فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل

9 مئی 2023ء کو یقینا ملکی تاریخ میں ایک یومِ سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ جس روز جتھوں نے عسکری تنصیبات پر حملے کیے، ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذرِ آتش کیا اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی۔ غیر جانبدار مبصرین نے ان واقعات کو نائن الیون اور کالعدم ٹی ٹی پی کے دفاعی اداروں پر کیے گئے حملوں کے مترادف قرار دیا ہے۔ بلاشبہ ایک بڑی قومی سیاسی جماعت کا ریاستی اداروں اور عسکری املاک کو نشانہ بنانا ناقابلِ معافی جرم ہے۔ 9 مئی کے واقعات نے بین الاقوامی سطح پر ایک غلط پیغام بھیجا اور فوج کے امیج کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ ان واقعات نے بیرونی دشمنوں کو ہمارے جوہری اثاثوں کی حفاظت سے متعلق سوالات اٹھانے کا موقع بھی فراہم کیا جبکہ پہلے ہی سے معاشی دلدل میں پھنسے ہوئے ملک کی سنگین صورتحال کو ان واقعات نے مزید بڑھاوا دیا۔ دوسری جانب ان کارروائیوں میں ملوث ملزموں کو سزا دینے اورمستقبل میں شرپسندوں پر لگام کسنے کیلئے آئین سے اخذ کردہ قانونی طریقہ کار کے تحت وفاقی حکومت اور مسلح افواج کی اعلیٰ کمان نے 9 مئی کے واقعہ میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور اس میں ملوث سہولت کاروں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کرنے کا فیصلہ کیا مگر سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن پر 23 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے سویلین افراد کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل اور سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 2 ون ڈی، شق 4 آف سیکشن 59 PAA کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ یعنی اب ملٹری کورٹس صرف آرمی پرسنل کے خلاف ہی ٹرائلز کر سکتی ہیں جبکہ 1952ء اور 1967ء کے ملٹری ایکٹ کے تحت ماضی میں ہزاروں سویلینز کے خلاف ملٹری کورٹس کی طرف سے دیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے۔ ماضی میں آرمی ایکٹ کے تحت دیے جانے والے تمام فیصلوں کو نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی 'ڈیو پروسیس‘ قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا؛ تاہم حالیہ کیس میں عدلیہ نے مذکورہ اقدام کو ذاتی انتقام قرار دیا حالانکہ 2015ء میں 21ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بینچ نے سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائلز کو ویلیڈیٹ کیا تھا۔ اس کے بعد 2016ء اور 2017 ء میں بھی سپریم کورٹ نے ملٹری ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی توثیق کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اب اچانک ایسا کیا ہو گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کو غیر قانونی قرار دے کر اسے غیر مؤثر بنانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان آرمی نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف ملک و قوم کی سلامتی اور بقا کیلئے اپنی تاریخ کی سب سے طویل جنگ لڑ رہی ہے اور اپنے ازلی دشمن کے خلاف بھی نبرد آزما ہے۔ نہ ختم ہونے والی اس جنگ میں ہزاروں افسران اور جوان اپنی جانیں مادرِ وطن پر قربان کر چکے ہیں۔ ایسے میں آرمی ایکٹ پر عمل درآمد دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے ازحد ضروری ہے۔ موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے کہ عساکر پاکستان شہریوں کی حفاظت اور قومی سالمیت کے تحفظ کیلئے کن مشکلات سے دو چار ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے ملٹری کورٹس میں ٹرائلز پر سوال اٹھانے کے بجائے آئندہ 9 مئی جیسے فسادات کی روک تھام پر اپنی توجہ مرکوز کی جائے۔ ملک میں عدالتی نظام کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور خدشہ ہے کہ کمزور عدالتی نظام کے سبب دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ کیا دہشت گردوں کو سزا سنانے کے بجائے اداروں کے ہاتھ باندھنا درست ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ماضی میں فوجی عدالتوں کے تحت کیے گئے ٹرائلز کی اب کیا حیثیت ہے، کیا ان کو بھی غیر قانونی قرار دیا جائے گا؟ اگر وہ ٹرائلز درست تھے تو پھر 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کو تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ بلاشبہ آئین کے تحت ریاست کے ہر ادارے کا کردار متعین ہے لیکن جب مسئلہ ملک و قوم کی سلامتی کا ہو تو اس میں دفاعی اداروں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں لہٰذا اس قسم کے معاملات کو سیاسی ضروریات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔
فوجی عدالتوں کے قیام کا تصور دنیا میں نیا نہیں ہے۔ امریکہ، روس، چین، یونان، اسرائیل، ترکیہ، فلپائن، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، سری لنکا، بنگلہ دیش، بھارت، ایران، کویت، بحرین، شام، یمن، عراق، سعودی عرب، اردن، لبنان، سوڈان، لیبیا، الجیریا، کینیا، مالی، ارجنٹائن، کیوبا، جبوتی، اریٹیریا، چلی، پیرو، میکسیکو، برونڈی، کمبوڈیا، گوئٹے مالا، کولمبیا، وینزویلا اور زمبابوے سمیت کئی ممالک میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائلز کی مثالیں موجود ہیں اور ان کے حق میں یہ دلائل دیے جاتے ہیں کہ چونکہ ان زیادہ تر ملکوں کا تعلق تیسری دنیا سے ہے لہٰذا یہاں مستحکم حکومت اور گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کی فوج کو اندرونی شورش اور بیرونی دہشت گردی کا بھی سامنا رہتا ہے لہٰذا دفاعی فورسز کو اس قسم کے اختیارات دینا از حد ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پرکب فوجی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟ جب کوئی شہری جاسوسی، غداری یا فوجی اہلکاروں اور عسکری املاک پر حملوں میں ملوث ہو یا جب کسی ملک کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو اور اس ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا جائے۔ مذکورہ بالا مقدمات میں‘ خاص طور پر جب سول عدالتیں بروقت ٹرائلز کو یقینی نہیں بنا پاتی ہیں تو حکومت اس مقصد کیلئے فوجی عدالتوں کو استعمال کر سکتی ہے کیونکہ وہ مقدمات کو تیزی سے اور مؤثر طریقے سے نمٹانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں ملکی عدالت ہی کے سسٹم کے حصے کے طور پر کام کرتی ہیں ۔ آرمی ایکٹ پاکستان کے آئین کے مطابق خصوصی طور پر اسی مقصد کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے طے شدہ فیصلوں کے ساتھ نافذ کیا گیا۔ یہ آئین کے تحت منصفانہ ٹرائلز کے تمام قانونی پیرامیٹرز کو طے کرتا اور ان کی پابندی کرتا ہے۔ ماضی میں بعض معاملات میں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے دائرۂ اختیار کو برقرار رکھا تھا۔ فوجی عدالتیں ایک قانونی طریقہ کار کی پیروی کرتی ہیں جو پاکستان کے آئین کے مطابق ملزم کے تمام حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور مقدمے کی سماعت کے تمام مراحل کے دوران انصاف کو یقینی بناتا ہے۔ اس طریقہ کار میں گرفتاری کی بنیادوں کی فراہمی، وکیل تک رسائی، دہرے خطرے سے تحفظ، چارج شیٹ کی فراہمی، ثبوت کے بیان کی فراہمی، سماعت کا حق، ثبوت ریکارڈ کرنے، اپیل کا حق، عدالتی نظرثانی اور رحم کی درخواست دائر کرنے کا حق شامل ہیں۔ فوجی عدالتوں کے ذریعے آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے والے عام شہریوں کو قانون اور طریقہ کار کے لحاظ سے سیشن عدالتوں کی طرح کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ سیکرٹ ایکٹ میں سیکشن 2 ون ڈی کے تحت سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے جس کے لیے سب سے پہلے ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے پھر اسے سیشن جج کے پاس پیش کیا جاتا ہے جس کے بعد ہی مقدمے کو ملٹری کورٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ 9 مئی کے سانحے میں ملوث افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے تحت عسکری تحویل میں لیا گیا۔ یہ قومی طور پر نافذ کردہ قوانین کے پیرامیٹرز کے اندر ہے اور سول عدالتوں کے پاس ایسے مقدمات کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 549(3) کے تحت فوجی حکام کو منتقل کرنے کا اختیار ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انصاف کی جلد فراہمی کیلئے فوجی عدالتیں موزوں ترین فورم ہیں۔ مستقبل میں ریاستی و قومی سالمیت کے اداروں اور عسکری تنصیبات کے خلاف گھناؤنے جرائم کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ ریاست و حکومت منصوبہ سازوں، اکسانے والوں اور سہولت کاروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کو یقینی بنائیں۔ فیصلوں میں تاخیر سے نہ صرف شرپسندوں کو شہ ملتی ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے، جس سے اس قسم کے واقعات کو روکنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں