قومی قیادت کی شناخت کا بحران

فوجیں جب میدانِ کار زار میں مورچہ زن ہوتی ہیں اور ایسے میں کوئی ان کے دفاعی حصار میں گھسنے کی کوشش کرتاہے تو اسے للکارا جاتا ہے کہ ''آگے بڑھ کر اپنی شناخت کرائو‘‘۔ آج ہماری قوم عرصۂ امتحان میں ہے، ضروری ہے کہ یہ معلوم ہو کہ جو لوگ ہماری قیادت کر رہے ہیں‘ ان کے عزائم کیا ہیں اور منزل کون سی ہے؟ فی الوقت حکومت کی شناخت اور سمت کا تعین نہیں ہو رہا۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ موجودہ استحصالی نظام نے قوم کو مہنگائی، بیروزگاری، کرپٹ قیادت اور معیشت کی تباہی اور محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ تبدیلی کے دعویداروں کا اصلی روپ بھی سب کے سامنے ہے۔ پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ عوام ہر عہدِ حکمرانی میں اپنے حقوق کے لیے جہدِ مسلسل کرتے آئے ہیں۔ وہ اپنی کم مائیگی و بے بسی کا ماتم کر تے رہے مگر راوی چین اور امن ہی لکھتا آیا۔ ہر عہد میں ان کی کمائی لٹتی رہی‘ ان کی غیرت و خودی کو نیلامی کی سولی پر چڑھا دیا جاتا رہا۔ کبھی ورلڈ بینک اور کبھی آئی ایم ایف کے نام پر انہیں ناقابل سکت مہنگائی کی بھٹی میں جھونک دیا گیا اور یہ سیاسی بازی گر اپنی شعبدہ بازیوں سے مال و متاع لوٹنے میں مصروف رہے۔ پاکستان کو جو کشمکش آج درپیش ہے اور جس دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس میں قیادت کی شناخت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور کیوں کھڑے ہیں؟ قومی قیادت کی شناخت گم ہو چکی ہے اور ان کے مقاصد اور نصب العین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں۔ آج ان پر یہ شعر صادق آتا ہے:
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ یہ ابہام ایک دانستہ حکمت کے تحت رکھا جا رہا ہے تو حکمت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔اگر ہم نے 28 مئی 1998ء کے بعد ان تقاضوں کی تکمیل کی ہوتی جو ایک ایٹمی طاقت بننے کا لازمہ ہیں تو شاید آ ج ہمیں موجودہ حالات کاسامنا نہ ہوتا لہٰذا ہمیں سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ معروضی حالات اداروں میں تصادم کے نہیں بلکہ اتحاد اور باہم مل بیٹھ کر ملک کو مشکلات سے نکالنے کے متقاضی ہیں۔ عسکری قیادت کو غیر معمولی دانش و بصیرت کے علاوہ حکمت و تدبر کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ دوسری جانب ہمارے قومی اخبارات میں کبھی دبے لفظوں اور کبھی کھلم کھلا انداز میں مختلف مسائل بارے متنبہ کیا جاتا ہے، کچھ لکھاریوں کی جانب سے عالمی سامراج کے آگے سجدہ ریز ہونے کے مشوروں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہی مفاد پرست حلقہ‘ جو ماضی کی حکومتوں کے ارد گرد تھا‘ آج قومی اداروں کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کیلئے سر گرم ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جسے ملک، عقیدے اور نظریے کے بجائے صرف اپنے مفادات عزیز ہیں، صرف اپنی عیش کوشی و مسرت سے دلچسپی ہے۔ اسی طبقے کے بارے میں ماؤ زے تنگ نے کہا تھا: ''یہ دیمک ہے‘ جس معاشرے میں پلتی ہے اسی کو چاٹ جاتی ہے‘‘۔
چونکہ اس طبقے کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہوتی اس لیے کچھ اپنے اوپر لبرل‘ سیکولر کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی کو دل کے بجائے شکم کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ نظریاتی قوموں میں یہ عنصر ہمیشہ دشمن کے مقاصد کا نگہبان رہا ہے۔ عام لوگ اس کو پہچان نہیں سکتے۔ اس لیے اس کے ہلاکت خیز نقصانات سے بھی واقف نہیں ہو پاتے۔ ملک و قوم کو کسی بڑے خطرے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نظریاتی غیر جانبداری کے سوداگروں سے خبر دار رہیں۔ زندہ اور بیدار قومیں اصولی پوزیشن اختیار کرتی ہیں اور اس پر قائم ہو جاتی ہیں۔ آ خر ہم چوراہے میں کھڑے کب تک ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہیں گے؟ ایک نہ ایک دن ہمیں واضح پوزیشن اختیار کر نا ہو گی لہٰذا ہمیں سوچنا چاہیے کہ جس طرف قدم اُٹھانا چاہتے ہیں، یہ لوگ ہمیں اس کی مخالف سمت میں کیوں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ ریاستی اداروں کو کبھی بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان کو یہ امتیاز اور افتخار حاصل ہے کہ اس کا وجود ہی اسلامی شناخت کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ یہ بات اس کے آئین کے دیباچے میں طے کردی گئی ہے کہ ایسا کوئی قانون یہاں نہ تو بن سکے گا اور نہ ہی نافذ ہوگا جو قرآن اور سنت کے منافی ہو۔ ہمارے بعض سیکولر دانشوروں کو یہ حقیقت بڑی ناگوار گزرتی ہے کہ ہمارے آئین میں حتمی حاکمیت صرف خدا ئے واحدکی تسلیم کی گئی ہے اور ریاستی اداروں کی پہچان اسلام کے ساتھ قلبی اور فکری رشتہ ہے۔ پاک فوج ''ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے اور اس کی قیادت بڑے جری اور جی دار لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کے غیور اور محب وطن ہونے پر کوئی انگلی تک نہیں اٹھا سکتا۔ دنیا بھر میں فوجی تنخواہ کے لیے لڑتے ہیں مگر پاک فوج واحد و منفرد فوج ہے کہ جس کا ہر سپاہی جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت کے جذبے سے سر شار ہو کر لڑتا ہے۔ لیکن دائیں بائیں جو طبقہ فروکش ہے‘ یہ ہمارا فطری و نظریاتی اتحادی نہیں ہے بلکہ یہ تو فطری حریف ہے۔ اس نے ہمیشہ اداروں کی مخالفت کی ہے اور انہیں کمزور کرنے کی سازشیں رچائی ہیں۔ پاک فوج نے افغانستان میں جو کردار ادا کیا‘ جس طرح سوویت یونین کے بڑھتے قدموں سے پاک سرزمین کو محفوظ رکھا‘ ایک زمانہ اس کا معترف ہے لیکن اس طبقے نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔ کشمیر پالیسی پر بھی اس کو سخت اعتراض رہا ہے۔ اس طبقے کے اپنے کیا اہداف ہیں‘ آئیے ایک نظر ان پر بھی ڈال لیتے ہیں۔
عوام اور فو ج‘ دونوں نہیں چاہتے تھے کہ افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا جائے، یہ ہماری نفسیاتی، دفاعی، اقتصادی اور سٹریٹیجک ضرورت ہے۔ کشمیر میں جاری تحریکِ آزادی کی بھرپور سپورٹ پاکستان کی بقا اور کشمیر کی آزادی کے ساتھ ساتھ ہماری اقتصادیات کے لیے بھی ضروری ہے۔ کشمیر ہمارے آ بی ذرائع کا منبع ہے اور ہم جس آبی بحران سے گزر رہے ہیں اس کے بعد یہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ جب تک کشمیر کے پانیوں پر بھارت کا کنٹرول رہے گا، پاکستان کی معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔ بھارت جب چاہے پانی روک کر پاکستان کے زرعی میدانوں کو ریگستان بنا سکتا ہے اور جب چاہے پانی چھوڑ کر ہمیں سیلاب میں ڈبو سکتا ہے۔ اس معاملے پر فوج کا واضح موقف قوم سے ہم آہنگ ہے۔ ایٹمی معاملے پر بھی فوج اور قوم کی سوچ یکساں ہے۔ شدید دباؤ کے باوجود فوج نے اپنے دفاع اور سدِ جارحیت کے اس ستون کی پامردی سے حفاظت کی ہے۔ ان حوالوں سے دیکھیں تو فوج کے فطری حلیف وہ دینی و سیاسی محب وطن حلقے ہیں جو فوج سے اٹوٹ نظریاتی رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔
اگرچہ اس وقت ہم معاشی بحران سے گزر رہے ہیں لیکن قومی مفادات پر سمجھوتا کسی صورت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بجا کہ ہم قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر امریکہ کی گرفت ہے لیکن اس کا علاج یہ تو نہیں کہ ہم اپنے فطری ساتھیوں کو امریکہ کے کہنے پر چھوڑ دیں۔ ہمیں کھلم کھلا کہنا چاہیے کہ فی الحال ہم قرضوں کی بھاری سودی قسطیں ادا نہیں کر سکتے، بجائے اسکے کہ ٹیکس کی رقم سے آ ئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا پیٹ بھرتے رہیں اور بلیک میل ہوتے رہیں‘ ہمیں خود بھی صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر ترقیاتی کاموں کیلئے رقم کی ضرورت ہے۔ ہم 25 کروڑ عوام کو آ ئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی خواہش پر گرانی کے دلدل میں نہیں ڈبو سکتے۔ ویسے بھی یہ قرضے ظالمانہ یا Odious Debt کے زمرے میں آتے ہیں، ان کے تمام تر مقاصد سیاسی تھے، اور اب بھی ڈیفالٹ سے ڈرا کر ہماری قومی آزادی کو سلب کرناہی اصل ہدف ہے۔ افسوس !دوسری قوموں نے اپنی سمت مقرر کر لی ہے اور ہم ابھی تک گومگو کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ شیر بھیڑوں کی صحبت میں رہے تو وہ بتدریج بھیڑوں کی خصلت اپنا لیتا ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور معاملات الجھ رہے ہیں۔ لہٰذاآگے بڑھ کر شناخت کے بحران کو دور کرنا وقت کا تقاضا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں