پاکستان اور جاپان دوستانہ تعلقات کی تجدید کیلئے پُرعزم

پاک جاپان دوستانہ تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ وطن عزیز میں قدیم گندھارا تہذیب اور بدھ مت کے تاریخی آثار کی موجودگی کی بدولت جاپان کی پاکستان سے خصوصی عقیدت ہے۔ 1935ء میں جاپان کے شہر کوبہ میں مسجد کا قیام عمل میں آیا تھا جبکہ اردو زبان جاپان میں تقریباً ایک سو سال سے زائد عرصے سے جانی جاتی ہے۔ ٹوکیو سکول آف فارن سٹڈیز‘ جو اس وقت ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن لینگویجز بن چکا ہے‘ نے 1908ء میں اردو زبان کو ایک کورس کے طور پر شامل کیا تھا۔ 1951ء میں سان فرانسسکو کانفرنس میں جاپان کے امن معاہدے کی توثیق کرنے والے پہلے چند ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔ یہی وہ امن معاہدہ تھا جس کے نتیجے میں جاپان ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا۔ اس امن کانفرنس میں سر ظفر اللہ نے ایک تاریخی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''جاپان کے ساتھ امن معاہدے میں انصاف اور مفاہمت کے اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے نہ کہ انتقام اور جبر کو‘‘۔ بے شک پاکستان عالمی برادری میں جاپان کا خیرمقدم کرنے میں سب سے آگے تھا۔ 28 اپریل 1952ء کو سفارتی تعلقات کے باقاعدہ قیام کے بعد سے پاکستان اور جاپان کے تعلقات بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان سے جاپان کو برآمد کی جانے والی کپاس نے جاپانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سپورٹ کیا اور دوسری عالمی جنگ سے تباہ حال جاپان کی تعمیرِ نو کو فروغ دیا۔ خوراک کی شدید کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے 60 ہزار ٹن چاول جاپان بھیجے جن پر ''حکومت پاکستان کی طرف سے جاپان کے شہنشاہ کو چاول کا عطیہ‘‘ درج تھا۔ 1950ء کی دہائی میں دونوں ملکوں کے تعلقات باہمی دوستی اور احترام کے مضبوط رشتے میں ڈھل گئے۔ 1952ء میں پاکستان نے ٹوکیو میں اپنا سفارتخانہ کھولاجبکہ جاپان کا پہلا ٹریڈ مشن 1948ء میں ہی پاکستان آ چکا تھا اور 50 ملٹی نیشنل جاپانی کمپنیاں اپنے دفاتر یہاں قائم کر چکی تھیں۔ 1954ء سے جاپان نے فراخدلانہ تکنیکی اور مالی امداد کا سلسلہ شروع کیا جس کو سراہتے ہوئے‘ پچاس سال بعد 2004ء میں ایک خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔ 1960ء کی دہائی کے دوران پاکستان کیلئے جاپان نے خطے میں سب سے زیادہ امداد مختص کی؛ تاہم دسمبر 1960ء میں صدر ایوب خان کا ٹوکیو کے ہوائی اڈے پر شہنشاہ کی طرف سے پُرتپاک استقبال، دونوں ممالک کی سفارتی خیر سگالی کا اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ ایوب کے دورۂ جاپان کے بعد جاپانی وزیراعظم Ikeda Hayatoنے نومبر 1961ء میں پاکستان کا دورہ کیا اور 20 ملین ین قرض کی پیشکش کی۔ پاکستان اور جاپان کے درمیان سفارتی تعلقات بڑھتے رہے اور آنے والے سالوں میں کئی اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے، جیسا کہ بین الاقوامی پوسٹل منی آرڈر ایکسچینج، ٹیلی کمیونیکیشن ریسرچ سنٹر کا قیام اور پاکستان میں پٹی کریک پر ایک نئی سمندری بندرگاہ کی ترقی کے لیے اقتصادی سروے۔
اس وقت جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جس کی جی ڈی پی 5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ بے شک جاپان نے ایک مخلص دوست کی حیثیت سے مختلف شعبوں میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ 1954ء میں پہلی بار او ڈی اے (Official Development Assistance) پروگرام کے تحت 1.35 ٹریلین جاپانی ین فراہم کیے گئے۔ جاپان ایشیائی ممالک بشمول پاکستان کو دنیا میں امداد فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ 1961ء سے لے کر اب تک شاہراہوں، ٹنلز، پاور پلانٹس، گرڈ سٹیشنز وغیرہ کی تعمیر میں جاپان نے 8.65 بلین ڈالر کا رعایتی قرضہ دیا جس کی ادائیگی کی مدت 30 سے 40 سال رکھی گئی۔ ٹارگٹ پروجیکٹس اور بنیادی انسانی سہولتوں مثلاً صحت عامہ، تعلیم، صاف پانی کی فراہمی، سینی ٹیشن، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ہیومن ریسوس ڈویلپمنٹ میں جاپان کی طرف سے 1970ء سے تاحال 2.52 بلین ڈالر گرانٹ مہیا کی گئی۔ گزشتہ دہائیوں میں جنوبی ایشیا میں پاکستان کو جاپان کی جانب سے امداد کا ایک بڑا حصہ موصول ہوا۔ تکنیکی شعبے میں 1954ء سے اب تک 538 ملین ڈالر فراہم کیے گئے۔ اور 2873 جاپانی ٹیکنیکل ماہرین پاکستان میں ٹریننگ دینے کیلئے آئے۔ 7000 سے زائد پاکستانیوں کو ٹیکنیکل تربیت کیلئے جاپان بھیجا گیا۔ 1996ء میں پولیو کے حوالے سے عوامی آگاہی پروگرام، ویکسین اور عملے کی تربیت کیلئے جاپان نے 230 ملین ڈالر فراہم کیے۔ ہر سال پاکستان میں 2 کروڑ بچوں کی ویکسیی نیشن ہوتی ہے‘ اس شعبے میں بھی جاپان کثیر گرانٹ دیتا ہے۔ علاوہ ازیں کورونا کے دوران 2020ء میں ہائی جین آئٹمز، طبی سامان اور ویکسین کی مد میں جاپان سے 23.5 ملین ڈالر گرانٹ ملی۔ ہری پور میں گریویٹی فلو واٹر سپلائی سکیم کا جاری منصوبہ جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے تعاون سے بنایا گیا۔ 2019ء سے لاہور میں واٹر اور سینی ٹیشن سے متعلق سٹاف کو جاپان میں دوسالہ ڈگری کورس بھی کرایا جا رہا ہے۔ 2005ء کے زلزلے میں 190 ملین ڈالر اور 2010ء کے سیلاب میں 568 ملین ڈالر فراہم کیے۔ سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے SDF ہیلی کاپٹر اور طبی خدمات اس کے علاوہ تھیں۔ ان کے جواب میں پاکستان نے بھی مارچ 2011ء میں جاپان میں آنے والے تباہ کن زلزلے اور سونامی کے بعد جاپان کی حکومت اور عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ جائیکا کے ساتھ مل کر حکومت پاکستان نے 2012ء میں اپنا پہلا ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان تیار کیا۔ پاور سیکٹر میں نئے توانائی منصوبوں سمیت ٹرانسمیشن لائن اور گرڈ سٹیشنز کی اَپ گریڈیشن کیلئے بھی جاپان کی معاونت کا سلسلہ جاری ہے۔ افغان پناہ گزینوں کا معاملہ ہو‘ دہشت گردی میں کمی، مستحکم سیکورٹی نظام، بارڈر، پورٹس، ایئر پورٹس پر انسدادِ منشیات سمگلنگ کی کاوشیں ہوں یا جمہوری استحکام کیلئے الیکشن کمیشن کی صلاحیت میں اضافے کا معاملہ‘ جاپان نے ہر شعبے میں پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔
ستمبر 2002ء میں اسلام آباد میں پاکستان جاپان گورنمنٹ بزنس جوائنٹ ڈائیلاگ منعقد کیا گیا تھا جس میں مختلف صنعتوں سے تعلق رکھنے والی جاپان کی 70 کاروباری شخصیات شریک ہوئی تھیں۔ یہ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان جاپان بزنس فورم ہے۔ اس وقت پاکستان میں درجنوں جاپانی کمپنیاں کام کر رہی ہی جبکہ جاپان کی بزنس کمیونٹی کاروبار کے نئے مواقع کی تلاش میں بھی ہے۔جاپانی حکومت کا اندازہ ہے کہ 2030ء تک جاپان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں 8 لاکھ ماہرین کی کمی کا سامنا ہوگا۔ جاپان حکومت پاکستان سمیت مختلف ممالک کے قابل آئی ٹی پروفیشنلز کی تلاش میں ہے اور جاپان کی ایک کمپنی نے اس سلسلے میں کراچی میں کام بھی شروع کردیا ہے۔ پاکستان کے حالیہ معاشی چیلنجز اپنی جگہ‘ جاپانی کمپنیوں کو یقین ہے کہ پاکستان مستقبل میں ایک بڑی مارکیٹ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی گاڑیاں تیار کرنے والی ایک بڑی کمپنی اب پاکستان ہی میں جدید ترین ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری شروع کر رہی ہے جبکہ جاپان کی ایک گارمنٹس انڈسٹری کراچی میں مینوفیکچرنگ پلانٹ کے تیسرے توسیعی منصوبہ پر کام کر رہی ہے۔ نہ صرف پاکستان کو جاپانی مصنوعات کے استعمال کیلئے نئی ٹیکنالوجی اور مہارت ملی بلکہ پاکستان اور جاپان کے درمیان مضبوط روابط بھی قائم ہوئے۔ حکومت جاپان نے گزشتہ سال کے سیلاب میں انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے 7 ملین ڈالر کی ہنگامی گرانٹ کے علاوہ جنیوا کانفرنس میں 77 ملین ڈالر متاثرین کو دینے کا وعدہ بھی کیا اور اس بارے میں ایک معاہدہ بھی کیا جا چکا ہے جس کے تحت سندھ میں سیلاب سے متاثر لڑکیوں کے سکولوں کی اَپ گریڈیشن کیلئے جاپان حکومت سندھ حکومت کو 12.7 ملین ڈالر دے گی۔ علاوہ ازیں حکومتِ جاپان اقوام متحدہ کے مختلف اداروں سمیت مختلف عالمی اداروں اور این جی اوز کے ساتھ مل کر بھی خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب کے مختلف سماجی اور اقتصادی شعبوں میں سیلاب متاثرہ آبادی کی مدد کرنے میں بھی پیش پیش ہے۔ پاکستان اور جاپان کے دفاعی تعلقات بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں پہلی بار پاکستانی بحریہ نے جاپان میں ہوئے انٹرنیشنل فلیٹ ریویو میں شرکت کی تھی جبکہ جاپان میری ٹائم سیلف ڈیفنس فورس کے ایک جہاز نے پاکستان کی امن فوجی مشقوں میں حصہ لیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جاپان اور پاکستان‘ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کیلئے پوری طرح پُرعزم ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں