جرمنی میں سولہ برس برسراقتدار رہنے والی انجیلا مرکل حال ہی میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئی ہیں‘ مرکل نے جب اقتدار سنبھالا تو جرمنی میں شرح بیروزگاری 11 فیصد تھی جو آج پانچ فیصد ہے اورجرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ ڈیڑھ دہائی سے زائد پر محیط اپنے دورِ اقتدار میں مرکل نے نہ کبھی سرکاری رہائش استعمال کی‘ نہ کوئی جائیداد بنائی اور نہ کوئی لوٹ مار کی۔ ایک بار صحافی نے دورانِ پریس کانفرنس ان کے پرانے سوٹ کی نشاندہی کی تو ان کا جواب تھا کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں کوئی ماڈل نہیں جو ہر روز سوٹ بدلتی رہوں۔ حتیٰ کہ انہوں نے بتایا کہ وہ گھر میں کپڑے بھی خود دھوتی ہیں۔ اسی طرح مسلسل تیسری بار کینیڈا کے وزیراعظم بننے والے جسٹن ٹروڈو کی مخلصی اور عاجزی بھی بے نظیر ہے۔اپنی سوانح حیات''Common Grounds‘‘میں وہ لکھتے ہیں کہ دورانِ تعلیم وہ یہ بات اکثر چھپاتے تھے کہ وہ کینیڈا کے وزیراعظم کے بیٹے ہیں تاکہ اساتذہ اور دیگر طلبہ پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑے۔جب انہیں مغربی شہر وینکوور جانا پڑا تو دوست کے گھر کی اوپری منزل میں رہائش اختیار کی اور ذاتی کفالت کیلئے دو دو نوکریاں بھی کیں‘ جن میں ایک نوکری نائٹ کلب کے دربان کی تھی۔ اسی طرح ایک اور لیڈر نیوزی لینڈ کی دوسری بار منتخب ہونے والی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن ہیں‘ کورونا وبا کے عروج پر جب نیوزی لینڈ سب سے پہلا کورونا فری ملک قرار پایا تو پوری دنیا جیسنڈا کی بہترین مینجمنٹ کی معترف ہوگئی۔ایک بار ایک غیر ملکی صحافی ان کا انٹرویو لینے آیا تو وہ راج کماریوں کی طرح اپنے تخت پر نہیں بیٹھی رہیں بلکہ خود اپنی گاڑی میں اس صحافی کو ایئر پورٹ لینے گئیں ‘ پھر گھر آکر اپنے ہاتھوں سے کھانا پکایا اور نہایت سادہ سے ماحول میں انٹرویو دیا۔ اسی طرح سنگا پور کی صدر حلیمہ یعقوب بھی دو کمروں کے فلیٹ میں رہتی ہیں۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما کی بیٹی بھی ریستوران میں عام سی نوکری کرتی رہی ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے تین عشرے کال کوٹھری میں گزارے مگر آخری دم تک افریقہ کی خدمت کیلئے پیش پیش رہے۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھی اپنی سوانح حیات''My Life‘‘ میں لکھتے ہیں کہ پڑھائی کے دوران گھر والوں سے پیسے ملنا بند ہوگئے تو پیٹ پالنے کیلئے تین تین نوکریاں کرنا پڑیں مگر ہمت نہ ہاری۔اسی طرح چین کے سابق انقلابی صدر Deng Xiaoping اپنی کتاب ''Selected Works of Deng Xiaping‘‘میں لکھتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے چین کے بہتر معاشی مستقل کی خاطر روایتی کمیونسٹ نظریات کو توڑتے ہوئے فری اکانومی کا نظام رائج کیا اور اصلاحات کیں۔
یقین نہیں آتا‘ کیا سربراہانِ مملکت ایسے بھی ہوتے ہیں؟بے لوث‘ بے غرض‘ خدمتگار‘ محنتی اور نیک نیت‘ کیونکہ ہم نے تو آزادی سے لے کر آج تک اپنے حکمرانوں کو فقط عیش و آرام کرتے دیکھا ہے۔ان بادشاہوں کو سینکڑوں ایکڑ پر پھیلے محلات میں شاہانہ قیام کرتے اور اَنا کے نشے میں چوردیکھا ہے۔ ایک بات وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان حقیقی اور قائدانہ خصوصیات کے حامل لیڈر سے محروم رہا ہے۔یکے بعد دیگرے آنے والے نام نہاد قائدین نے قیادت میں فقط شخصی اور خاندانی آمریت قائم کی‘قوم کو انتشار کا شکار کیااور عوام کو لسانی ‘مذہبی اورعلاقائی تعصبات سے تقسیم کیا۔ نعرے تو سب نے بڑے بڑے لگائے مگر یہ کھوکھلے نعرے عوام کو کچھ نہ دے سکے۔ہر دور میں لوٹ مار اوراقرباپروری کا بازار گرم رہا۔میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر بڑے صوبوں کی قیادت ایسے لوگوں کے سپرد کی گئی جن کی نہ کوئی تربیت تھی اور نہ کوئی تجربہ۔ انہی کرپٹ حکمرانوں کے باعث ہماری قوم خیرو شر اور نفع و نقصان کی سوجھ بوجھ سے عاری ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ جیسے عوام ویسے حکمران ‘ مگر پاکستان کے تناظر میں یہ کہنا بجا ہے کہ جیسے حکمران ویسے عوام۔اس طرح آج پاکستان 23 کروڑ کے لگ بھگ نفوس کے ساتھ دنیا کا پانچواں گنجان آباد ملک ہے مگر ہمارے حکمران اس سنگین چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی عمل میں نہ لا سکے۔ماضی میں جو چند کوششیں ہوئیں وہ بھی سودمند ثابت نہ ہوسکیں۔ ملک میں سال بہ سال ان پڑھوں کی فوجیں اکٹھی ہوتی گئیں جن کو جو چاہے اُکسا کر اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔آج جو انتہا پسندی ہم اپنے اردگرد دیکھ رہے ہیں یہ اسی کا شاخسانہ ہے‘ جبکہ ریاستی رِٹ سیاسی سمجھوتوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔جتھے سڑکوں گلیوں میں خوف کی علامت بن چکے ہیں اور عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہے۔گویا ہمارے مفاد پرست حکمران ہی ملک کو اندھیر نگری میں دھکیلنے اور ہمارا سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی کلچر تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ان کی نیت سے لے کر عمل تک‘ منصب سے لے کر مقصد تک‘ ہر ایک شے جھوٹ‘ دھوکہ اور فریب سے بڑھ کر کچھ نہیں۔نہ انہیں گرفت میں لایا جا سکتا ہے‘ نہ کوئی روک سکتا اور نہ ہی کوئی بدل سکتا ہے‘اور اب اصل پریشانی یہ ہے کہ قیادت جیسا عظیم رتبہ ان مفاد پرستوں کے بعد ان کے نالائق شہزادوں اور شہزادیوں کے ہاتھوں میں جاتا دکھائی دے رہا ہے جن میں قیادت کی نہ سمجھ ہے نہ اہلیت۔ آج اگر ان شہزادوں اور شہزادیوں کا امتحان لیا جائے تو شاید کسی محکمے میں کلرک بھی بھرتی نہ ہوسکیں۔
جمہوریت تو عوامی بالادستی کا نظام ہوتا ہے‘ مگر ایسی جمہوریت جس میں غریب عوام کو دو وقت کی روٹی بھی بہ آسانی نصیب نہ ہو‘ اقتدار عوام تک پہنچنے کے بجائے چند خاندانوں کے بیچ تقسیم ہوتا ہو‘ قانون کی حکمرانی کہیں نظر نہ آتی ہو‘ لوٹ مار سر عام ہو‘ ادارے نااہلی کی منہ بولتی تصویر بن چکے ہوں اور نام نہاد قائدین کا مشن پارلیمان میں عوامی فلاح و بہبود کی قانون سازی کے بجائے مالی فوائد‘ کرپشن اور ذاتی کاروبار کیلئے ترقیاتی فنڈز کا حصول ہو‘ ایسے حالات میں بہتری کی کیا امید کی جا سکتی ہے؟ہمارا سیاسی نظام تو فقط پچاس ‘سو لوگوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے بنا ہے‘ جنہوں نے عام آدمی کو آج تک کچھ ڈلیور نہ کیا‘ البتہ قیادت کی آڑ میں ذاتی جائیدادیں خوب بنالیں۔ ان مفاد پرستوں کا سیاست میں بھی غلبہ ہے اور معیشت پر بھی‘ جن کے بغیر اس ملک میں نہ کوئی صنعت لگ سکتی ہے‘ نہ کوئی کاروبار ہو سکتا ہے‘ نہ سیاست چل سکتی ہے اور نہ ہی ریاست کو چلنے دیا جاتا ہے۔ جس طرح افغانستان کو 50 سالہ جنگ میں ملنے والے اربوں ڈالرز کا استعمال آج ایک سوالیہ نشان ہے‘ ٹھیک ویسے ہی پاکستان میں آنے والے اربوں ڈالرز کے قرضے‘ جن کے باعث آج ہر پاکستانی قریب دو لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے‘ کا قابل ذکر حصہ مفاد پرست حکمرانوں کی کرپشن کی نذر ہوکر ملک سے باہر محلات اور جائیدادیں بنانے اور اکاؤنٹس بھرنے میں استعمال ہوا۔
آج دنیا بھر میں سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ جیسے ہمسایہ ملک بھارت میں الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ یوگندرا کمار جسوال بنام سٹیٹ آف بہار جیسے مقدمے کے تاریخی فیصلے کے ذریعے کرپشن‘ لوٹ مارا ور دیگر جرائم میں ملوث افراد کا سیاست میں داخلہ روکنے کیلئے ٹھوس قانونی اقدامات کر رہی ہے؛ چنانچہ ہمارے آئین میں بھی آرٹیکل 62 اور 63 کی شقیں تو موجود ہیں‘ جن سے سیاست کی کالی بھیڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہے‘ مگر شاید موجودہ نظام میں طاقتور اور بااثر سیاسی طبقہ ان قوانین سے مستثنیٰ دکھائی دیتا ہے؛ چنانچہ جب تک ہمیں کوئی ایسی اہل قیادت نصیب نہیں ہوتی جس میں ملک و قوم کی خدمت کرنے کی بصیرت بھی ہو‘ لگن بھی اور ہمت بھی‘ جو ذاتی مفاد کے بجائے ریاستی مفاد کا سوچے‘ تب تک یہاں نہ گورننس کی صورتحال بہتر ہوگی‘ نہ معیشت بڑھے گی اور نہ ہی سروس ڈلیوری ممکن ہو سکے گی۔