1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھارت نے بلوچستان اور کے پی کے سرحدی علاقوں اور سندھ میں تخریبی حربے استعمال کرنا شروع کر دیے جبکہ سابق سوویت یونین کی مدد سے اپنی مسلح افواج کی وسعت دینے اور اسے جدید بنانے کے منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز بھی کر دیا۔ بعد ازاں سوویت یونین بھارت کو ہتھیار سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ بھارت نے اگست 1974ء میں پوکھران میں ایٹمی دھماکا کر کے جنوبی ایشیا میں نیوکلیئرائزیشن کی بنیاد رکھی۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارت کے عزائم کو بھانپتے ہوئے 1976ء میں ڈاکٹر اے کیو خان کی قیادت میں کہوٹہ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی۔ جمی کارٹر کے دورِ حکومت میں 1978ء میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کا ہدف بنا اور محض شک کی بنا پر پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یہ پروگرام امریکہ کے علاوہ بھارت اور اسرائیل کو بھی کھٹکنے لگا اور ہنود و یہود گٹھ جوڑ نے اسے سبوتاژ کرنے کے بے شمار مذموم منصوبے بنائے۔ بھارت اور اسرائیل کی جانب سے فضائی حملوں سے کہوٹہ پلانٹ کو تباہ کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں جنہیں ناکام بنا دیا گیا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ امریکی صدر ریگن کے دور میں افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی وجہ سے پاکستان کے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو نظر انداز رکھا گیا کیونکہ سوویت یونین کے خلاف اس جنگ میں پاکستان مرکزی کردار ادا کر رہا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسی امریکی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1983-84ء میں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی۔ افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے اور سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد امریکہ نے 1990ء میں پاکستان پر دوبارہ معاشی اور عسکری پابندیاں عائد کر دیں تاکہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو جاری نہ رکھ سکے جبکہ پاکستان کے پُرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اسے 'اسلامی بم‘ کا نام دیا گیا۔ بھارت کے ساتھ سٹرٹیجک تعلقات میں پُرجوش بل کلنٹن حکومت نے بھی پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ اپنایا۔ جب مئی 1998ء میں بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان پر ہر طرح کا دبائو ڈالا گیا کہ ایٹمی دھماکے نہ کیے جائیں۔ امداد اور قرضوں میں رعایت کے لالچ کے علاوہ اضافی معاشی پابندیوں کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ جب اس وقت کی حکومت نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے جوہری تجربات کو روکنے سے انکار کر دیا تو پاکستان پر مزید پابندیاں لگا دی گئیں۔ یہ پابندیاں ستمبر 2001ء تک جاری رہیں اور اس وقت ختم ہوئیں جب امریکہ نے پاکستان کو ''وار آن ٹیرر‘‘ میں دوبارہ سٹرٹیجک پارٹنر بنایا مگر تب بھی بھارت ہی اس کا ترجیحی انتخاب تھا۔ 2004ء میں آئی اے ای اے کی ایک رپورٹ کو بنیاد بنا کر پاکستان پر جوہری پھیلاؤ کا الزام لگایا گیا اور صدر بش انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جارج بش نے 2006ء اور 2007ء میں بڑی تعداد میں دفاعی اور اقتصادی معاہدوں کے علاوہ سول نیوکلیئر معاہدے پر دستخط کرکے بھارت کے ساتھ مراسم بہتر بنانے میں ایک قدم آگے بڑھایا۔ امریکہ کی جانب سے اس دوران دنیا بھر میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام غیر محفوظ ہے اور اس کے غلط ہاتھوں میں جانے کا خدشہ ہے۔ اس دوران پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی کی وجہ سے اس بیانیے کو خوب اچھالا گیا۔ بار بار جوہری تنصیبات کے مشترکہ کنٹرول کی پیشکش کی گئی لیکن دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے قبول نہیں کیا گیا۔ پاکستان پر یکطرفہ طور پر جوہری مواد کے عدم پھیلائو کے معاہدے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کے لیے بھی سخت دباؤ ڈالا گیا جبکہ بھارت کو اس معاملے میں بھی کھلی چھٹی دی گئی۔ بھارت کی روایتی اور غیر روایتی طاقتوں کو اس بہانے سے مسلسل تقویت دی گئی کہ امریکہ و یورپ اسے چین کے خلاف مضبوط بنانے میں لگے رہے تاکہ چین کی صورت میں انہیں کسی چیلنج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دنیا گواہ ہے کہ پاکستان کا جوہری اور میزائل پروگرام عالمی ایٹمی ایجنسی IAEA کے تمام حفاظتی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور بین الاقوامی معیارات پر پورا اتر کر مکمل طور پر محفوظ ہے۔ پاک فوج کی سٹرٹیجک پلان ڈویژن (ایس پی ڈی) فورس کا اس ضمن میں مرکزی کردار رہا ہے جو قابلِ تحسین ہے۔ عسکریت پسندوں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششیں کبھی بھی واشنگٹن کو مطمئن نہیں کر سکیں اور ہمیشہ ڈومور کا تقاضا کیا گیا جبکہ پاکستان کا تعلق کبھی القاعدہ اور کبھی طالبان کے کچھ گروپوں سے بھی جوڑا جاتا رہا اور ان مفروضوں اور شبہات پر مبنی الزامات کو کبھی ثابت بھی نہیں کیا جا سکا۔ براک اوباما کے دورِ حکومت میں بھارت کے ایٹمی پروگرام کو بین الاقوامی جوہری سپلائرز گروپوں تک رسائی دے کر مزید تقویت دی گئی حالانکہ بھارت نے NPT اور CTBT پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے لیے نہ صرف ہائی ٹیک ہتھیاروں اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی خریداری کے تمام راستے مسدود کیے گئے بلکہ جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے بھی متعدد مذموم منصوبے بنائے گئے۔ پاکستان کو دہشت گرد اور دنیا کا خطرناک ترین ملک تک قرار دیا گیا اور مسلسل ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیا مگر ان تمام سازشوں اور اقدامات کے باوجود پاکستان دنیا کا محفوظ ترین ایٹمی ملک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ سی پیک بھی بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہا ہے۔ ''را‘‘ اور این ڈی ایس نے سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے قبائلی علاقوں، کے پی اور بلوچستان میں مسلسل دہشت گردانہ حملے کیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی پاکستان سے متعلق انتہائی جارحانہ انداز اپنایا۔ پاکستان کی امداد اور دیگر فنڈز کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں پیشرفت سے مشروط کر دیا۔ ٹرمپ نے مودی کے ساتھ ذاتی دوستی کا اظہار کیا اور پاکستان کے خلاف بیان بازی جاری رکھی۔ گو کہ ٹرمپ کے آخری دور میں اس بیان بازی میں قدرے نرمی آئی مگر 29 فروری 2020ء کو دوحہ امن معاہدے میں امریکہ کی مدد کرنے پر بھی پاکستان کی اقتصادی امداد کی تجدید نہیں کی گئی۔ آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کو پاکستان کی معیشت کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ صدر جو بائیڈن نے بھی اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے ذلت آمیز انخلا پر اپنی خفت مٹانے کیلئے اپنے پیشروؤں کی تقلید میں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ بظاہر بائیڈن حکومت اپنی متعصب خارجہ پالیسی میں ترمیم کرنے اور نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے مثبت اشارے دے رہی تھی لیکن روس‘ چین کو گھیرنے کی کوشش اور شمالی کوریا کو تیسرا بڑا خطرہ قرار دینے کے بجائے پاکستان کے جوہری پروگرام پر بے بنیاد نوعیت کے سنگین الزامات لگا کر ایک نیا محاذ کھول دیا گیا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر امن عمل میں ہمیشہ بھرپور شرکت کی ہے لیکن طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اس کی سول اور عسکری گرانٹ پر قدغن لگا کر ڈومور کے تقاضے کیے گئے بلکہ سنگین نتائج اور بلیک لسٹ کی تلوار بھی سر پر لٹکائے رکھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ یوکرین پر روسی فوج کے تابڑ توڑ میزائل اور ڈرون حملوں نے عمر رسیدہ صدر بائیڈن کو بے چین کر دیا ہے۔ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ چین اگلی سپر پاور کا منصب سنبھالنے کو تیار ہے اور روس صدر پوتن کی قیادت میں اپنا حساب چکانے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پہلی بار تیل کی پیداوار پر امریکی دباؤ کو مسترد کیا ہے اور امریکی خواہش کے برخلاف وہ روس اور چین کے ساتھ روبل اور یوآن میں تیل اور گیس کی تجارت کر رہے ہیں۔ اس وقت امریکہ کو ایک زوال پذیر طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور وہ نہایت تیزی سے اپنے دوست کھوتا جا رہا ہے۔ اگر اس نازک موڑ پر وہ اپنے مذموم ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے لیے پاکستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ فیصلہ اس کی قومی سلامتی اور سالمیت کے بحران کو مزید سنگین بنانے کا موجب بنے گا۔