بلوچستان یونیورسٹی کے مسائل سے پہلوتہی کیوں؟

بلوچستان یونیورسٹی (کوئٹہ) جو صوبے کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی ہے‘ 200 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس یونیورسٹی کا قیام جون 1970ء میں عمل میں لایا گیا تھا جو صوبے میں علم و تدریس اور تحقیق کے ذریعے اعلیٰ اخلاقی اور پیشہ ورانہ معیارات کو برقرار رکھتے ہوئے اور قومی تشخص کو فروغ دینے کے ساتھ آرٹس، سائنس، کامرس اور ہیومینٹیز میں قابلِ قدر اور معیاری اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔ جون 1996ء میں بلوچستان اسمبلی نے یونیورسٹی آف بلوچستان ایکٹ 1996ء پاس کیا تھا۔ اس طرح اس جامعہ کو صوبے کی واحد بڑی جامعہ کادرجہ مل گیا۔ اس درسگاہ میں 50 شعبہ جات قائم ہیں؛ تاہم ابتدا میں جامعہ کا آغاز تین شعبوں؛ فزکس، کیمسٹری اور جیالوجی سے ہوا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے شعبے قائم ہوئے (انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز، انسٹیٹیوٹ آف بائیو کیمسٹری، انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، انسٹیٹیوٹ آف لینگویجز اینڈ لٹریچر) جبکہ یونیورسٹی میں پانچ خصوصی مراکز (سنٹر آف ایکسیلنس ان معدنیات، پاکستان سٹڈی سنٹر، ایریا سٹڈی سنٹر، بلوچستان سٹڈی سنٹر، سنٹر فار ایڈوانس سٹڈیز ان ویکسینولوجی اینڈ بائیو ٹیکنالوجی) اور لاء کالج بھی قائم ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صوبے کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی گزشتہ دو عشروں سے مسلسل معاشی بحران کا سامنا کر رہی ہے اور یہ صورتِ حال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔
یونیورسٹی آف بلوچستان (یو او بی) کے مالیاتی بحران کا دیرپا اور پائیدار حل تلاش کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی کی راہیں پیدا کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیم میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی بنیادی ذمہ داری اٹھاتی ہیں اور اس حوالے سے بلند بانگ دعوے بھی کرتی ہیں مگر افسوس کہ یونیورسٹی کے اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں، ان کے واجبات تاحال انہیں نہیں مل سکے۔ حالانکہ کسی بھی معاشرے میں اساتذہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے معیارِ زندگی کو بڑھانے کے لیے انہیں مناسب مراعات فراہم کرنا اور ان کے کردار کو تسلیم کرنا بہت ضروری ہے۔ حکام کے مطابق مالی بحران کی بڑی وجہ فنڈز کی عدم فراہمی ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق پنشنز اور تنخواہوں کی مد میں 43 کروڑ سے زائد کی رقم وجب الادا ہے۔ اس وقت جامعہ بلوچستان ایک ارب 21 کروڑ روپے کی مقروض ہو چکی ہے۔ طلبہ اور اساتذہ سمیت فیکلٹی ممبران کی سیاسی انوالومنٹ نے بھی جامعہ کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اکثر مختلف سیاسی اور ذاتی مقاصد کے تحت اور سیاست چمکانے کے لیے یونیورسٹی میں طرح طرح کے لایعنی ایشوز کو اچھالا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آئے روز مسنگ پرسن کے معاملے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور واویلا مچا یا جاتا ہے کہ طالب علموں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ آخر اس کی وجہ کیا بنی اور کیوں ایسا ہوا۔ اس زہریلے پروپیگنڈے کہ بلوچستان کے وسائل دوسرے صوبے کھا جاتے ہیں‘ نے نہ صرف سیاسی بلکہ بلوچستان کے سماجی اور تعلیمی ڈھانچے کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ بڑھتی صوبائی عصبیت اور منافرت نے بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کر دیا ہے اور اس کے منفی اثرات کی زد میں صوبے کے اعلیٰ تعلیمی ادارے بالخصوص جامعہ بلوچستان بھی ہے جس سے اس کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اپنے سیاسی اور نفرت انگیز بیانیے کو پروان چڑھانے کے لیے اس قدیم درسگاہ کو ملک دشمن عناصر نے طویل عرصے سے اپنا ٹارگٹ بنا رکھا ہے اور اس کے معاشی کرائسز اور مالی بے ضابطگیوں کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ آئے روز نعرے بازی اور احتجاج کر کے درسگاہ کے تعلیمی ماحول کوتباہ کیا جا رہا ہے۔ سیاسی قائدین نے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے لیے یونیورسٹی کی حدود میں سیاست کی بات کر کے نوجوانوں کو اپنا آلہ کار بنا رکھا ہے۔ جامعہ کے بہتر مستقبل کے لیے اشد ضروری ہے کہ جامعہ میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی پر پابندی لگائی جائے، نیز یہاں کے اساتذہ سمیت طلبہ کی پولیٹکل مداخلت پر بھی قدغن لگائی جائے۔
اس قدیم درسگاہ کی تباہی کی دوسری بڑی وجہ یہاں روز بروز سنگین ہوتا مالی بحران ہے۔ یونیورسٹی کا مین کیمپس کوئٹہ ہے جو اس کا حب ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ دیگر کیمپسز صرف سیاسی دبائو کے پیش نظر یا سیاسی دکانداری کو چمکانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ صوبے کے دوسرے حصوں مثلاً مستونگ اور قلعہ عبداللہ میں قائم کیمپسز قطعی غیر ضروری ہیں اور ان کے قیام کے ذریعے ادارے پر محض مالی بوجھ ہی بڑھا ہے۔ یونیورسٹی کے چار سب کیمپسز ہیں؛ ایک قلعہ سیف اللہ اور ایک پشین میں ہے۔ یہ دونوں کیمپسز یونیورسٹی کے مین کیمپس کے ذمہ ہیں۔ مزید دو کیمپسز مستونگ اور خاران میں ہیں۔ ابھی تک ان کا انتظام ایچ ای سی کے تحت چل رہا تھا لیکن رواں برس جو ن کے بعد مذکورہ کیمپسز کا بوجھ پہلے سے ہی مالی مشکلات میں گھری جامعہ بلوچستان پر آ جائے گا اور جب یونیورسٹی ان کا بوجھ اٹھائے گی تو 24 کروڑ کے اخراجات 35 کروڑ تک پہنچ جائیں گے۔ یونیورسٹی کو اس وقت چار ارب روپے کی سالانہ فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ ایک ارب روپے ایچ ای سی کی جانب سے ادائیگی ہوتی ہے۔ 50 کروڑ روپے صوبائی حکومت اور 50 کروڑ روپے یونیورسٹی خود اپنے ذرائع سے پیدا کرتی ہے اور بقایا رہ جانے والے دو ارب روپے کا فرق اب مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ واجبات کی وصولی کے لیے شاہراہوں پر احتجاج کیا جاتا ہے اور مختلف حربوں کے ذریعے حکومت سے واجبات وصول کیے جاتے ہیں۔ اگر ایک جانب یونیورسٹی کے مالی بحران کی ذمہ دار حکومت ہے تو دوسری جانب خود یونیورسٹی کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دراصل درسگاہ کی انتظامیہ کی جانب سے اپنے مالی بحران کو دور کرنے کے لیے کوئی سود مند تعلیمی پروگرام ترتیب نہیں دیے گئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ صوبے کی کوئی یونیورسٹی 'ہوم ایکوزیشن‘ نہیں لیتی‘ صرف بلوچستان یونیورسٹی لے رہی ہے جس کی مد میں اسے 24 کروڑ روپے ملتے ہیں جس میں سے چار کروڑ الائونس کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔
مالی بحران پر قابو پانے کے لیے یونیورسٹی کو چاہیے کہ عارضی بنیادوں پر تعینات اساتذہ کی تعداد میں کمی لائے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے 2022-23 ء میں پیش کیا گیا بجٹ 700 ارب روپے پر مشتمل تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 700 ارب روپے میں سے صرف ڈھائی ارب روپے صوبے کی 11 یونیورسٹیوں کو گرانٹس اور فنڈز کی شکل میں جاری کیے گئے۔ 11 یونیورسٹیوں کے لیے ڈھائی ارب روپے کی معمولی رقم ان کی مالی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے ہر لحاظ سے ناکافی ہے۔ دریں اثنا 2022 ء کا وفاقی بجٹ لگ بھگ 10 ہزار ارب روپے پر مشتمل تھا اور وفاقی حکومت نے ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے بجٹ کے لیے صرف 65 ارب روپے جاری کیے جو سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی کے حوالے سے انتہائی ناکافی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان خطے میں اعلیٰ تعلیم کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیاں ہیں‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ جامعات کو مالی مدد فراہم کریں جیسا کہ اقوام متحدہ نے تعلیم کے شعبے میں جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد سرمایہ کاری کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اپنے جی ڈی پی کا دو فیصد سے بھی کم تعلیم پر لگاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر یونیورسٹی انتظامیہ بھی غفلت کے مرتکب ہوئی ہے جو ٹھوس اقدامات کرنے سے گریزاں ہے۔ وہ یونیورسٹی میں ایسے پروجیکٹس شروع کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے جو ادارے کے لیے فنڈز پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان اپنے تزویراتی جغرافیائی محل وقوع اور وافر قدرتی وسائل کے ساتھ ملک کی لائف لائن سمجھا جاتا ہے۔ بلاشبہ بلوچستان پہلے سے علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ذریعے کھیلے جانے والے ایک بڑے جغرافیائی سیاسی کھیل کا تختۂ مشق بنا ہوا ہے لہٰذا خطے میں علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں کے تناظر میں یہ صوبہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔
صوبے میں تعلیم یافتہ اور متوسط طبقہ تیزی سے ریاست سے متنفر ہو رہا ہے۔ اساتذہ کو ان کی جائز تنخواہوں اور پنشن کی فراہمی میں ناکامی اور ان کی شکایات کو نظر انداز کرنا ملک کی قومی یکجہتی پر شدید منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ مزید برآں امن و امان کی صورتحال کے باعث 150 اساتذہ پہلے ہی ملک کے دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر ہو چکے ہیں جس سے یونیورسٹی فیکلٹی ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ ان حالات میں یونیورسٹی کے طلبہ اپنے بنیادی حق یعنی تعلیم سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ پہلی ترجیح میں یونیورسٹی کے مالی بحران کو ختم کرے تاکہ جامعہ کے طلبہ کا تعلیمی نقصان کم سے کم ہو اور تعلیمی سفر بلاتعطل‘ درست طریقے سے جاری رہ سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں