قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی نوزائیدہ جمہوریت پر چند لوگوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی اور پاکستانی قوم حاکم اور محکوم‘ دو طبقوں میں بٹ گئی تھی۔ تب سے یہی شاید ہمارا عمرانی معاہدہ بن چکا ہے۔ ہم نے اس کو صدقِ دل سے قبول بھی کر لیا۔ اس سماجی، سیاسی اور معاشی تفاوت کے باعث ایک خلیج قائم ہو گئی۔ حکمران طبقے نے حسبِِ ضرورت ہمیشہ محکوم عوام کو اپنے وسیع تر مفاد کیلئے استعمال کیا اور بیچارے عوام نے کبھی اس کا گلہ بھی نہ کیا۔ اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیا۔ حاکم کی خوشنودی میں ہی اپنے عافیت سمجھی۔ اس کی بنیادی وجہ جاگیردارانہ نظام کی موروثیت اور تعلیم و شعور کی کمی تھی اور اب قوم کی حالت یہ ہے کہ:
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
ہے شوقِ سفر ایسا ایک عرصے سے یارو
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا
اس فرسودہ عمرانی معاہدے نے ایک طرف محکوم عوام کو غریب سے غریب تر بنایا تو دوسری جانب مقتدر طبقہ ایسا طاقتور ہوا کہ اس ملک کی تقدیر کا مالک و مختار بن گیا۔ ایسا طبقہ جس کے ہاتھوں عوام اپنا مینڈیٹ بریانی کی ایک پلیٹ اور قیمے والے چند نانوں کے عوض بیچتے رہے۔ ایوب خان اور مشرف کے آمرانہ دور کے 'بنیادی جمہوریت‘ اور 'لوکل گورنمنٹ‘ جیسے نظاموں نے دو پارٹی جمہوریت کو قوت بخش کر الیکٹ ایبلز کی سیاسی اجارہ داری کو ایک نئی قوت بخش دی۔ ہر حکومت نے اپنے دوام کیلئے، الیکٹ ایبلز کے مفاد میں منصوبہ بندی کی اور منصوبہ بندی میں اس بات کو پیش نظر رکھا گیا کہ اس کا لائنز شیئر(سب سے بڑا حصہ) ان کی جیبوں میں جائے۔ ضیاالحق کی مجلس شوریٰ بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔
اس طرح ستر سالہ جمہوریت اور آمریت کی کوکھ سے الیکٹ ایبلز کی نسل نے جنم لیا۔ آہستہ آہستہ ان الیکٹ ایبلز نے ریاست کے اندر ریاستیں تشکیل دے لیں۔ اپنی برادریوں اور زیر اثر علاقوں میں حلقہ بندیاں کروا کے اپنے تسلط کو مزید مستحکم کر لیا۔ اس طرح متوسط طبقے کو کلی طور پر سیاسی معاملات میں نظر انداز کر دیا گیا۔ اس لئے کہ اشرافیہ اور غریب طبقات کے برعکس متوسط طبقہ نظامِ سیاست میں بہتری لانے اور ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ لیکن الیکٹ ایبلز کی اجارہ داری نے متوسط طبقے کو پسِ پشت دھکیل دیا۔ آج کے جمہوری سسٹم کے اندر الیکٹ ایبلز ایک گیم چینجر (پانسہ پلٹنے والے) کے طور پر ابھرے ہیں لیکن ان کی نہ کوئی نظریاتی وابستگی ہے اور نہ ہی کوئی وژن۔ ان کا ایک ہی نظریہ ہے ''جو جیتے اس کے ساتھ‘‘ تاکہ ان کا اور ان کے خاندانوں کا اقتدار میں حصہ رہے اور وہ عوام کے استحصال اور ملک لوٹنے کا تسلسل قائم رکھ سکیں۔
جمہوریت اور آمریت کے تمام ادوار میں ایک چیز مشترک تھی: ریاست اور عوام کیلئے کوئی منصوبہ بندی اور قابلِ قدر کام نہیں ہوا۔ کھوکھلے نعروں اور بلند بانگ دعووں کے سوا کسی سے کچھ نہیں ملا۔ اگر مشرف دور سے 2013ء کی اسمبلیوں تک کا جائزہ لیں تو ہمیں وہی پُرانے چہرے اور خاندان اقتدار کی کرسی سے چمٹے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایسی نام نہاد جمہوریت کی وجہ سے ہی عوام کے جو مسائل چلے آ رہے تھے‘ آج بھی وہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی این آر او زدہ جمہوریت کے بعد حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کے پالتو الیکٹ ایبلز کی لولی لنگڑی جمہوریت اختتام پذیر ہوئی، جس کے ثمرات آج یہ مل رہے ہیں کہ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر آ چکا ہے۔ تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب زور و شور سے عوام پر مسلط ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر زبوں حالی کا شکار ہیں۔ پانی کا بحران سر اٹھانے کو تیارکھڑا ہے۔ قوم کا بچہ بچہ قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ نہ پینے کا صاف پانی ہے‘ نہ ہی صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور یہ مسائل حل ہونے کے بجائے پیچیدہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
الیکٹ ایبلز حکمرانوں کو ان عوامی مسائل کا بالواسطہ یا بلا واسطہ سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ان کے پاس پینے کیلئے منرل واٹر، بیرونِ ملک ان کی اور ان کے بچوں کی جائیدادیں اور تعلیم و صحت کی شاہانہ سہولیات موجود ہیں۔ ان کیلئے یہ مسائل اہمیت نہیں رکھتے۔ ایسے میں عوام کس پر بھروسہ کریں؟ کیا ان پر بھروسہ کیا جائے جو پچھلے پانچ برسوں میں اپنی نام نہاد تجربہ کار ٹیم کے ساتھ قوم کو بحرانوں کے تحفے دے کر ابھی ابھی گئے ہیں؟ جنہوں نے سوائے اپنے اثاثوں کو وسعت دینے اور پیسہ بنانے کے کچھ کیا ہی نہیں۔ یا ان پر بھروسہ کریں جو تبدیلی کے نام پر انہی لوگوںکو الیکٹ ایبلز کے نام پر سامنے لا رہے ہیں جو کسی نہ کسی طرح عوامی مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ کیا وہ لوگ عوام کے مسائل حل کر سکیں گے جو اسی فرسودہ اور کرپٹ نظام کی پیداوار ہیں؟
اس فرسودہ اور استحصالی جمہوریت کیخلاف عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور 2013ء کے انتخابات میں بعض ناقدین کے مطابق عمران خان الیکشن جیتنے کی مضبوط پوزیشن میں بھی تھے‘ لیکن الیکٹ ایبلز کی دلدل میں دھنسا ہوا جمہوری نظام عمران خان کی فتح کے راستے میں حائل ہو گیا‘ اور عمران خان اپنی بے پناہ مقبولیت کے باوجود قابلِ ذکر نمائندگی حاصل نہ کر سکے۔ کپتان کے الیکشن سائنس سے نابلد کھلاڑی الیکٹ ایبلز کے سامنے انڈر 19 کی ٹیم ثابت ہوئے۔ عمران خان کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا اور اس کیخلاف آواز بھی اٹھائی گئی لیکن بدعنوانیوں کے اس فرسودہ نظام میں یہ آواز دب کر رہ گئی۔
ایک مرتبہ پھر تبدیلی کے علمبردار عمران خان عوام کو بڑے بڑے خواب دکھا رہے ہیں‘ بلا شبہ ہوا کا رخ بھی خان صاحب کے حق میں معلوم ہوا رہا ہے‘ لیکن وہ بھی اب الیکٹ ایبلز کے زیراثر نظر آتے ہیں۔ جن لوگوں کو الیکٹ ایبلز کی صورت میں عمران خان سامنے لا رہے ہیں وہ شاید اب ان کی مجبوری بھی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ لوگ خود کو تبدیل کئے بغیر تبدیلی لا پائیں گے؟ دیکھنا یہ ہو گا کہ اس دعوے کے پیچھے اسے ممکن بنانے کا احساس اور سنجیدگی بھی ہے یا نہیں۔ اس کیلئے ہم خیال افراد پر مشتمل نظریاتی جماعت چاہئے‘ مکمل اصلاحاتی ایجنڈا اور اس پر عملدرآمد کی مکمل منصوبہ بندی چاہئے‘ قابل عمل اصلاحات کے قابل تھنک ٹینکس چاہئیں‘ کارکنوں کے وسیع حلقے کا اس ایجنڈے پر ثابت قدم رہنے کا عزم چاہئے۔ نظام کی تبدیلی کے دعوے کے ساتھ نظام کی تبدیلی کا ہوم ورک چاہئے‘ کیونکہ قومی خزانے پر اپنی عیاشیوں کیلئے نظر رکھ کر اقتدار حاصل کرنے والے ملک اور قوم کی فلاح و بہبود اور بھلائی کے بارے میں بھلا کیا سوچیں گے؟
جس ملک میں سرمایہ کار الیکٹ ایبلز الیکشن میں جیت کیلئے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیں‘ انتخابات میں انویسٹمنٹ کریں‘ اور اس نیت سے اپنا سرمایہ انتخابات میں لگا دیں کہ جیت کے بعد قومی دولت سے اپنی تجوریاں بھریں گے۔ جہاں وہ آئین کے آرٹیکل 62,63 کے پل صراط کو بھی قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا کر پار کر لیں‘ ایسے ملک اور قوم کا کیا حال ہو گا؟ عوام اب حقیقی اور ناگزیر تبدیلی کے شدید خواہشمند ہیں۔ جو پارٹیاں بدلنے سے‘ چہرے بدلنے سے یا کھوکھلے نعروں سے نہیں نظام بدلنے سے نظر آنی چاہئے۔ عوام اب فقط کھوکھلے نعروں اور دعووں سے تنگ آ چکے ہیں۔ آزاد الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا نے عوام میں اتنا شعور بیدار کر دیا ہے کہ وہ اپنے حلقے کے امیدواروں سے سوال کرنے لگے ہیں کہ ووٹ مانگنے سے پہلے ہمیں بتاؤ کہ ہمارے لئے کیا کیا ہے؟ حال ہی میں بعض حلقوں میں عوام کی جانب سے شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ اویس لغاری کے ساتھ ہونے والا واقعہ اور بلاول بھٹو کی گاڑی پر پتھراؤ کی صورت میں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب عوام دعووں کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کریں گے۔ اب وہی مسند اقتدار پر بیٹھے گا جو عوام کے مسائل حل کرے گا اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرے گا نہ کہ اپنی جیبیں بھرے گا۔ اگر آج ہم نے اپنا مستقبل ان لٹیرے الیکٹ ایبلز کے ہاتھوں میں تھمائے رکھا تو پھر ہم صدیوں انہی لٹیروں کے آگے مجبور ہو کر مسائل کی دلدل میں ہی پڑے رہیں گے۔ ہر بار یہی کرپٹ لٹیرے الیکٹ ایبلز کی شکل میں ہمارا استحصال کرتے رہیں گے‘ اور غریب عوام محکومیت کے عمرانی معاہدہ کے آگے سرنگوں رہیں گے۔