سی پیک منصوبہ‘ عشروں پر محیط پاک چین دوستی کا مظہر !

پاک چین‘ آئرن برادرز کی شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند لازوال دوستی دونوں ملکوں کا سب سے قیمتی سٹرٹیجک اثاثہ بن چکی ہے اور اس کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست ہیں۔ یہ وہ عظیم رشتہ ہے جو عالمی اور بدلتی علاقائی صورتحال کے کبھی تابع نہیں رہا۔ بیشک دنیا کی حالیہ سفارتی تاریخ میں پاک چین تعلقات کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ آزمائش کی ہر گھڑی میں چین نے پاکستان کی معاونت کی اور اس کا ساتھ نبھایا۔ بیجنگ کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لا کھڑا کرے‘ اس حوالے سے معاشی‘ توانائی اور دفاع سمیت تمام شعبوں میں شانہ بشانہ کام کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت تیار ہے۔ چیئرمین مائوزے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا۔
عوامی جمہوریہ چین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات 21 مئی 1951ء کو قائم ہوئے تھے جو روزبروز نہ صرف مستحکم ہوتے گئے بلکہ بے مثال رشتے میں بدل گئے۔ زراعت، ڈنفیس، مواصلاتی سسٹم اور افرادی ترقی دو طرفہ تعاون کا ایک ایسا باب ہے جس کا ہر حرف آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ چین پاکستان کی ترقی کے لیے پُرعزم ہے اور سی پیک عشروں پر محیط پاک چین دوستی کا مظہر ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں تعینات چینی سفیر مسٹر نونگ رونگ (Nong Rong) نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کی پاکستان کے لیے خدمات گراں قدر اور قابلِ تحسین ہیں۔ جناب نونگ رونگ سے میرے دوستانہ مراسم ہیں اور میں نے ا نہیں ہر ملاقات میں پاکستان سے محبت کرنے والا اور مخلص انسان پایا جس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ زیادہ تر پاکستان کے قومی لباس‘ شلوار قمیص میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ جناب نونگ رونگ چین میں بطور میئر بھی فرائض نبھا چکے ہیں۔ چینی سفیر کے مطابق بیجنگ نے سی پیک میں مجموعی طور پر 25.4 ارب ڈالر کی براہ ِراست سرمایہ کاری کی اور 2.12 ارب ڈالر ٹیکس اداکیا۔ اس منصوبے نے پاکستانی عوام کے لیے ایک لاکھ 92 ہزار ملازمتیں پیدا کیں‘ پاکستان میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے کاروبار سمیت دیگر تمام منصوبے عالمی شفافیت کے معیار کے مطابق ہیں۔ سکول، میڈیکل ایمرجنسی سنٹر اور پاک چائنا ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ چین کی مدد سے تعمیر کیے گئے۔ گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے ترجیحی قرضوں کے ساتھ اور چینی امداد سے چلنے والا گوادر ہسپتال اس سال مکمل ہو جائے گا۔ گوادر میں ڈی سیلینیشن پلانٹ بھی زیر تعمیر ہے جو جون میں مکمل ہو گا۔
چینی سفارتخانہ بلوچستان کے لوگوں کو گھریلو سولر یونٹس اور دیگر امداد فراہم کر رہا ہے۔ چین نے گزشتہ دو سالوں میں گوادر میں ہزاروں گھروں کو 7000 سولر پینلز سیٹ فراہم کیے ہیں جبکہ سولر پینلز کے مزید 10 ہزار سیٹس فعال اور تیاری کے مراحل میں ہیں اور انہیں بھی بلوچستان کے غریب لوگوں کے لیے مختص کیا جائے گا۔ چین پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ سی پیک کے پہلے مرحلے میں توانائی، نقل و حمل اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں، جن میں 6040 میگاواٹ بجلی، 886 کلومیٹر ٹرانسمیشن لائن اور 510 کلومیٹر ہائی ویز شامل ہیں، جن سے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی گئی۔ اب سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے تاکہ پاکستان کو جدید زراعت اور صنعتکاری کی جانب گامزن کیا جا سکے۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ چین کی تاریخ میں کسی بھی دوسرے ملک میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ چین اور پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں؛ تاہم اِن کے تعلقات اُن ممالک کو ایک نظر نہیں بھا رہے جو خطے کے وسائل پر قابض ہونے اُور یہاں پر اپنی بالادستی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ استعماری قوتوں کو سی پیک مسلسل کھٹک رہا ہے اور وہ اسے سبوتاژکرنے کے لیے سر گرم عمل ہیں۔ دشمن جانتا ہے کہ یہ ایک معاشی گیم چینجر منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے وطن عزیز پاکستان میں ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھلیں گے۔
سی پیک میں نہ صرف چینی اداروں جیسے آئی پی پیز کی سیلف فنانسنگ سرمایہ کاری شامل ہے بلکہ اس میں چینی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ کم سود والے قرضے اور امدادی منصوبے بھی شامل ہیں۔ سی پیک توانائی کے منصوبے پاکستان کی کل بجلی کی پیداوار کا ایک چوتھائی فراہم کرتے ہیں اور اس سے لاہور اور فیصل آباد جیسے شہروں میں برآمدی صنعتوں کو توانائی فراہم کی جاتی ہے۔ سی پیک منصوبے کی مدد سے تھر کی جامع ترقی سے 6 ارب ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ چین نے سی پیک کے تحت پاکستان کو طبی سامان‘ پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کے لیے intelligent کلاس رومز بھی فراہم کیے ہیں۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ صنعت، زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرے گا۔ چین کے ساتھ پاکستان کی زرعی برآمدات کی نمو میں تقریباً13 گنا اضافہ ہوا۔ پاکستان سے چین کو تلوں کی برآمدات 100 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔ علاوہ ازیں اب چین کی جانب سے پاکستان کو مالی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے قرض بھی فراہم کیا جارہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سی پیک اور گوادر جس وقت پوری طرح فعال ہوں گے تو پاکستان پر چاروں طرف سے ہن برسے گاجس کے بعد پاکستان کی پتلی معاشی صورتحال قصہ پارنیہ بن جائے گی۔کچھ شک نہیں کہ آنے والے وقت میں معاشی راہداری اور گوادر پورٹ سے بے پناہ وسائل حاصل ہوں گے جس کے بعدپاکستان کی تزویراتی ذمہ داریوں کا دائرہ عملاً مشرقِ وسطیٰ تک دراز ہو جائے گا۔ بلاشبہ دونوں سٹرٹیجک پارٹنرز اچھے برے حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ چین نے سیلاب متاثرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے100ملین ڈالر امداد دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ امداد نہ صرف چینی حکومت اور فوج بلکہ چینی کمیونٹی اور کاروباری اداروں کی طرف سے فراخدلانہ عطیہ ہے۔ چین نے ہمیشہ قومی معیشت کو ترقی دینے، پاکستانیوں کی زندگی بہتر بنانے اور مالیاتی استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی ہے۔ گزشتہ سال بھی دوست ملک کی جانب سے پاکستان کو 15 بلین RMB تجارتی قرضے اور دو بلین امریکی ڈالر مہیا فراہم کیے گئے تھے۔ پاکستان کو معاشی و دفاعی لحاظ سے خود کفیل بنانے میں بیجنگ کا کردار کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔
حالیہ عرصے میں دونوں ممالک کے مابین بڑھتا ہوا عسکری تعاون نئی منزلوں سے روشناس ہوا۔ فضائیہ کی مشترکہ مشقوں‘ تربیت ‘ سامان کی ترسیل‘ ہتھیاروں اور جنگی آلات کے معاملات‘ سٹیٹ آف دی آرٹ فریگیٹ جہازوں کی پاک بحریہ کے بیڑے میں شمولیت اورجے ایف 17 تھنڈر طیاروں کی اَپ گریڈنگ پاک چین دفاعی تعاون کی روشن مثالیں ہیں۔ دراصل دونوں ممالک کے مضبوط دفاعی تعلقات اس عظیم دوستی کی اساس ہیں۔ دونوں ممالک کی افواج نے اعلیٰ سطحی دوروں، مشترکہ تربیت اور مشقوں، انسدادِ وبائی تعاون، آلات اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں نتیجہ خیز نتائج حاصل کیے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر بھی چین دوٹوک انداز میں پاکستان کے دیرینہ اور اصولی مؤقف کی مسلسل حمایت کرتا چلا آیا ہے اور پاکستان کی جغرافیائی وحدت اور سلامتی کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون تصور کرتا ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بے مثال پاک چین فرینڈشپ ہی بھارت کے مذموم عزائم کی تکمیل کی راہ میں حائل سب سے بڑی اور سیسہ پلائی دیوار ہے جس سے ٹکرانے والی کوئی بھی بیرونی قوت پاش پاش ہو جائے گی۔ دونوں ممالک کے لیڈروں کی رہنمائی میں چین اور پاکستان کی افواج مختلف شعبوں میں عملی تعاون کو ایک نئی سطح تک بڑھانے کے ساتھ ساتھ تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری میں ایک نئی تحریک پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں ایک نیا کردار ادا کیا جا سکے۔
چین اپنی معاشی طاقت کی وجہ سے ممکنہ طور پر امریکہ کا حریف بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، البتہ اس نے عسکری محاذ پر الجھنے کے بجائے امریکہ کے اقتصادی غبارے سے ہوا نکالنے کی ٹھانی ہوئی ہے اور 2035 ء تک چین امریکہ اور یورپ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ عالمی معیشت میں چین کی مستحکم ہوتی ہوئی پوزیشن امریکہ، مغرب، بھات اور ان کے اتحادی ممالک کے لیے پریشانی کا سبب بن رہی ہے۔ چین کو گھیرنے کے لیے امریکہ نے علاقائی ممالک میں ایک نام نہاد ''انڈو پیسفک حکمت عملی‘‘ تشکیل دی ہے۔ بھارت اور آسٹریلیا کو روس اور چین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے LEMOA، COMCASA اور BECA جیسے معاہدے اس کا واضح مظہر ہیں۔ مغرب اور بھارت پاکستان کو بھی اسی لیے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے نت نئے مذموم منصوبوں کے ساتھ خطے میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ایک مضبوط پاکستان چین کا ساتھ دے، یہی وجہ ہے کہ بھارت مختلف کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کو مالی امداد اور لاجسٹک سپورٹ مہیا کر کے خطے کو تباہی سے دو چار کر رہا ہے۔ خطے میں ''را‘‘ کے گھنائونے کارناموں اور سازشوں کا مقصد صرف اور صرف چینی منصوبوں کو زک پہنچانا ہے تاکہ اقوام عالم میں اس کے بڑھتے اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں