"MEC" (space) message & send to 7575

بدحال گورننس اور انتظامی اختیارات

'گورننس‘ کسی ریاست میں انتظامی‘ سیاسی اور معاشی نظام کا نفاذ ہے‘ یعنی وہ اسلوب یا طریقہ کار جن کے ذریعے مؤثر حکمرانی کے فیصلوں پر ٹھوس عملداری کو یقینی بنایا جائے۔ بہترین طرزِ حکمرانی معاشرے میں انصاف‘ شرکتِ عامہ‘ شفافیت‘ احتساب‘ قانون کی حکمرانی اور غریب عوام کی داد رسی کی ضامن ہوتی ہے۔ نوآبادیاتی دور اگرچہ ظالمانہ اور استحصالی تھا مگر تب کے حکمرانوں نے گڈگورننس کے حصول میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ انگریزوں نے صدیوں سے چلے آئے بادشاہی نظام کی جگہ جدید بیوروکریسی کا انتظامی نظام متعارف کروایا جس کے ٹھوس ڈھانچے میں پڑھے لکھے‘ قابل اور مہارت رکھنے والے افراد میرٹ کی بنیاد پر شامل کیے گئے۔ ہر ضلع میں ایک افسر تعینات ہوا جس کے پاس وہاں کے ناظم‘ ٹیکس کولیکٹر‘ مجسٹر یٹ اور پولیس کی سربراہی کے اختیارات تھے۔ اُس زمانے کی پولیس بھی ایک رعب اور دبدبے کا نام تھا۔ مسعود مفتی اپنی کتاب ''دو مینار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اُس دور میں ٹھوس ریاستی رِٹ قائم تھی اور کسی فالتو محکمے کا تصور موجود نہ تھا۔ صحت سے لے کر جدید تعلیم تک‘ پختہ سڑکوں سے لے کر نکاسیٔ آب تک‘ کاشتکاری سے لے کر نظام آب پاشی تک‘ محصولات سے لے کر مقامی حکومتوں تک‘ گویا تمام نظام جو آج بھی ہمارا سہارا ہیں‘ انگریز دور کے مرہون منت ہیں۔
مذکورہ دور کا موازنہ موجودہ دور کے ساتھ کیا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ گورننس کے مؤثر ترین ماڈل‘ جو ہمیں وراثت میں ملا تھا‘ کو ہر آنے والے حکمران نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر نقصان پہنچایا اور ایک فلاحی ریاست جہاں گورننس کا مقصد عوام کا معاشی و سماجی تحفظ‘ قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی ہونا چاہیے تھا وہ اندھیر نگری چوپٹ راج میں بدل گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں بدامنی‘ قانون کی عدم حکمرانی‘ مہنگائی اورلوٹ مار جیسے سنگین مسائل پر قابو پانے کیلئے کوئی ٹھوس عملی اقدام نظر نہیں آتا۔ اشیائے خوراک افلاس کے ستائے عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں‘ طلب اور رسد کی چین سے لے کر خوراک کی قیمتوں کے تعین تک ہر چیز مافیا کے قبضے میں ہے‘ بالواسطہ ٹیکسوں کے بلاواسطہ ٹیکسوں پر غلبے کے باعث عوام غربت کا شکار ہیں‘ شہروں سے دیہاتوں تک‘ محلوں سے پوش علاقوں تک ہر جگہ گندگی کے ڈھیر‘ سیوریج کا ناقص نظام اور سڑکوں کی حالت ِزار سینہ کوبی کو اکساتی ہے۔ ڈینگی سے لے کر سموگ تک کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے انتظامات موجود نہیں‘ نومولود بچوں کے دودھ کی ملاوٹ سے لے کر لائف سیونگ دوائیوں کی ملاوٹ اور قلت جیسے جرائم بے باکی کے ساتھ ہورہے ہیں‘ سرکاری ہسپتالوں میں دل کے مریضوں کو جعلی سٹنٹس ڈالے جاتے ہیں‘ سروس ڈلیوری کے محکموں میں سائلین کی توہین و تذلیل روزمرہ کا معمول بن چکی ہے‘ ہر جگہ اقرباپروری‘ کنبہ پروری‘ رشوت خوری اور سفارشی کلچر کا بول بالا ہے۔ قانون کی حکمرانی کا گڈ گورننس کے حصول میں کلیدی کردار ہوتا ہے مگر آج صورتحال یہ ہے کہ Rule of Law کی رینکنگ میں ہم 139 ممالک میں 130ویں نمبر پر ہیں‘ جبکہ Civil Justice System کی رینکنگ میں 128 ممالک میں سے 118ویں نمبر پر۔ اب تو ہمارا شمار ہیٹی‘ بولیویا اور افغانستان جیسے ممالک کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری پولیس اور سول انتظامیہ ہمیشہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام نظر آئی ہے‘آئے روز ہراسگی کے واقعات کے باعث نصف آبادی عدم تحفظ کا شکار ہے اور معاشی دھارے میں ان کی شمولیت ہی نہیں۔ پی آئی سی کا واقعہ بھی پولیس کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت تھا‘ جب سرکاری ہسپتال میدانِ جنگ بن گیا‘ اور اب ناقص گورننس کا بچا کھچا پول حال ہی میں احتجاجی جلوس نے کھول دیا‘ جس میں بے باکی سے شاہراہیں بند کی گئیں مگر پولیس سمیت کوئی سویلین ادارہ صورتحال کو قابو کرتا ہوا دکھائی نہیں دیا اور یہ معاملہ ختم کرانے کیلئے بھی عسکری اداروں اور پرائیویٹ لوگوں کو کردار ادا کرنا پڑا۔ نجانے کب تک ہم سویلین معاملات میں حساس اداروں کی مدد لیتے رہیں گے؟یوں لگتا ہے کہ عسکری اداروں پر خارجی دفاع کے ساتھ ساتھ داخلی معاملات سنبھالنے کی ذمہ داری بھی پکی ہوتی جا رہی ہے۔
عظیم امریکی مفکر تھامس جیفرسن نے کہا تھا'' اچھی اور بری حکمرانی میں تفریق ماضی کے کیے گئے فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جا سکتی ہے‘‘ اور ہماری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب تک اس ملک میں انتظامیہ مؤثر رہی حکمرانی بھی بہترین رہی اور انتظامیہ کو غیر مؤثر کر کے مسائل و بحران کو خود دعوت دی گئی۔ 1973ء کے آئین کے بعد عدلیہ انتظامیہ سے الگ ہوئی تو مجسٹر یسی بھی دو اقسام یعنی انتظامی مجسٹریسی (ضلعی مجسٹر یٹ کے ماتحت) اور جوڈیشل مجسٹر یسی (سیشن جج کے ماتحت) میں تقسیم ہوئی‘ انتظامی مجسٹر یسی قابلِ تعریف نظام تھا جس میں لوکل اینڈ سپیشل لاز کے مؤثر نفاذ کے ذریعے گڈ گورننس یقینی بنائی جا رہی تھی اور پولیس اور حکومت کی معاونت ہو رہی تھی مگر مشرف دور میں کوڈ آف کریمنل پروسیجر کے باب اول کی شق 13 میں ترمیم کرکے انتظامی مجسٹریسی کا نظام ختم کر دیا گیااور انتظامی اختیارات ڈی سی آفس سے چیف منسٹر سیکرٹریٹ منتقل ہو گئے‘ جہاں انتظامی فیصلے تو نہ ہوسکے البتہ سیاسی سمجھوتے ضرور ہوتے رہے‘ عام سے عام مسئلے میں بھی براہ راست صوبائی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا جانے لگا؛ چنانچہ یہ تبدیلی Devolution کے بجائے Demolition ثابت ہوئی جبکہ چیف سیکرٹری کے زیر قیادت کام کرنے والا ڈی سی آفس ایک مضبوط انتظامی یونٹ ہوا کرتا تھا جس نے اس ملک کو بہت ڈلیور کیا اور عشروں سے چلا آیا آزمودہ نظام تھا۔ اس تبدیلی نے ذمہ داریوں کے دائرہ اختیار میں بھی شدید کنفیوژن پیدا کر دی‘ چند ذمہ داریاں خواہ مخواہ مختلف کمپنیوں کے سپرد کردی گئیں جن کی کرپشن کی طویل داستانیں ہیں‘ کچھ ذمہ داریاں عدالتوں اور پولیس کے پاس جانے سے اضافی بوجھ پڑا اور ان کی کارکردگی متاثر ہوئی جبکہ کئی ذمہ داریاں ابھی تک کسی کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت نے انتظامی مجسٹر یسی کا نظام دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی مگر پی ایس پی کیڈرز کے اثر ورسوخ کی وجہ سے یہ نظام بحال نہ ہو سکا۔
کوئی شک نہیں کہ آج ہم گورننس کے بدترین فقدان کا شکار ہیں‘ ہمارے پاس قوانین تو بے شمار ہیں مگر عملدرآمد نظر نہیں آتا‘ جب ہر ادارے میں تعیناتیاں اہلیت‘ قابلیت اور شفافیت کے بجائے ذاتی پسند نا پسند اور چمک کی بنیادوں پر ہوں تو گورننس کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟ چنانچہ آج قومی مفاد میں سوچتے ہوئے گورننس بحالی کیلئے تمام اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا‘ ان کے نظام میں شفافیت لانا ہوگی اور ملک میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانا ہوگی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک نیا لیگل فریم ورک بنایا جائے جس کے تحت ضلعی حکومتوں کے انتظامی اختیارات اور ذمہ داریوں کو بحال کیا جائے کیونکہ گورننس کی بہتری اکیلے پولیس اور صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں بلکہ حکومت‘ پولیس اور ضلعی انتظامیہ سب مل کر گڈ گورننس اور ریاستی رٹ کا قیام ممکن بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح مقامی اداروں کو مضبوط بنانا بھی ناگزیر ہے کیونکہ سروس ڈلیوری اور گڈ گورننس کی بنیاد یہی ہوتے ہیں‘ مقامی حکومتوں کے فعال کردار سے عوام کی شراکت داری اور اونرشپ ممکن ہوگی اور لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل ہوں گے جس سے گورننس میں بہتری آئے گی۔ ہمارے پاس کرائسس مینجمنٹ کا کوئی ٹھوس ادارہ فعال نہیں‘ جو قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو‘ بلاشبہ کورونا وبا کے دوران این سی اوسی کی کارکردگی متاثر کن رہی مگر اس کادائرہ اختیار محدود ہے‘ اس میں وسعت لانا ہوگی تاکہ وہ نچلی سطح پر بھی مؤثر طریقے سے پرفارمنس دکھائے اور گورننس میں بہتری آسکے۔ ناکام گورننس آج ملکی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور ہر شعبہ عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے‘ اگر گورننس کی بہتری کیلئے جلدی نہ کی گئی تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں