زرعی انقلاب کا عزم!

پاک فوج نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی سر براہی میں دھرتی ماں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کو غذائی قلت اور اپنے ہم وطنوں کو بھوک سے بچانے کے لیے زراعت کے میدان میں بھی بہتری و استحکام لانے اور اپنی سونا اگلتی زمینوں کو مزید تباہی سے بچانے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ ''گرین پاکستان انیشی ایٹو‘‘ کے تحت بلاشبہ عظیم زرعی انقلابی منصوبے کی داغ بیل ڈالی گئی ہے جوپاکستان میں زراعت کے شعبے میں انقلاب کا باعث بنے گااور اس کو 60ء کی دہائی کے بعد سے دوسرا زرعی انقلاب قرار دیا جا رہا ہے۔ آرمی چیف نے یقین دلایا کہ پاک فوج ''گرین پاکستان انیشی ایٹو‘‘ میں قوم کی امنگوں پر پورا اترے گی۔ وہ دن دور نہیں جب اتحاد، ایمان، تنظیم کے اصولوں پر قائم پاک فوج روشن اقدامات کرتے ہوئے سبز انقلاب لے کر آئے گی اور پاکستان ایک بار پھر سے خوراک میں خود کفالت کی منزل کی جانب گامزن ہو گا۔
اس منصوبے کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ کوئی حکومتی و سیاسی پروجیکٹ نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کا منصوبہ ہے جس پر حکومتوں کی تبدیلی اثر انداز نہیں ہو گی اور یہ تسلسل سے جاری رہے گا۔ اس عظیم انقلابی منصوبے کے پہلے مرحلے میں ماڈل فارم بنائے جائیں گے۔ خانیوال میں ابتدائی طور پر 2256 ایکڑ پر ماڈل زرعی فارم کا قیام ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے زرعی شعبے کی بے پناہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے عملی اقدامات کرنے کیلئے عسکری قیادت کے پختہ عزم کو اجاگر کرتا ہے۔ بتدریج اس پروجیکٹ کا دائرۂ کار پورے ملک میں بڑ ھایا جائے گا۔ خانیوال ماڈل زرعی فارم کا افتتاح کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے قوم کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کشکول کو توڑنے کیلئے تمام پاکستانیوں کو متحد ہو کر کام کرنا ہو گا۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اپنی کوششوں کو مربوط کریں کیونکہ قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ ''لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم‘‘ جدید زراعت کے فروغ کیلئے حکومت پاکستان اور پاک فوج کے اشتراک سے سامنے آنے والا بے مثال زرعی منصوبہ ہے جو نہایت خوش آئند اور اچھی پیش رفت ہے۔ اس پروگرام میں سعودی عرب‘ چین‘ متحدہ عرب امارت‘ قطر اور بحرین کے ساتھ متعدد منصوبوں میں شراکت داری کی جارہی ہے جس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔
ایک وقت تھا جب مادرِ وطن دنیا بھر میں گندم، چاول اور دیگر زرعی اجناس برآمد کرتا تھا اور اس سے لاکھوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جاتا تھا۔ آج ناقص ایگریکلچر پالیسیوں اور حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث ہم غذائی بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ نہ صرف گندم درآمد کرنا پڑتی ہے بلکہ سالانہ اربوں روپے کا خوردنی تیل اور دالیں بھی باہر سے منگوانا پڑتی ہیں۔ عرب ممالک صحرا میں گند م کاشت کر کے اس حوالے سے خود کفیل ہو چکے ہیں اور ادھر ہم ہیں کہ سونے سے بھی قیمتی زرعی اراضی، بہترین نہری نظام اور دریائوں کی سر زمین کے مالک ہونے کے باوجود گندم کے ایک ایک دانے کو ترس رہے ہیں۔ آٹے کے حصول کیلئے بے بس و لاچار عوام کی لمبی قطاریں دیکھ کر دل خون کے آ نسو روتا ہے۔ یہ ہماری بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار زرعی شعبے کی ترقی کی جانب جامع و ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ''لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم (لِمز)‘‘ جدید زراعت کے فروغ‘ استحصال زدہ‘ پسماندہ اور کچلے ہوئے شعبۂ زراعت کیلئے ایک انقلاب کی نوید ہے۔ درحقیقت زرعی انقلاب پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کا وژن ہے جس کے تحت آئندہ پانچ سال میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی اور 40 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ مذکورہ منصوبے کا مقصد زرعی درآمدات میں کمی، برآمدات میں ا ضافہ اور آبادی کی غذائی اجناس کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ یقینا لِمز سے ملک کے کاشتکاروں اور کسانوں کو موسمی تبدیلیوں، فصلوں سے متعلق سیٹلائٹ انفارمشین، پانی، کھاد اور سپرے کے حوالے سے درکار معلومات بروقت دستیاب ہوں گی۔ کسانوں کی براہِ راست منڈیوں تک رسائی کیساتھ غیر آ باد اور کم پیداوار والی زمینوں پر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیداوار بڑھے گی‘ غیر کاشت شدہ اراضی کی بحالی بھی اہم اقدام ہے۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ گرین انیشی ایٹو کی کامیابی کی ضمانت پاک آرمی کا اشتراک ہے۔ حکومت اور پاک فوج سرمایہ کاری کونسل کے ذریعے زراعت میں جدید ٹیکنالوجی اور نگرانی کا نظام لا کر ملک میں زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو کا فلیگ شپ پروجیکٹ شروع کر دیا گیا ہے جس کے باعث ملک میں روزگار کے وسائل بھی پیدا ہوں گے۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت اور اس سے چلنے والی صنعتوں پر منحصر ہے۔ زراعت کا شعبہ نہ صرف عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ مختلف شعبوں میں عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے اور صنعت و ملکی معیشت کی ترقی میں بنیادی کردار بھی ادا کرتا ہے۔ یہ شعبہ مجموعی طور پر ملک کی39 فیصد آبادی کی روزگار کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ زراعت ہی ایسا سیکٹر ہے جو پاکستان کوخوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ ز راعت کی ترقی کی بدولت خوراک کی قلت کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں ملک کی قریباً70فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔ اس وقت ملکی زراعت کو درپیش مسائل میں قابلِ کاشت رقبے کی کمی، موسمیاتی تبدیلیاں، پانی کی کمی اور دیہی آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی اور پیداواری لاگت میں اضافہ قابلِ ذکر ہیں۔ زراعت کا پاکستان کے جی ڈی پی میں 23 فیصد حصہ ہے لیکن پیداواری صلاحیت اس وقت بہت نیچے ہے جس کی وجوہات کاشت کے رقبے میں کمی، آبادی اور پیداوار میں تفاوت اور زرعی درآمدی بل کا دس بلین ڈالر ہونا سرفہرست ہیں۔
اس سال ملک میں گندم کی بمپر فصل ہوئی اس کے باوجود گندم کی 30.8 ملین میٹرک ٹن کی کل طلب کے مقابلے میں 4 ملین میٹرک ٹن کی کمی کا سامنا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں کپاس کی پیداوار بھی 40 فیصد کم ہو کر تقریباً 5 ملین بیلز پر آ گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 36.9 فیصد پاکستانی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان میں سے 18.3 فیصد کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان کے کسان ہر سال ماحولیاتی تبدیلیوں، ناقص حکومتی پالیسیوں اور مہنگائی کے باعث پسماندگی اور غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔ کھاد، زرعی ادویات و مشینری اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، زرعی ہنر مند طبقات اور چھوٹے کسان گاؤں چھوڑ کر بڑے شہروں میں آکر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ عصرِ حاضر میں پاکستان کا زرعی شعبہ آبادی کے افراط کے نتیجے میں کافی تناؤ کا شکار ہے۔ دوسری جانب پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے زرعی زمینوں پر بنائی جانے والی رہائشی سکیموں نے اس شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ زر خیز اور سر سبز علاقے‘ جہاں کبھی کھیت اور درخت ہوتے تھے‘ اب رہائشی آبادیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال دیہی رقبہ خصوصاً زیرِ کاشت رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے اور شہری آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چنا نچہ طویل مدتی استحکام اور معاشی خوشحالی کے حصول کیلئے ''سبز انقلاب‘‘ ایک بڑا اقدام ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر یہ پاکستانی زمین کی پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لایا جاتا ہے، سعودی لیز کے معاہدے اور جدید چینی ٹیکنالوجی کو مربوط کیا جاتا ہے تو موجودہ تناظر میں زراعت کو درپیش مشکلات و چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے فوڈ سکیورٹی، زرعی برآمدات میں اضافے اور زراعت سے متعلقہ درآمدات کو کم کرنے کیلئے ' گرین پاکستان انیشی ایٹو‘ ایک گیم چینجر منصوبہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے قابلِ کاشت زمینوں کو ریئل اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کے غیر صحت مندانہ رجحان پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ بے شک عسکری تعاون اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے اور اس سے منصوبے کی سنجیدگی بھی عیاں ہوتی ہے۔ اس منصوبے سے یقینا پاکستان اپنے پسماندہ زرعی منظر نامے کو تبدیل کر سکتا ہے اور عالمی زرعی میدان میں خود کو ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر منوا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں