معیشت دان ریاست کی پیداوار کو چار بنیادی عوامل میں تقسیم کرتے ہیں؛ زمین‘ مزدور‘ سرمایہ اور کاروبار۔ ان چاروں عوامل میں زمین کا کردار مرکزی ہے کیونکہ ٹھوس منصوبہ بندی اور مربوط حکمت عملی کے تحت اقتصادی‘ تجارتی‘ صنعتی‘ زرعی‘ ماحولیاتی اور رہائشی مقاصد کیلئے زمین کا پیداواری استعمال ہی ریاست کی ترقی و خوشحالی کا زینہ ہے۔حالیہ دہائیوں میں دنیا کی بڑھتی بے ہنگم آبادی‘ خوراک اور روزگار کی طلب‘ صحت کی سہولتوں‘ ماحولیاتی بقا اور معاشی سرگرمیوں نے زمین کے استعمال کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔اگرچہ یہ استعمال ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک‘ دونوں میں ہے مگر فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک مؤثر منصوبوں اور واضح روڈ میپ کے ذریعے اپنی زمین کے بامقصد استعمال کی وجہ سے خوشحال ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک عدم منصوبہ بندی کے باعث زمین کے پیداواری عمل سے محروم رہتے ہیں۔
امریکہ میں زمین کا 27 فیصد حصہ قدرتی اور مصنوعی جنگلات پر مشتمل ہے‘ 24 فیصد ہموار زمین ہے‘ 17 فیصد قابلِ کاشت زرعی علاقہ ہے اور 17 فیصد مخصوص علاقے میں نیشنل پارکس‘ ہائی ویز ‘ ریلوے ٹریکس اور فیکٹریاں موجود ہیں‘ دو فیصد حصہ میٹروپولیٹن شہروں پر مشتمل ہے جو کہ ملکی جی ڈی پی میں 40 فیصد کے حصہ دار ہیں جبکہ باقی 13 فیصد متفرق علاقہ ہے۔ اسی طرح وہاں ریاستیں کاؤنٹیز پر مشتمل ہوتی ہیں‘ اور ہر کاؤنٹی کو ٹھوس قواعدو ضوابط کے تحت پانچ زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے‘ رہائشی زون‘ تجارتی زون‘ صنعتی زون‘ تعلیمی و سماجی زون اورماحولیاتی زون۔ رہائشی زون میں کم اور زیادہ رقبے والے گھر ہوتے ہیں‘ ٹرانسپورٹ‘ نکاسی آب اور دیگر سہولتوں کےTrunk Infrastructures بھی موجود ہوتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کی تمام سہولتیں بھی کاؤنٹیز کے اندر ہی دستیاب ہوتی ہیں اور بنیادی تعلیم کیلئے بچوں کو کاؤنٹیز سے باہر نہیں بھیجنا پڑتا‘ جس سے ایک تو سفر کا خرچہ بچتا ہے دوسرا ٹریفک کے دباؤ میں بھی کمی آتی ہے۔ اسی طرح چین کی بات کریں تو انہوں نے اپنی زمین کا منظم استعمال وسائل کی مناسبت کے ساتھ کیا جیسے صوبہ Fujian‘ Guangdong اور Shandong میں ساحلی علاقوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز بنا کر برآمدات کو فروغ دیا گیا۔ Beijing‘ Shanghaiاور Tianjin جیسے جدید شہروں کی بلند شرح خواندگی کی وجہ سے وہاں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زونز بنائے گئے‘ جن میں تحقیقاتی مراکز‘ جامعات اورHigh-Tech Parksبنائے گئے۔ دریاؤں سے ملحقہ ایسے علاقے جہاں وافر پانی اور زرخیز زمین موجود تھی وہاں ایگریکلچر زونز بنائے گئے‘ جیسے چینی صوبہ Sichuan جو چین کی بریڈ باسکٹ کہلاتا ہے‘ وہ ایک صوبہ ملک میں زرعی اجناس کی نصف طلب کو پورا کرتا ہے۔ چین نے اپنے صحراؤں کو بھی گل و گلزار میں بدل دیا‘ جیسے چینی صوبہ Xuanhua جو کسی زمانے میں بنجر علاقہ تھا‘ میں آج پیدا ہونے والے 40 اقسام کے انگوروں سے مشروب تیار ہوتا ہے جو دنیا بھر میں برآمد کر کے زر مبادلہ کمایا جارہا ہے۔اسی طرح چند دہائیاں پہلے صحرا نظر آنے والی متحدہ عرب امارات کی ریاستوں نے بھی اپنی ریتلی اور نا قابل کاشت زمین کا صنعتی استعمال کیااور کاروباری سہولتیں مہیا کرتے ہوئے بزنس زونز بنائے۔ یو اے ای کے دارلحکومت ابو ظہبی میں زمین کو بنیادی طور پر تین زونز میں تقسیم کیا گیا ہے‘ سینٹرل بزنس زون میں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر اور شورومز ہیں۔کیپٹل زون میں بلند و بالا عمارتوں میں مہنگے رہائشی فلیٹس ‘ مالز اور ہوٹلنگ سے کمائی کی جاتی ہے جبکہ Island زون میں تفریحی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔
بات کریں پاکستان کی تو ہمارے پاس وسیع صنعتی انفراسٹرکچر اور توانائی کے مسائل نہ ہونے کی وجہ سے زراعت ہی سب سے بڑا خزانہ ہے۔ملک کی 65 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ زراعت سے منسلک ہے‘ مگر حیران کن طور پر نصف سے زائد آبادی کا شعبہ ٔروزگار ملکی جی ڈی پی میں فقط 21فیصد کا حصہ دار ہے۔ہمارے ہاں بجائے زراعت میں ترقی لانے کے‘ پھلتی پھولتی زرعی زمین ہاؤسنگ سکیموں کی نذر ہو رہی ہے۔ پاکستان طویل مدتی ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے مگر پھر بھی یہاں بچے کھچے قدرتی ماحول کا بے دریغ خاتمہ جاری ہے۔اسلام آباد کبھی اپنے قدرتی حسن اور بہترین ماحولیاتی Land Useکی وجہ ہی سے دنیا کے خوبصورت ترین دارالحکومتوں میں شمار ہوتا تھا‘ جس کی پروا نہ کی گئی اور اَن گنت ہاؤسنگ منصوبوں سے شہر اقتدار کا قدرتی حسن ماند پڑ گیا۔ یہی حال لاہور کا ہے‘ لاہور کی ٹھنڈی سڑکیں اور کھلے میدان کبھی دیدنی تھے‘ مگر آج ہر طرف رہائشی علاقے دکھائی دیتے ہیں جہاں نہ سالڈ ویسٹ کا کوئی ٹھوس نظام ہے اور نہ صاف پانی کی فراہمی کا۔نہ سیوریج سسٹم قابل استعمال ہے اور نہ ہی روڈ انفراسٹرکچر موجود ہے‘ جبکہ آلودگی کے حالیہ عالمی انڈیکس میں لاہور دنیا کا تیسرا آلودہ ترین شہر قرار پایا ہے۔ 1966ء‘ 1980ء اور 2004ء میں لاہور کے ماسٹر پلانز بنائے گئے مگر ان میں طویل مدتی وژن موجود نہیں تھا اور نہ ہی ان پر مکمل عملدرآمد ہو سکا؛ چنانچہ بڑے شہروں کی اسی عدم منصوبہ بندی کا فائدہ لینڈ مافیا نے خوب اٹھایا اور جگہ جگہ ہاؤسنگ سکیمیں بنانا شروع کر دیں۔ہمارے ہاں گھروں کے سرکاری منصوبے ہوں یا غیر سرکاری‘ عام آدمی کو کہیں سستے گھر میسر نہیں البتہ لینڈ مافیاز کی موجیں ضرور لگی ہوئی ہیں‘ جبکہ آئین و قانون تو زمین کا استعمال عام آدمی کے بہبود کیلئے ہی کرنے کی تلقین کرتے ہیں‘ جیسے فلاحی ریاست میں عوام کو خوراک و دیگر بنیادی ضروریات بشمول گھر فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پنجاب ہائوسنگ اینڈ ٹائون پلاننگ ایجنسی کے آرڈیننس 2002 کی شق 4 میں لکھا ہے کہ کم آمدن والے افراد کیلئے سستی رہائش گاہیں بنائی جائیں گے مگر افسوس کہ ہمارے زمینی وسائل پر قابض مافیا کہیں نہ کہیں ریاست کو بھی کنٹرول کر رہا ہے۔
ہمیں اپنی زمین کے پیداواری استعمال کیلئے چند اقدامات فوری طور پر کرنے چاہئیں: سب سے پہلے تو وفاقی حکومت کو چاہیے کہ ملکی سطح پر ایک جامع اور مربوط ماسٹر پلان بنائے اور اسے عملی جامہ پہنائے‘ جس کی پیروی کرتے ہوئے صوبوں اور پھر اضلاع کے ماسٹر پلانز بنائے جائیں‘ اسی فریم ورک کے اندر سستے گھر بنانے کی طرف بھی توجہ دی جائے‘ جس کیلئے سستی تعمیراتی پالیسی اپنانا ہوگی‘ جیسے امریکہ‘ یورپ‘ چین‘ جاپان میں ہوتا ہے۔ہمیں بھی ایسے سستے گھر تعمیر کرنے چاہئیں‘ اسی طرح بڑے شہروں میں زمین کی قلت اور بڑھتی آبادی کے پیش نظر کثیر المنزلہ عمارتیں بنانے کی پالیسی پر بھی عملدرآمد ہونا چاہیے۔ سی پیک جو کہ گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے‘ اس ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے اردگرد زمین کو صنعتی مقاصد اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔اسی طرح ہمیں اپنی قابلِ کاشت زمین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ پاکستان میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار3.2 ٹن ہے اور فرانس میں 8.1 ٹن‘ ہماری کپاس کی فی ایکڑ پیداوارایک ٹن سے بھی کم ہے جبکہ چین میں 4.8 ٹن ہے‘ لہٰذ ا ہمیں مخصوص زمین کی پیداواری صلاحیت کے مطابق فصلیں کاشت کرنے کی ضرورت ہے‘ اسی طرح ہمیں اپنے عوام کو جدید تعلیم اور صحت کی بہترین سہولتیں مہیا کرنے کیلئے وسیع اراضی پر ایجوکیشن سٹی اور ہیلتھ سٹی بھی بنانے چاہئیں۔حکومت کو زمین کے پیداواری استعمال کے بارے میں بہر صورت سوچنا ہوگا کیونکہ جس بے دردی کے ساتھ دھرتی کوتاراج کیا جا رہا ہے‘ وہ دن دور نہیں جب یہاں نہ رفاہِ عامہ کے کسی منصوبے کیلئے زمین بچے گی اور نہ کھیلوں کا کوئی میدان۔تحفظِ خوراک کی ضامن زرخیز زمین نظر آئے گی اور نہ ہی اناج دستیاب ہوگا اور تب ہم سوائے آہ و زاری کے کچھ نہیں کر سکیں گے۔