"MEC" (space) message & send to 7575

وقت کی ضرورت

آج کی ریاست کے ڈھانچے اور گورننس کے خدوحال کا تعین قدیم یونان کی شہری حکومتوں سے ہوا ‘ جہاں کے عظیم مفکرین نے مثالی ریاست کے قیام اور ترقی کو تعلیم و تربیت سے مشروط کیا اور ریاست کو ذمہ داری دی کہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق معیاری اورپیداواری ذہنوں کی تعمیر کیلئے قابل افراد کو تعلیم یافتہ اور ہنرمند بنائے۔اسی نظریے کے بعد یونان کی تعلیم‘ موسیقی‘ رقص اور تلوار بازی سے ریاضی‘ طبیعات اور کیمیا جیسے جدید علوم میں بدل گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ مغربی دنیا تعلیم کی اہمیت کو بھانپ گئی اور کامیاب ٹھہری‘ جیسا کہ قرون وسطیٰ کے ادوار کے بعد جرمن مفکرجوہانس گوٹنبرگ کے ایجاد کردہ پرنٹنگ پریس نے شعبہ تعلیم میں انقلاب برپا کیا۔ یورپی ممالک جب مفکرین کا فلسفہ چھاپ کر محفوظ بنا رہے تھے تب کی مسلم ریاستیں چھپائی پر فتوے لگا رہی تھیں۔سترہویں صدی میں یورپ میں یونیورسٹیاں تعمیر ہو رہی تھیں اور ہمارے مسلمان بادشاہ محلات اور حرم بنانے میں مصروف تھے؛ چنانچہ تعلیم سے دوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان زوال پذیر ہوتے گئے اور غیر مسلم کامیاب۔ یورپی ممالک میں اگر آج جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کامیاب ہے تو وہاں کے پڑھے لکھے عوام کی وجہ سے ہے‘ اسی طرح جاپان جو دوسری عالمی جنگ کے بعد قبرستان بن چکا تھا‘ اگر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوا تو اپنی نظریاتی قوت اور دانا قوم کے باعث ہوا۔
بات کریں پاکستان کی تو ہم کئی سالوں سے من حیث القوم اپنی پہچان کھو چکے ہے اور ایک ریوڑ کی مانند ہانکے جا رہے ہیں۔جو بھی چرواہا آتا ہے وہ اپنی مرضی کے مطابق ہمیں چراتا ہے‘ ہمیں مذہبی‘ لسانی‘ طبقاتی اور سیاسی بنیادوں پر تقسیم کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ جمہوریت کی آڑ لیتے ہوئے چند خاندانوں کے بادشاہ‘ ان کے شہزادے ‘ شہزادیاںہم پر مسلط ہوتے ہیں‘ جنہوں نے نہ یہاں انسانی ترقی ہونے دی اور نہ ہی تعلیم و تربیت کیلئے ٹھوس اقدامات کئے۔ہم سیاسی و قومی شعور سے لاعلم ہی رہے۔اسی طرح ہماری پیداواری صلاحیتوں کو بھی بہتر نہ بنایا گیا اور ہم معاشی اور سماجی طور پر ناکارہ افراد بن گئے یعنی صرف ایک بے مقصد اور بے معنی ہجوم۔یہ کہنا غلط نہیں کہ ہمارے ہاں آج بھی دور ِجہالت کا Mobocracy (ہجوم کا نظام) رائج ہے‘ جس کی نہ کوئی سمت ہے نہ کوئی منزل‘ نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ کوئی ترجیحات۔ ہمارے ہاں جو مرضی نظام آجائے‘ وہ بہتری نہیں لا سکتا جب تک کہ ہم اپنے لوگوں کو بہتر نہیں بنائیں گے۔ گویا ہمیں نظام بدلنے کی نہیں بلکہ انسانوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ہماری جہالت کی وجہ ہی سے ملک میں تصادم اور دہشت گردی کا کلچر فروغ پا رہا ہے‘ معیشت کی ناؤ ڈوبتی جا رہی ہے‘ بھوک‘ افلاس اور بیروزگاری کے بحران حدوں کو عبور کر چکے ہیں۔ پاسپورٹ کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے‘ یعنی ہمارا شمار شام ‘ عراق اور افغانستان جیسے خانہ جنگی کے شکار ممالک کے ساتھ ہوتا ہے۔بدعنوانی کے تازہ انڈکس میں پاکستان 16 درجے تنزلی کے بعد 140 ویں نمبر پر جا پہنچا ہے‘ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں ہم 180 ممالک کی فہرست پر 154 ویںنمبر پر ہیں۔ 2021ء میں ہم ان دس بدترین ممالک میں شامل تھے جہاں تعلیمی صورتحال ابتر تھی‘ سول جسٹس سسٹم میں ہم 123 ویں نمبر پر کھڑے ہیں۔ گویا معیشت سے لے کر سماج تک ‘ سیاست سے لے کر انصاف تک ہماری ریاست ہر پہلو میں دنیا کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔
ان تمام مسائل کا انبار لگنے کی یقیناً بیشتر وجوہات ہوں گی مگر ایک بڑی وجہ ہمارے ہاں انسانی ترقی کا نہ ہونا ہے۔نوبل انعام یافتہ معیشت دان William Arthur Lewisکے مطابق انسان کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں‘ جن کو باصلاحیت بنا کر معیشت کو چار چاند لگائے جا سکتے ہیں‘ اس کی سب سے بڑی مثال چین ہے‘ چین جو کہ 1970ء تک غربت کا شکار تھا‘ نے تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی ترقی کی۔ اس نے اپنے انسانوں کو جدت سے روشناس کروایا‘ تعلیم کو سائنس اور آئی ٹی پر استوار کیا‘ IT based skilled labour تیار کی اور اپنے انسانوں کے کارآمد استعمال سے معاشی طاقت بن گیا۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں ایسی کوئی کوشش نہ ہو سکی۔ دراصل ہماری بے ہنگم آبادی انسانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ آج پاکستان 23 کروڑ کے لگ بھگ نفوس کے ساتھ دنیا کا پانچواں گنجان آباد ملک ہے‘ 2050ء تک ہماری آبادی 45 کروڑ تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔ماضی کی کوئی بھی حکومت آبادی کو قابو کرنے اورعوام کو شعور دینے کے مؤثر اقدامات نہ کرسکی‘ 60ء کی دہائی میں ایوب خان کے دور میں فیملی پلاننگ کی کوشش ہوئی تھی مگر رجعت پسندوں کی پیدا کردہ رکاوٹوں کے باعث یہ پیغام عام آدمی تک نہ پہنچ سکا اور ان پڑھوں کی فوج اکٹھی ہوتی گئی۔ اگر ہم اپنا موازنہ بنگلہ دیش کے ساتھ کریں تو انہوں نے سب سے پہلے رجعت پسندوں کو راستے سے ہٹایا اور پھر عوام کو آگاہی دیتے ہوئے اپنی آبادی پر قابو پایا اور وہیں سے ترقی کی راہ متعین کی۔ اسی طرح ہمارا ناکام اور ناقص نظام تعلیم بھی قومی تباہی کی وجہ ہے۔ تعلیم کیلئے مختص کئے گئے فنڈز بمشکل GDPکا دو فیصدہیں جسے کم از کم سات فیصد ہونا چاہئے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان تعلیمی میدان میں نو ممالک میں سے آٹھویں نمبر پر ہے‘ ہماری صورتحال صرف افغانستان سے بہتر ہے۔ جو تھوڑی بہت تعلیم ہمارے ہاں میسر ہے وہ بھی کسی لحاظ سے سود مند دکھائی نہیں دیتی۔ ہمارا نظام تعلیم‘ طریقۂ تدریس اور نصاب فرسودہ ہو چکا ہے‘ ہم ابھی تک روایتی مضامین سے آگے نہیں بڑھ سکے‘ ہمارے نوجوان ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود دنیا میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔اسی طرح ہماری نصف آبادی یعنی خواتین کی تعلیمی صورتحال بھی پسماندہ ہے۔ ان تمام محرومیوں اور ناکامیوں کے ہوتے ہوئے ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟
حالات میں بہتری کیلئے چند اقدامات فوری طور پر کرنے چاہئیں۔ سب سے پہلے توملک میں انسانی ترقی کیلئے ایک مخصوص‘ مضبوط اور فعال ڈھانچہ بنایا جائے جو انسانوں پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے انہیں کارآمد بنائے۔ خوش قسمتی سے ہماری 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں جدید تعلیم اور تربیت دیتے ہوئے ہم اپنا سب سے بڑا سرمایہ بنا سکتے ہیں۔ ہماری معیشت ترسیلاتِ زر کی بنیادوں پر کھڑی ہے؛چنانچہ ہمیں نوجوانوں سے ملکی خدمات لینے کے ساتھ انہیں باہر بھی بھیجنا چاہیے جہاں جا کر وہ کوئی بہتر روزگار تلاش کریں اور اپنی خدمات کے ذریعے ملک کا معاشی سہارا بنیں۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کا بھی از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ نظام تعلیم کو جدید اور یکساں بنایا جائے گا اور نصاب میں نئی روح پھونکی جائے گی‘ مگر ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد بھی یہ وعدے وفا ہوتے نظر نہیں آتے۔ حکومت کو چاہیے کہ آئے روز نت نئی اتھارٹیوں کے قیام کے بجائے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرے‘ ایسا نصاب پڑھایا جائے جس سے رٹو طوطے تیار نہ ہوں بلکہ ملکی ترقی اور معاشی نمو میں اس کا کردار ہو۔ مذہبی تعلیم کیلئے ہمارے پاس مدارس کانظام موجود ہے؛چنانچہ سکولوں‘ کالجوں کے نصاب میں ابتدائی سطح پر ہی انگریزی ‘ آئی ٹی اور سائنسی علوم کو فوقیت دی جائے اور جدید ریسرچ سینٹرز اور لیبارٹریاں بنائی جائیں۔ خواتین کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیںایک محفوظ ماحول فراہم کیا جائے اور خود ساختہ مذہبی‘ علاقائی اور ثقافتی رکاوٹوں کو توڑا جائے۔ جب تک ہم اپنے انسانوں کوجدید تعلیم سے آراستہ نہیں کریں گے ہم مضبوط ریاست بن پائیں گے اور نہ ایک قوم بن سکیں گے‘ نہ یہاں گورننس بہتر ہوگی اور نہ معاشی و سماجی ترقی کا خواب پورا ہوگا۔ تعلیمی انقلاب لانے کیلئے ہمارے حکام کوٹھوس‘ مؤثر اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں