امن سیریز کے تحت پاک بحریہ کی آٹھویں کثیر الملکی سالانہ مشقوں کا انعقاد گزشتہ ماہ (فروری میں) ہوا جس میں پاک بحریہ سمیت 50 ممالک نے بحری جہازوں، سپیشل آپریشن فورسز، وسیلز اور ایئر کرافٹس کے ساتھ حصہ لیا۔ پاک بحریہ کی امن مشقوں کا مقصد علاقائی استحکام کو مزید مضبوط اور برقرار رکھنا اور کثیر الملکی بحری افواج کے درمیان باہمی تعاون کو بڑھانا ہے۔ 50 ممالک کے وفود کی میزبانی کا اعزاز پاک بحریہ کو حاصل ہوا۔ ان امن مشقوں میں چین، ترکیہ، انڈونیشیا، سعودی عرب، عمان، سری لنکا، کویت، بنگلہ دیش سمیت افریقی یونین کے ممالک بھی شریک ہوئے۔ پاک بحریہ نے ان مشقوں کا آغاز 2007ء میں صرف تین شرکاء کے ساتھ کیا تھا لیکن مشترکہ میری ٹائم سکیورٹی کے پیغام کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا اور 2023ء کی امن مشقوں میں50 ممالک نے شمولیت اختیار کی جو یقینا پاک بحریہ کیساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی بہت بڑا اعزاز ہے۔ ان امن مشقوں کا مقصد تمام ممالک کے مابین علاقائی سطح پر بحریہ کو درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے صلاحیتوں کو بڑھانا، معلومات کا تبادلہ اور میری ٹائم سکیورٹی اور امن کے حوالے سے باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں کی نشاندہی کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ امن مشقیں 2023ء دو مرحلوں میں منعقد ہوئیں؛ بندرگاہ اور سمندر۔ پہلے مرحلے میں‘ جو 10 سے 12فروری تک محیط تھا‘ سیمینارز، آپریشنل مباحثے، پیشہ ورانہ مظاہرے، بین الاقوامی اجتماع اور سمندر میں ارتقا کی پری سیل پلاننگ جیسی سرگرمیاں شامل تھیں۔ سمندری مرحلے میں ٹیکٹیکل اوربحری سلامتی سے متعلق مشقیں جیسے انسدادِ قزاقی اور انسدادِ دہشت گردی، سرچ اینڈ ریسکیو، گولہ باری اور فضائی دفاعی مشقیں شامل تھیں۔
پاک بحریہ کے مفادات تین بڑے عوامل پر مبنی ہیں۔ سب سے پہلے، تجارت کے لیے سمندروں پر غیر معمولی انحصار‘ دوم سی پیک منصوبے کی آپریشنلائزیشن اور تیسرا سٹریٹجک مقام‘ جو عالمی توانائی کی شاہراہ ہے۔ پاکستان دیگر ممالک کے لیے بھی میری ٹائم سکیورٹی کی اہمیت کو سمجھتا ہے جن کی خوشحالی اور ترقی سمندروں سے جڑی ہوئی ہے۔ بلاشبہ ایک مضبوط و باصلاحیت نیوی ہی دفاعی ذمہ داریوں کے ساتھ جنگی حربوں پر قابو پا سکتی ہے جبکہ پاک بحریہ میری ٹائم سکیورٹی سیکٹر، میری ٹائم انڈسٹری اور بلیو اکنامی میں اہم اور بڑا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان جیو سٹریٹجک کے لحاظ سے اس خطے میں واقع ہے جہاں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر روس یوکرین جنگ، افغانستان سے امریکی انخلا، شنگھائی تعاون تنظیم بلاک کا قیام، چین کا ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو‘ جس کا ایک حصہ سی پیک ہے‘ ان عوامل کی بدولت یہ صاف ظاہر ہے کہ اس خطے کو‘ جہاں پاکستان واقع ہے‘ مستقبل قریب میں بڑی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں بھارتی نیوی کا آسٹریلیا، امریکہ اور ایئر پیسفک نیوی فورسز سے اتحاد پاکستان کے پالیسی میکرز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے مستحکم و ٹھوس حکمت عملی تشکیل دینا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
ہماری بہادر بری افواج نے وزیرستان سے لے کر بلوچستان اور کراچی تک میں دہشت گردی کا قلع قمع کر کے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیاہے اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ثابت کر دیا کہ وہ صلاحیتوں میں دنیا کے دیگر انٹیلی جنس اداروں سے کہیں آگے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا اپنی بحری قوت پر توجہ مرکوز کر نا ناگزیر ہے کیونکہ ایک مضبوط بحری قوت کے بنا پاکستان طاقتور قوموں کی صف میں مقام نہیں بنا سکتا۔ دوسری جانب ہمیں بھارت سے دشمنی ورثے میں ملی ہے اور ہمارا ازلی دشمن مسلسل ہمارے خلاف مذموم عزائم پر عمل پیرا ہے اور اس کے ناپاک ارادوں کی بیخ کنی کے لیے بری، فضائی اور پائیدار بحری قوت کی ضرورت سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔ پاکستان کا ''ای ای زی‘‘ (Exclusive Economic Zone) 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جو کانٹیننٹل شیلف سے منسلک مزید 50 ہزار کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کی سمندری حدود کا رقبہ ملک کے زمینی رقبے کے لگ بھگ تیس فیصد کے مساوی ہے۔ یہ علاقہ آ بی حیات مثلاً مچھلیوں،سمندری Sea Bad کے ذخائر سے بھرپور ہے اور پاکستان EEZ کو معاشی ترقی کے لیے استعمال کرتے ہوئے اس سے مستفید ہوسکتا ہے۔ یہ ہمارے مفاد میں بہتر ہو گاکہ ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو کے تحت درپیش چیلنجز کیلئے معاشی سٹریٹجی اپنائیں۔ بے شک پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک ایک پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ چین کو مشرقِ وسطیٰ سے تیل کی تجارت کے لیے اپنا مال آبنائے ملاکا سے گزارنا پڑتا ہے جہاں اکثر اس کی امریکہ سے مڈبھیڑ ہو جا تی ہے؛ چنانچہ مذکورہ تناظر میں سی پیک کی جیو پالیٹکل اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ واضح رہے کہ EEZ میں ہماری ذرا سی غفلت یا کوتاہی سے دوسرے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ہمارے پاس کفِ افسوس ملنے کے سواکچھ نہیں بچے گا۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ہماری موجودہ نیول قیادت باخبر، چوکس اور مستعد ہے اور وہ ان تمام چیلنجوں ومشکلات سے نبرد آزما ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں پاک نیوی کے حجم میں اضافے کے ساتھ انٹر سروسز ڈیفنس خاص طور پر سی پیک میں پاک نیوی کا رول اور بھی اہمیت اختیار کر گیا۔ الحمداللہ!پاک بحریہ ایک روایتی مائنڈ سیٹ سے نکل کر دفاعی اسٹیبلشمنٹ کی جانب رواں دواں ہے۔ بدلتے عالمی و علاقائی تناظر نے اس کی اہمیت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ سی پیک میں بحری تجارت کو محفوظ بنانے کے لیے ایک طاقتور بحریہ کی اشد ضرورت ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ پاکستان کی اعلیٰ بحری قیادت میری ٹائم تجارت کو محفوظ بنانے کے مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل سر گرم عمل ہے۔
اب دنیا میں طاقت کے نظریات بدل چکے ہیں۔ ایک عالمی طاقت بننے کے لیے مضبوط عسکری قوت کے ساتھ بحری لحاظ سے طاقتور ہونا وقت کا بنیادی تقاضا ہے۔ پاکستان کا 2 لاکھ 90 ہزار مربع کلو میٹر کا سمندری علاقہ میری ٹائم تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں سی فوڈ، فشریز اور دیگر آبی وسائل کو بڑھا کر 70 فیصد تک زرِمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ افسوس پاکستان EEZ میں موجود اپنے آبی ذخائر سے مستفید ہونے کے بجائے معاشی مواقع ضائع کر رہا ہے۔ جن ممالک کا فش انڈسٹری میں ایک بڑا حصہ ہے‘ پاکستان ان کے ساتھ معاشی معاہدوں سے اکانومی کا ایک بڑا حصہ یہیں سے حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی (PMSA) ملک کی سمندری حدود میں آنے والے بھارتی ماہی گیروں کو گرفتار کرتی رہتی ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ ان کی غیر قانونی نقل وحرکت کی روک تھام اور سمندری حدود کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جبکہ EEZ میں میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کے پاس غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے لیے فضائی نگرانی کے سسٹم کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وزارتِ شپنگ و پورٹس، منسٹری آف ڈیفنس اور وزارتِ داخلہ کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بھارتی ماہی گیروں کی غیر قانونی آمد و رفت اور یو این او کے مقرر کردہ میری ٹائم قوانین کی مسلسل خلاف ورزی پر اقوام عالم اور اقوام متحدہ پر دبائو ڈالنا ہوگا کیونکہ کسی بھی ملک کے Trespasses اسی ملک کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں اور کسی دوسرے کا ان حدود میں داخلہ یواین او کنونشن کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ نیٹو کے سابق ایڈمرل James G. Stavridis اپنے آرٹیکل The fishing wars are coming میں لکھتے ہیں کہ غیر قانونی سمندری نقل و حرکت اور فشریز عنقریب ایک بڑی عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہیں۔ مزید برآں مسلم ممالک Islamic Military Counter Terrorism Coalition معاہدے میں شامل مسلم ملکوں کو بحیرۂ عرب میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات یمن کے جزیرے Socotra کو نیول لاجسٹک سٹیشن کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ پاک بحریہ بھی بحیرۂ عرب کے متعدد جزیروں مثلاً Socotra اور اس سے ملحقہ Samhah، Kilmia اور Darsh جیسے جزیروں سے مستفید ہو سکتی ہے۔ بحرِ احمر پر سعودی عرب کا کنٹرول ہے۔ گلف عمان کے جزیروں مثلاً Khuriya Muriya، Masirah، Jazirat Al Qibliyyah اور Al-Hallaniyah پر صومالیہ اور سوڈان کی پورٹس ہیں۔ ہم بھی عسکری تعلقات بڑھاتے ہوئے صومالیہ، یمن، سوڈان، قطر اور دیگر عرب و افریقی مسلم ملکوں میں نیول بیسز قائم کر سکتے ہیں بلکہ EEZ کو توسیع دے کر ترکی کے ملٹری سٹیشنوں کے قیام میں بھی لاجسٹک سپورٹ فراہم کر سکتے ہیں۔ بحرِہند اور بحیرۂ عرب میں عالمی طاقتوں کی موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ اس کے لیے Z EE کی توسیع کے ساتھ سی پیک سے فیض یاب ہونے کے لیے منظم منصوبہ بندی ناگزیر ہو چکی ہے۔ Khor Kalmat Lagoon بلو چستان اور مکران سے منسلک 1100 کلومیٹر ساحل سٹریٹجک اور کمر شل مقاصد کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد آبی علاقے پاکستان کی بحری قوت کو بڑھانے کے ساتھ سی پیک اور EEZ سے متعلقہ تجارتی آبی گزر گاہوں میں بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔
موجودہ حالات کے پیشِ نظر پاک بحریہ کا بجٹ کم از کم دو گنا کرتے ہوئے بتدریج سب میرینز کی تعداد میں اضافہ اورسمندری حدود میں فضائی نگرانی کو مؤثر بنایا جانا چاہیے۔ ایٹمی آبدوز کو آپریشنل طور پر ایک طویل مدت کیلئے کار آمد بنا یا جانا چاہیے۔ شپ یارڈ کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی صنعت کو فروغ دیا جانا چاہیے اور عالمی معاہدوں کے تحت دوست ممالک کے تعاون سے بحیرۂ عرب تک رسائی ممکن بنائی جانی چاہیے۔ پاک بحریہ کو آئندہ عشروں میں ابھرنے والے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے خود کو ایک طاقتور بحریہ کے طور پر مستحکم کرنا پڑے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاک بحریہ مستقبل میں طویل المدتی سٹریٹجک اور بحری معاشی مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔