سیلاب کی تباہ کاریاں اور بے حس سیاست

خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا کہ ''اگر فرات کے کنارے اونٹنی کا ایک بچہ بھی مر گیا تو مجھے ڈر ہے کہ قیامت کے دن وہ عمر کو پکڑ لے گا‘‘۔ (فصل الخطاب فی سیرۃ ابن خطابؓ از ڈاکٹر علی الصلابی)
عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ جمہوریت ہو یا آمریت‘ دونوں میں حکمران خود کو اپنے رب کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ یہ صرف خلافت کا نظام ہے جس میں خلیفہ، عوام اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ‘ دونوں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی سب سے سخت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ ''اس شخص کا کوئی والی نہیں جو مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لیتا ہے اور انہیں دھوکا دیتے دیتے مر جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دیتے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔ اسلام نے سیاست میں لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا فرض قرار دیا ہے اور اس فرض میں کوتاہی یا ناکامی پر حکمرانوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افسوس !ہمارے سیا سی رہنمائوں کی اقتدار کی رسہ کشی میں بے بس سیلاب متاثرین کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے۔ درحقیقت قائداعظم کے پاکستان میں گزشتہ 75 برسوں میں ایسے سیاست دان ناپید رہے ہیں جو عوام کے دکھ‘ درد اور تکالیف کو دور کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہوں۔ ایک طرف قومی اسمبلیوں سے استعفوں کے اعلانات کے باوجود مراعات کی وصولی، اپنے آپ کو مقبول لیڈر کہنا اور کسی دوسرے کو تسلیم نہیں کرنا، حکومتی اتحاد، عدلیہ، الیکشن کمیشن سے محاذ آرائی، حکومتی بے دخلی کو امریکی سازش کا شاخسانہ بتانا اور دن رات نئے انتخابات کا راگ الاپنا تو دوسری جانب سیلاب میں ڈوبا پاکستان۔ ملک میں سیلاب نے قیامت صغریٰ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ 1400 سے زائد انسانی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ 400 سے زائد معصوم بچوں کو بپھرتا پانی بہا کر لے گیا۔ ملکی تاریخ کے مہلک ترین سیلاب سے مجموعی طور پر 4کروڑ آبادی براہِ راست متاثر ہوئی ہے۔ کے پی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے جنوبی علاقوں میں انسان، چرند پرند، عمارتیں،ہوٹلز، فصلوں، باغات سمیت ہر شے خس و خاشاک کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ ابھی تک کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں کوئی پہنچا ہی نہیں، وہاں ابھی تک لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے اعدادو شمار کے مطابق املاک کا مجموعی نقصان 9 سو ارب روپے سے زائد کا ہے، آٹھ لاکھ کے قریب مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے کئی مقامات پر اب بھی انسانی نعشیں تیرتی نظر آ رہی ہیں۔ صوبہ سندھ کے23 اضلاع آفت زدہ قرار دیے جا چکے ہیں جن کی ایک کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی ہے۔ بلوچستان کے 34 اضلاع کے 91 لاکھ82 ہزار سے زیادہ افراد سیلاب زدگان میں شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب کے 8 اضلاع کی 48 لاکھ سے زائد آبادی اور کے پی کے33 اضلاع میں سیلاب سے 43 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
دکھ اس بات کا ہے کہ اس خوفناک سیلاب کی و حشت سے بچ نکلنے والے بے یارو مدد گار، بے بس، لاچار اب بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ کیونکہ اکثر ریلیف کیمپوں میں علاج و معالجے کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ تاحال صرف زبانی جمع خرچ اور بیانات پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ فوٹو سیشن کرا کے متاثرین کو جھوٹی تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ اس سیلاب کے دوران ہمارے سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کی ''فراخ دلی، عوامی ہمدردی و غم گساری‘‘ کے مظاہرے پوری دنیا نے دیکھ لیے ہیں۔ ایک طرف ملک کی ایک بڑی پارٹی کی مرکزی خاتون رہنما کے شوہر لٹے پٹے سیلاب زدگان میں پچاس پچاس کے روپے بانٹتے نظر آئے تو دوسری جانب اسی جماعت کے ایک قومی لیڈر نے زیرِ آب سندھ کو اٹلی کے شہر 'وینس‘ سے تشبیہ دے دی۔ سیاسی رہنما بے سرو سامانی کے عالم میں کسمپرسی و بھوک کے مارے متاثرین کو تفریح کے نئے نئے لوازمات بتاتے ہوئے بھی دکھائی دیے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی درجنوں فوٹو گرافرز اور کیمرہ مینوں کی موجودگی میں سیلاب زدگان کو کھانا کھلانے کی تصاویر اور وڈیوز دیکھ کردلی افسوس ہوا۔ میں ابھی تک قومی لیڈروں کی ذہنی پسماندگی دیکھ کر سکتے و صدمے کی کیفیت سے دوچار ہوں۔ کیا انہیں سیاسی مفادات کیلئے انسانیت کی تذلیل میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ کاش! کرسی کیلئے باہم دست و گریبان سیاسی رہنما تھوڑی دیر کے لیے سیلاب زدگان کا ہی خیال کرتے ہوئے سیاسی لڑائیوں کو خیرباد کہہ دیتے۔ اس سیلاب سے یہ حقیقت بھی مزید عیاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ عوام کے خوان پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی رقم کو شہروں میں پانی کی نکاسی کے منصوبے شروع کرنے کیلئے درست طور پر مصرف میں لایا جاتا تو شاید آج اتنی تباہی و بربادی ہمارا مقدر نہ بنتی۔ اگر آبی ذخائر کی تعمیر پر توجہ دی جاتی تو بیشتر پانی محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ یہ بات کون جھٹلائے گا کہ پاکستان میں ڈیموں کی تعداد انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے پانی کے اضافی بوجھ کو روکنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ بھارت کئی برس سے ''واٹر وار‘‘ کے تحت اضافی پانی چھوڑرہا ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اس تباہ کاری سے بچائو کیلئے کوئی مؤثر حکمت عملی مرتب نہیں کی۔ ہمیشہ کی طرح قصے کہانیاں سننے کو مل رہے ہیں اور ہر سال غریب عوام کو قدرتی آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بعض عاقبت نا اندیش اور اپنے مفادات کے اسیر سیاستدانوں کا آج بھی یہی نعرہ ہے کہ ''مر جائیں گے لیکن کالا باغ ڈیم‘ جو پاکستان کیلئے معاشی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے‘ نہیں بننے دیں گے‘‘۔ بھارت کے پاس 1947ء میں صرف 300 ڈیمز تھے جن کی اس وقت تعداد 5 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ ان ڈیمز کو 20 لاکھ 8 ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل زرعی زمین اور 37 ہزار 367 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ دنیا کے کل ڈیموں کا 59.7 فیصد ایشیا میں، 21.1 فیصد شمالی امریکہ، 12.6 فیصد یورپ، 3.3 فیصد افریقہ، 2 فیصد جنوبی افریقہ اور 1.3 فیصد آسٹریلیا میں ہے۔ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات درست نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف اوسطاً سالانہ 20 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو جاتا ہے‘ وہیں دوسری طرف اس کمی سے ہر سال سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل زمین پر کاشت نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان کے تباہ کن سیلاب نے دنیا بھر کے لیے موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت عیاں کر دی ہے کہ ریکارڈ بارشیں صرف غریب ممالک میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ تباہی لا سکتی ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلاکت خیز سیلابوں اور بارشوں نے عالمی بے انصافی کے احساس کو مزید گہرا کیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کا عالمی درجہ حرارت بڑھانے والی آلودہ گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچارممالک میں پاکستان سرِ فہرست ہے۔ زرعی اراضی تباہ ہو چکی ہے، فصلیں برباد ہو گئی ہیں، لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں، آنے والے دنوں میں شدید غذائی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ سندھ میں 55 ہزار کلو میٹر کا علاقہ زیرِ آب آ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا دورۂ پاکستان اس بات کی تنبیہ ہے کہ یہاں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لینے والا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاسی میوزیکل چیئرکا کھیل کھیلنے والوں کو اس کا احساس تک نہیں۔ اس وقت ہمارے سیاسی، حکومتی اور معاشرتی عدم استحکام کو بیرونی ممالک میں تضحیک کا نشانہ بنا رہا ہے مگر کسی کو کوئی پروا نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے قومی لیڈر ہوش کے ناخن لیں۔ اس وقت وطن عزیز نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مقامِ افسوس ہے کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مبتلا حکومتی و اپوزیشن لیڈروں کا سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وہ کردار نظر نہیں آیا جو آنا چاہئے تھا ۔ البتہ پاک فوج کے جوا ن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نگرانی میں متاثرہ علاقوں میں عوام کو سہولتیں بہم پہنچانے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قومی سیاسی قائدین بھی اب یکجا ہو کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے مؤثر حکمت عملی طے کریں ورنہ ہماری آنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں