پاک ایران تعلقات کی بحالی خوش آئند

اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اورخطے میں امن و سلامتی کے لیے ایک دوسرے کی مثالی معاونت کرنے والے پڑوسی ممالک اور بھائی چارے کے جذبے سے سرشار پاکستان ایران کے مابین دوستانہ سفارتی، تجارتی اور عوامی سطح کے روابط سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہیں۔ انقلابِ ایران کے بعد گوکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ اتار چڑھائودیکھنے کوملا مگر کبھی کشیدگی کا عنصر کبھی پیدا نہیں ہوا۔ 2012ء میں جب چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی بنیاد رکھی گئی تو بھارت نے پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات کے علاوہ ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی رخنہ ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ گوادر پورٹ کے مقابلے میں بھارت کا ایران کو چابہار پورٹ میں معاونت کی ترغیب دینا اسی سازش کی ایک کڑی تھی۔ بھارتی ایجنسی ''را‘‘ نے ایرانی صوبے سیستان میں اپنا ایک ایسا منظم نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا جہاں سے اسے اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاک ایران سرحد کے ذریعے بلوچستان میں داخل کرنے کی سہولت مل رہی تھی۔ بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی ''را‘‘کے جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد دونوں ممالک میں کچھ غلط فہمیاںبھی پیدا ہوئیں مگر ان کا سفارتی سطح پر پیشرفت کرتے ہوئے فوری ازالہ کر دیا گیا۔ دنیا اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان کو کسی قسم کی کشیدگی میں کوئی دلچسپی نہیں،آپریشن ''مرگ بر سرمچار‘‘ کا مقصد صرف اور صرف دہشت گردوں کے کیمپوں کو نشانہ بنانا تھا۔ سروان کے جس علاقے پر یکے بعد دیگرے میزائل اور راکٹ برسائے گئے وہاں فی الحقیقت دہشت گرد تنظیموں نے اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ یہ تنظیمیں اقوام متحدہ کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں بھی شامل ہیں جن کے خلاف کارروائی کے لیے ماضی میں ایران سے مطالبہ بھی کیا جاتا رہا کیونکہ ان دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں سے دونوں ممالک کے مابین غلط فہمیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔
ایران نے پاکستان کواعتماد میں لیے بغیر بلوچستان کی سول آبادی کے ایک گھر پر میزائل حملہ کرکے جوابی کارروائی کا جواز ازخود پیدا کیا۔ تہران کی بلااشتعال کارروائی سے علاقائی اور عالمی امن کے تاراج ہونے کی راہ ہموار کرتی نظر آرہی تھی جس پر اقوام عالم نے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان جو کشیدگی دیکھنے کو ملی اس حوالے سے کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا تھا، بہرحال ایرانی قیادت کی جانب سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے‘ باہمی اعتماد اور تعاون کی بنیاد پر تمام مسائل پر کام کرنے کے لیے جس آمادگی کا اظہار کیا گیا ہے‘ وہ خوش آئند ہے۔ البتہ ایران کی جانب سے ہونے والی اشتعال انگیزی میں ''بنیے‘‘ کا ہاتھ کارفرما ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مقامِ شکر ہے کہ دونوں برادر ملکوں کی کشیدگی کو کم کرنے میں ایک تاریخی کردار ادا کرنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی دیا اور میں نے اپنے والد‘ سابق چیف آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل کی روشن روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا۔ چین، قطر اور ایران سے دیرینہ مراسم مجھے وراثت میں ملے ہیں۔ بحیثیت ایک محب وطن اور سچے پاکستانی میں کیا‘ کوئی بھی ہرگز نہیں چاہے گا کہ مسلم امہ میں کوئی دراڑ آئے اور مسلمان ایک دوسرے سے دور ہوں۔ یقینا اس قسم کی کشیدگی سے صرف باطل قوتیں ہی فائدہ اٹھائیں گی۔
ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ایران وہ ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی ایران نے نہایت مثبت کردار ادا کیا اور پاکستان کے طیاروں کو قیام اورایندھن بھرنے کیلئے اپنی سرزمین میں اترنے کی اجازت دی۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی بھر پور ہمسائیگی اور بھائی چارے کا کردار نبھایا اور اب بھی نبھارہا ہے۔ برادر مسلم ملک پر عالمی سامراج نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں‘ ایسے میں جب فلسطینیوں کو ہماری ضرورت ہے‘ امتِ مسلمہ کا اتحاد ہی اسرائیل کی سفاکیت اور درندگی کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے فلسطینی موقف کی فتح ہوئی ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسرائیل کو عالمی عدالتِ میں گھسیٹنے کی جرأت کسی مسلم ملک نے نہیں بلکہ جنوبی افریقہ نے دکھائی۔ موجودہ صورتحال میں‘ جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے‘ ایسے میں ایران میں پاکستانی مزدوروں کا قتل امن عمل کو سبو تاژ کرنے کی سازش محسوس ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے ایران سے دہشت گردی میں تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی افواج کی بیس برس بعد خطے سے واپسی شروع ہوتے ہی شدت پسندی اور تخریب کاری کی جو تشویشناک لہر دیکھنے کو ملی ہے‘ اس سے خطے کے امن پر اب شکوک و شبہات کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی اور عالمی امن کی داعی قیادت اور نمائندہ اداروں کو بہرصورت ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے بھارت‘ جوتہران اور افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بناکر پاکستان کی سلامتی کے خلاف سادہ لوح لوگوں کو استعمال کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا‘ کی دہشت گردی کی روک تھام یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ استعماری قوتیں غزہ جنگ کا رخ جنوبی ایشیا کی جانب موڑ رہی ہے اور اس میں بھارت کے مکروہ عزائم بے نقاب ہو چکے ہیں کہ وہ کس طرح بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کر رہا ہے۔ اسلام آباد کے دھرنے پر بھی میں نے میڈیا میں آ واز اٹھائی اور اپنے کالموں میں بھی بلوچ دہشت گرد تنظیموں اور ماہ رنگ بلوچ کابھارت سے گٹھ جوڑ کا پردہ فاش کیا کہ کس طرح نام نہاد مظلومیت کی آڑ میں تخریب کاری جاری ہے اور اس کی کڑیاں دشمن ملک سے جا کر ملتی ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کے جلسے میں بلو چستان کا ترانہ بھی پڑھا گیاجس سے ملک دشمنی کا کھیل واضح ہو گیا ہے۔ مجھے ڈرانے کے لیے مجھ پر جان لیوا حملہ بھی ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے محفوظ رکھا اور دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو نا کام بنا دیا۔
پلوامہ اور پنجگور کامؤثر جواب پاکستان کی بہترین حکمت عملی اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پلوامہ 2019ء اور پنجگور 2024ء جیسے پاکستان کی سالمیت کے خلاف جارحانہ اقدامات ہی نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی ریڈ لائن کو واضح کرے۔ پلوامہ میں جعلی کارروائی کے ذریعے بھارت کے فوجی قافلے پر حملہ کر اکے اس کا بدلہ سرجیکل سٹرائیک سے لینے کا دعویٰ کیا گیاتو پاکستان کے ''آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ‘‘ نے جوابی کارروائی میں دو بھارتی طیارے مار گرائے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کرلیا؛ تاہم ایرانی سٹرائیک کی بدولت پاکستانی میں بہترین چیزیں سامنے آئیں؛ جیسا کہ قابل سفارتکاری، پختہ پیغام رسانی، پیشہ ورانہ عسکری مہارت، سہ فریقی کوآرڈی نیشن اور مقاصد کا حصول۔ 2019 ء میں پلوامہ کا واقعہ ہو یا 2024 ء میں پنجگور واقعہ‘ جس میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری نہ کرتے ہوئے پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی گئی‘ پاک فوج نے ہر دو مواقع پر دندان شکن جواب دے کر اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت کی عکاسی کی۔ پنجگور سپہ سالار کی حربی حکمت عملی کا پہلا عسکری امتحان تھا جس میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایرانی حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات کو مزید بہتر بنانے کیلئے متعدد پیشرفتیں ہوئی ہیں، دونوں ممالک کے مابین متعدد معاہدات ہوئے جن میں فریقین نے بہتر سرحدی انتظام، سرحدی منڈیوں کو کھولنے اور انسدادِ منشیات میں تعاون کے لیے سرحد کے دونوں جانب سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی پر اتفاق کیا۔ پولان گبد الیکٹرسٹی ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح اور ایران سے پاکستان 100 میگاواٹ اضافی بجلی کا معاہدہ بھی اس میں شامل ہے۔
قومی سلامتی اب علاقائی جغرافیائی سیاست سے جڑی ہوئی ہے۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک نئی شروعات نا گزیر ہے۔ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کی بیخ کنی اور انسدادِ دہشت گردی تعاون کے لیے ایک کثیر جہتی علاقائی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ چین، روس اور وسطی ایشیائی ممالک کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہئے۔ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بدگمانیوں کو خوش اسلوبی سے دور کرنے پر توجہ دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں