہ نورالدین صاحب اپنے جامعہ میں شیخ الحدیث اورحیات آباد پشاور کی انتہائی عالی شان ''جامع مسجد زرعون‘‘ میں خطابت فرماتے تھے اور پشتو کے بہترین خطیب تھے ۔ منگل باغ مولوی فضل اللہ کا اتحادی ہے اور آج کل افغان حکومت کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہورہا ہے،وہ پاکستان میں تخریب کاری کے منصوبہ ساز لوگوں میں شامل ہے۔قبائلی علاقہ جات کوفاٹایعنی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ کہاجاتا ہے، آج کل فاٹا کا مستقبل زیرِ بحث ہے ،اکثر بڑی سیاسی جماعتیں اسے صوبۂ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حق میں ہیں، جبکہ مولانا فضل الرحمن اور جناب محمود خان اچکزئی اسے الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور معاملے کو طول دینے کے لیے قبائلی علاقہ جات میں ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہاں کے عوام کی رائے معلوم کی جائے۔وفاقی حکومت اس وقت کمزور پوزیشن میں ہے ،اس لیے وہ قوتِ فیصلہ سے محروم ہے،ابتلاء کے دور میں اپنے ان دو قریبی اتحادیوں سے محروم ہونے کا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ الغرض جب تک قبائلی علاقہ جات کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوجاتا، وہاں کے منتخب سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی کو اپنے انتخابی حلقوں کے عوام کی خدمت کے لیے ترقیاتی منصوبے بنانے اور ترقیاتی فنڈ لینے کی خاطر وفاق پر انحصار کرنا پڑتا ہے ،کیونکہ یہ علاقے براہِ راست صدر ِپاکستان کے زیرِ انتظام ہیں اور وہ خیبرپختونخوا کے گورنر کے توسط سے اِن اختیارات کو استعمال کرتے ہیں، لیکن حقیقی اختیارات بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ ضرب عضب اور رد الفسادآپریشنز کے سبب عملی طور پر یہ علاقے فوج کے کنٹرول میں ہیں اور بڑے ترقیاتی کام فوج ہی کرارہی ہے ،لہٰذا تقسیمِ اختیارات اور تفویضِ اختیارات کے معاملات غیر واضح ہیں۔
صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری کو کالم کا عنوان بنانے سے میرا مقصد یہ تھا کہ ان جیسی باکردار اور وضع دار شخصیات کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے امید کی ایک کرن نمودار ہوتی ہے کہ شاید اس سے پارٹی کی مجموعی اخلاقی فضاپر مثبت اثرات رونما ہوں، کیونکہ اسلام میں صحبت صالح کی بڑی برکات بیان کی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں سے جڑے رہو،(توبہ:119)‘‘۔مفسرینِ کرام نے بتایا کہ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقویٰ کی سعادت نصیب ہوجائے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائے ،تو اس کے لیے لازم ہے کہ صادقین کی صحبت اختیار کرے تاکہ تقویٰ کی کیفیت نفس میں راسخ ہوجائے اور زائل ہونے سے بچ جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(پختہ رنگ )اللہ کا رنگ ہے اور اللہ سے بہتر اپنے رنگ میں ڈھالنے والا اور کون ہوسکتا ہے ،(بقرہ:138)‘‘۔صحبت کی برکت اور فیضان کو اس طویل حدیث میں بیان کیا گیا ہے:
'' حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فرشتے راستوں میں گھومتے رہتے ہیں اور ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے رہتے ہیں، پھر جب وہ کچھ لوگوں کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو(ایک دوسرے کو) آواز دیتے ہیں :ادھر آئو، تمہارا گوہر مقصود یہاں ہے ۔ پھر فرشتے اپنے پروں سے ان لوگوں کو آسمانِ دنیا تک گھیرلیتے ہیں، اُن کا رب اُن سے سوال کرتا ہے ،حالانکہ وہ(حقیقت کو) ان سے زیادہ جاننے والا ہے، میرے بندے کیا کہہ رہے تھے۔فرشتے عرض کرتے ہیں:'' وہ تیری تسبیح کرتے تھے، تیری کبریائی کا اقرار کرتے تھے ،تیری حمد کرتے تھے اور تیری تعظیم کرتے تھے‘‘۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:''کیا ان لوگوں نے مجھے دیکھا ہے ؟،فرشتے عرض کرتے ہیں:''نہیں !اللہ کی قسم انہوں نے تیری ذاتِ جلالت کو نہیں دیکھا ‘‘ ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو پھر ان کے ذوقِ عبادت کا عالم کیا ہوتا؟،فرشتے عرض کرتے ہیں :(اے اللہ!) اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو اس سے (بدرجہا) زائدتیری عبادت کرتے ، تیری بزرگی بیان کرتے اور تیری تسبیح پڑھتے ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :'' وہ مجھ سے کس چیز کا سوال کررہے تھے؟،فرشتے عرض کرتے ہیں :وہ تیری حمد بیان کررہے تھے اور تجھ سے جنت کا سوال کررہے تھے‘‘، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ''کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے ؟، فرشتے عرض کرتے ہیں : اے میرے رب!اللہ کی قسم! انہوں نے جنت کو(ہرگز) نہیں دیکھا‘‘، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اگر وہ جنت کو دیکھ لیتے تو پھر ان کے طلب کا عالَم کیا ہوتا؟، فرشتے عرض کرتے ہیں :اگر وہ جنت کو دیکھ لیتے تو پھر ان کا جنت کا اشتیاق بے انتہا ہوتا اور ان کے طلب کی کوئی حد نہ ہوتی اور ان (کے طلبِ جنت ) کا عالم دیدنی ہوتا ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: وہ کس چیز سے پناہ طلب کررہے تھے؟،فرشتے عرض کرتے ہیں: وہ دوزخ سے پناہ طلب کررہے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انہوں نے دوزخ کو دیکھا ہے ؟،فرشتے عرض کرتے ہیں: اللہ کی قسم!انہوں نے دوزخ کوہرگز نہیں دیکھا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ دوزخ کو دیکھ لیتے توپھر کیاہوتا؟، فرشتے عرض کرتے ہیں : اگر وہ دوزخ کو دیکھ لیتے تواور زیادہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے اور بے انتہا خوف زدہ ہوتے،پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیںبخش دیا ہے ۔ پھراُن میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے:(اے اللہ!) ان ذاکرین میں ایک بندہ ایسابھی تھا جو ان میں سے نہیں تھا، وہ تو کسی کام سے(اتفاقاً) آیاتھا،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ان (مبارک) مجلسوں والے ایسے (مردانِ باکمال) ہیں کہ جو (کسی بھی سبب سے ) ان کا ہمنشیں ہوجائے، پھر وہ نامراد نہیں رہتا، (صحیح البخاری: 6408)‘‘۔
شیخ سعدی شیرازی نے کہا ہے:
گِلے خوش بوئے در حمّام روزے
رسید از دستِ محبوبے بہ دستم
بدو گفتم کہ مشکے یا عبیرے
کہ از بوئے دل آویز تو مستم
بگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مدّتے با گُل نشستم
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
ترجمہ: ''ایک دن حمام میں، محبوب کے ہاتھ سے مجھ تک ایک خوشبودار مٹی پہنچی،میں نے اس سے کہا : تو مشک ہے یا عبیر (دونوں اعلیٰ قسم کی خوشبوئیں ہیں)؟،کہ تیری دل آویز خوشبو سے میں مَیں مست ہوا جاتا ہوں،اس نے کہا: میں تو ناچیز مٹی تھی، لیکن ایک عرصے تک خوشبودار پھول کے ساتھ جڑی رہی ہوں،پس ہمنشیں(پھول) کے جمال نے مجھ میں بھی اثر کر دیا ہے، وگرنہ (اپنی حقیقت کے اعتبار سے تو)میں وہی ناچیز مٹی ہوں‘‘۔انہوں نے مزید کہا:
پسرِ نوح با بداں بنشست
خاندان نبوتش گم کرد
سگِ اصحاب کہف روزے چند
پئے نیکاں گرفت، مردم شد
ترجمہ :حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بُروں کی صحبت اختیار کی ،تو خاندان نبوت( کی نسبتِ پاک کے اعزاز )سے محروم ہوگیا ، (اس کے برعکس) اصحابِ کہف کا کتا چند دن نیکوں کے قدموں میں پڑا رہا تو باکمال بن گیا‘‘۔عرب شاعر نے کہا ہے:
اُحِبُّ الصَّالِحِیْنَ وَلَسْتُ مِنْہُمْ
لَعَلَّ اللّٰہَ یَرْزُقُنِیْ صَلَاحاً
ترجمہ: ''میں صالحین سے محبت کرتا ہوں ،حالانکہ میں اُن میں سے نہیں ہوں ،شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی اُن جیسا بنادے‘‘۔ پس قحط الرجال اور تنزّل کے اس دور میں ہمارے ممدوح صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری جناب محسن لطیفی کے اس شعر کا مصداق ہیں:
جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے ،وہ لوگ
تم نے دیکھے نہیں، مگر ایسے بھی ہیں
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارا حسنِ ظن حقیقت میں بدل جائے ،سو پی ٹی آئی اور جناب عمران خان کو اس پاکیزہ کردار انسان کی رفاقت مبارک ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں