ملکی خوشحالی کے لیے قومی زبان کا عملی نفاذ ناگزیر!

شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں۔ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں مگر عام طور پر یہ لفظ لشکر، پڑائو، خیمہ، بازار، شاہی قلعہ اور محل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ برصغیر میں اردو کا لفظ سب سے پہلے بابر نے تزک بابری میں استعمال کیا ہے۔ عہدِ اکبری میں یہ لفظ معروف و مقبول ہو چکا تھا۔ شہنشاہ شاہجہاں نے نئی دہلی آباد کرکے شاہی قلعے کو ''قلعۂ معلیٰ‘‘ کے نام سے موسوم کیا تو عربی، فارسی اور ہندی وغیرہ سے ملی جلی زبان کو‘ جس کا رواج شاہی لشکر میں ہو چکا تھا‘ اردوئے معلیٰ کا نام دیا گیا۔ ہندی محققین کا خیال ہے کہ یہ آریائوں کی قدیم زبان کا لفظ ہے۔ حالانکہ سر سید احمد خاں اور سید احمد دہلوی کے مطابق اردو زبان کی ابتدا شاہجہانی لشکر سے ہوئی اس لیے اس کا نام اردو پڑا۔ بہرکیف اُس وقت اس زبان کو ہندوی، ہندوستانی، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس زبان نے ارتقا کی جتنی بھی منزلیں طے کی ہیں‘ اتنے ہی اس کے نام پڑتے چلے گئے۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پس پردہ مختلف ادوار کی مخصوص تہذیبی و سیاسی روایات کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ساتھ ساتھ قومی شاعر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا اردو کی ترقی و ترویج میں بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ علامہ اقبال کو اردو زبان سے عشق کی حد تک لگائو تھا۔ وہ آخری دم تک ایک خادم کی حیثیت سے اردو کی خدمت کو اپنا مقدس فرض سمجھتے تھے۔ شاعرِ مشرق اردو زبان کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''میں جو اردو لکھتا ہوں یہ میری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے اور میں اس کو چھوڑ نہیں سکتا، شان، جلالت، رعب اور دبدبہ اس کے اوصاف ہیں، میری لسانی عصبیت میری ذہنی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے‘‘۔ بے شک اقبال نے اردو زبان کو جس بلند مقام پر پہنچایا‘ وہ ان سے قبل کسی شاعر کے بس کی بات نہیں تھی۔ اردو زبان و ادب کے سرمایے میں اقبال کے حصے کی برابری کوئی نہیں کر سکتا۔ بے شک علامہ اقبال نے اردو زبان میں نئی روح پھونکی اور اقبال ہی کی بدولت اردو زبان تاقیامت زندہ رہے گی، انشاء اللہ!
اردو زبان کی چاشنی کو زمانے کے نشیب و فراز کم نہیں کر سکے۔ مہذب گفتگو، آداب کا معیار، رواداری، علم و انسان دوستی، مل جل کر رہنے کا شعور، وطن سے محبت، شرافت اور نفاست، پیار اور بھائی چارہ، شائستگی اور شگفتگی، ایک دوسرے کا لحاظ و احترام اور خوب سے خوب تر کی تلاش اس کی منفرد قدریں ہیں۔ افسوس! ہم نے یہاں اپنے مذہب و ثقافت کے ساتھ جو حال کیا‘ اس سے کہیں برا حال اپنی قومی زبان اردو کے ساتھ کیا۔ 1973ء کے آئین کی شق 251 میں یہ کہا گیا تھا کہ آئین کے نفاذ کے بعد پندرہ سال کے اندر اندر تمام سرکاری مراسلت اردو میں کی جائے گی، گویا 1988ء تک اردو کا سرکاری نفاذ ہو جانا چاہئے تھا۔ تاحال ایسا نہیں ہو سکا! ہم نے ملک میں اردو کے بجائے انگریزی زبان نافذ کر دی اور گزشتہ 75 سال سے یہی زبان ملک پر مسلط ہے۔ سرکاری و پرائیویٹ دفاتر، تعلیمی ادارے اور عوامی مقامات انگریزی زبان سے ہی بھرپور ہیں۔ اردو زبان ہر بچہ معاشرے سے سیکھ لیتا ہے، اس کے بعد اسے انگریزی سیکھنے کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر اس کے سیکھنے میں کچھ کمی رہ جائے یا وہ نہ سیکھ پائے تو اس کیلئے جینا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی بھی شخص کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتاہے کہ وہ انگریزی کس قدر روانی اور عمدگی سے بول سکتا ہے اور اسی شخص کو قابل سمجھا جاتا ہے اور اسے اردو بولنے والوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ ملک میں ہر جگہ انگریزی کا راج ہے‘ لہٰذا اردو زبان کو پوچھتا ہی کون ہے؟ اگر انگریزی میں کسی قسم کی کمی پائی جائے تو اس کے آگے تمام تر قابلیت اور حب الوطنی ہیچ ہے۔ میرا ایمان ہے کہ ملک کی بقا اور عوام کی خوشحالی کے لیے قومی زبان کا عملی نفاذ ناگزیر ہے۔ جبکہ اس وقت ہمارے سامنے ایک بڑا مسئلہ اپنی زبان، ثقافت اور تشخص کے تحفظ کا بھی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم جہاں اور جب مناسب سمجھیں‘ تھوڑی سی فعالیت کا مظاہرہ کر کے اپنے بچوں کی پرائمری تعلیم کے پانچ سال میں ان مقاصد کے حصول کیلئے کوشش کریں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ چین میں چینی زبان، روس میں روسی زبان، انگلینڈ میں انگریزی زبان اور عرب ممالک میں عربی زبان بولی جاتی ہے۔ اگرچہ ان ممالک میں علاقائی یا مقامی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں لیکن وہ ملک کے مخصوص حصوں میں اور محدود پیمانے پر بولی جاتی ہیں، ورنہ دنیا کے تمام ممالک میں سرکاری زبان اور ذریعۂ تعلیم ایک ہی زبان ہوتی ہے‘ جسے قومی زبان کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں میں اربابِ حکومت نے مختلف ادوار میں بظاہر اردو زبان کو آئینی اور قانونی تحفّظ کیلئے اہم اقدامات کیے، مگر یہ سب طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں تھے۔ 1986ء میں ہمارے وفاقی وزیرِ تعلیم نے یہ اعلان فرما کر سب کچھ الٹ پلٹ دیا کہ ''میں نہیں چاہتا کہ قوم کے ہونہار بچے ساری عمر کرتے پاجامے میں پھریں، ہمیں انگریزی سیکھنا ہو گی اور اسے عام کرنا ہو گا‘‘۔ اردو زبان کو کرتے پاجامے سے منسلک کرنے پر وزیر موصوف کی ذہنی سطح کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے ہوں، اسمبلیوں کی قراردادیں ہوں، سرکاری اداروں کے سربراہوں کے عملی اقدامات ہوں، حقیقت یہی ہے کہ ابھی تک اردو کو اس کا وہ مقام نہیں ملا جو اس کا حق ہے اور جو ملک کی بقا اور ترقی کیلئے بنیادی لازمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین نے اردو کی عالمی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستانیوں کیلئے اپنے اشتہارات اردو میں نشر کرنے شروع کر دیے ہیں، حالیہ عرصے میں سکاٹ لینڈ کی پارلیمان میں حمزہ یوسف نے اپنا حلف اردو زبان میں لیا، افضل خان نے انگریزی کے گھر ''برطانوی پارلیمنٹ‘‘ کی رکنیت کا حلف اردو میں لیا، اقوام متحدہ نے اردو کو ساتویں بڑی بین الاقوامی زبان تسلیم کیا ہے، 8 ستمبر 2015ء کو عدالت عظمیٰ کا اردو کے نفاذ کا فیصلہ آتے ہی پاکستان میں موجود امریکی سفارتخانے نے اپنی ویب سائٹ اردو میں بنا لی، فرانسیسی اور جاپانی سفیر پاکستانیوں سے پاکستان کی قومی زبان میں ابلاغ کرتے ہیں۔دنیا نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے عالمی شناخت دی لیکن ہماری غلام ذہنیت اور احساسِ کمتری کی شکار اشرافیہ اردو کو ملک کی سرکاری زبان ماننے کو تیار نہیں۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ حکومت پنجاب نے تعلیمی نصاب ششم سے میٹرک تک انگریزی میں کر دیا جو سراسر توہینِ عدالت ہے۔ یہ آئین شکنی اور قائداعظم کے فرمودات کی حکم عدولی نہیں تو اور کیا ہے؟ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک نے آج تک غیر ملکی زبان میں ترقی نہیں کی‘ پھر پاکستان کیسے کر سکتا ہے؟ میری اعلیٰ عدلیہ سے درخواست ہے کہ وہ پرائمری سے یونیورسٹی سطح تک انگریزی ذریعۂ تعلیم کے اجرا کے مرتکبین پر توہینِ عدالت لگا کر ان کو آئین و قانون کے مطابق سزا دے کیونکہ کسی بچے کو غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا اس کی فطری صلاحیتوں کا قتل اور بنیادی انسانی حقوق کی نفی ہے۔ علمی، ادبی، ثقافتی، اور اسلامی تعلیمات کا جتنا کثیر ذخیرہ اردو زبان میں میسر ہے شاید کسی اور زبان میں نہیں۔ دوسری جانب افسوس ہے کہ ''رومن اردو‘‘ نے معاشرے میں پنجے گاڑ لیے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس کو عروج سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے بخشا‘ ابتدائی ایام میں جب موبائل فونز میں اردو کی بورڈ میسر نہ تھا، تو رومن اردو لکھنا سب کی مجبوری تھی، لیکن اب اردو کی بورڈ کے باوجود ہم رومن اردو کو چھوڑنے پر راضی نہیں۔ اگر ہم نے اردو رسم الخط سے لاپروائی برتی تو اندیشہ ہے کہ آنی والی نسلوں کو اپنے تاریخی ورثے سے محروم ہونا پڑ جائے گا۔ کسی نے دور اندیشی پر مبنی اپنی فکر کا اظہار کرتے ہو ئے کہا تھا ''جس قوم کی بلندی کو زوال پر لانا ہو اور اس کے شاندار ماضی سے اس قوم کا رشتہ توڑنا ہو تو اس قوم کا رسم الخط بدل دو‘‘۔ افسوس ہے کہ آج ہم اردو رسم الخط کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ ہماری تہذیب و تمدن پر دن رات یلغار ہو رہی ہے، آج ہمیں اردو زبان کی بقا و تحفظ کیلئے متحد ہو کر کام کرنا ہو گا۔ ہر جگہ انگریزی کا نفاذ کر کے اور اس کو فوقیت دے کر جو غلطی آج کی نسل کر رہی ہے‘ اس کا خمیازہ مستقبل میں بھگتنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں