"MEC" (space) message & send to 7575

اختیارات کی مرکزیت اور ذمہ داریوں کا فقدان

قدیم زمانوں اور قرون وسطیٰ میں سلطنت کے تمام اختیارات کا سرچشمہ بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ وہی ہر چیز پر حاکم تھے‘ چرچ اور معبد بھی اسی نظام کا حصہ تھے۔ تب کے عوام کی بنیادی ذمہ داری فقط بادشاہوں کی غیرمشروط غلامی ہوا کرتی تھی‘ مگر وقت کے ساتھ شعوراور ترقی کا دور شروع ہوا اورآزادانہ سوچ کے حامل فلاسفروں (Libertarians) نے تصورِ حکمرانی کو بدلا‘ جس نے بنیادی عوامی حقوق کی فراہمی اور اختیارات کی منتقلی کی سوچ کو جنم دیا۔ فرانسیسی فلاسفر مونٹیسکو نے سب سے پہلے اپنی کتاب The Spirit of Laws میں ریاستی اختیارات کو تین بنیادی ستونوں میں تقسیم کرنے کا فلسفہ پیش کیا‘ جنہیں بعد میں عملی جامہ پہناتے ہوئے ریاست میں قانون سازی‘ انتظامی اور عدالتی فرائض کو بروئے کار لایا گیااور تمام اداروں کی حدود و قیود وضع کی گئیں۔ اختیارات کی تقسیم کا مقصد ریاستی اداروں کی ذمہ داریوں کو متوازن رکھنا ہوتا ہے تاکہ اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکا جا سکے‘ ہر ادارہ اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہو‘ سب میں احساس ذمہ داری ہو اور کوئی کسی پر غلبہ حاصل نہ کر سکے۔
کسی ریاست میں طرزِ حکمرانی بااختیار انتظامیہ کی گورننس پر منحصر ہوتی ہے‘ کیونکہ یہ ریاستی ستون مقننہ کے قوانین کو عملی شکل دینے‘ معاشرے میں منظم سوشل آرڈر کے قیام‘ امن و امان اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں گڈ گورننس کے حصول کیلئے انتظامی اختیارات کی عدم مرکزیت کی سعی کی گئی تھی۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے ذریعے برصغیر میں صوبوں کی انتظامی خود مختاری کی شروعات کی گئی۔ اسی طرح متعدد اختیارات ضلعی حکومتوں کو تفویض کر دیے گئے جیسا کہ ضلعی افسران کے پاس ضلع ناظم‘ ٹیکس کلکٹر‘ مجسٹریٹ اور پولیس کی سربراہی کے اختیارات ہوتے تھے۔ آزادی کے بعد پاکستان کو انتظامیہ کا یہی ٹھوس ڈھانچہ وراثت میں ملا‘ مگر 1970ء کے بعد سے اس انتظامی ڈھانچے پر ضربیں لگنا شروع ہو گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1400 سرکاری ملازمین کو زبردستی نوکری سے برخاست کر دیا گیا اور بیوروکریسی کو سیاستدانوں کے زیرنگیں کردیا گیا۔ بینظیر اور نواز شریف کے مختلف ادوار میں انتظامیہ کو دو سیاسی جماعتوں میں بدل دیا گیا جس سے افسران ریاستی خدمتگار کے بجائے سیاسی سہولت کار بن گئے اور تمام اختیارات مرکز میں چلے گئے۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں اختیارات کی منتقلی کی کوشش کی‘ مگرانہوں نے بھی عشروں سے چلے آرہے آزمودہ نظام کو ختم کرکے نیا نظام متعارف کرایا جو بعد میں تسلسل کے ساتھ چل بھی نہ سکا‘ گویا یہ Devolution بھی Demolition ثابت ہوئی۔
پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرتے کرتے وہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہوگئی جبکہ ضلعی حکومت کے اختیارات کم کرنے سے ملک میں گورننس کی بدحالی زور پکڑگئی۔ پنجاب میں شہباز شریف کے ادوار میں تو بدترین انتظامی آمریت قائم ہوئی‘ وہ اختیارات جو انتظامی افسران کے پاس ہونے چاہئیں‘ انہیں سی ایم سیکرٹریٹ بلکہ براہ راست وزیراعلیٰ کو منتقل کر دیا گیا۔ عہدے من پسند افراد کو بانٹے جانے لگے اور میرٹ کی جگہ مرضیاں چلنے لگیں‘ حتیٰ کہ انتظامیہ کے لیڈر چیف سیکرٹری کے پاس بھی کوئی اختیار نہ رہا۔ جن کی ذمہ داری حکومتی پالیسی پر عملدآمد کیلئے مؤثر اقدامات یقینی بنانا ہوتا ہے‘ ان کی حیثیت فقط چیف منسٹر سیکرٹریٹ کے ہیڈ کلرک کی رہ گئی‘ اور آج تو چیف سیکرٹری آفس پوسٹ آفس بن چکا ہے جہاں مواصلاتی احکامات پر پسند ناپسند کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر ہوتی ہے۔ بیوروکریسی کا ایسا کپتان جس کو اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں (افسران) کی تعیناتی تک کا اختیار نہ ہو‘ کیا کارکردگی دکھائے گا؟ اسی طرح شہباز شریف کے ادوار ہی میں مقامی حکومتوں کو کمزور کرتے ہوئے 56 کمپنیاں بھی بنائی گئیں۔ یہ کمپنیاں کوئی کمال تو نہ دکھا سکیں البتہ ان میں کرپشن کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔
اختیارات کی مرکزیت اور انتظامی آمریت قائم ہونے کا نتیجہ بیڈ گورننس کی صورت میں سامنے آیا۔ جب انتظامیہ سے اختیارات واپس لیے گئے تو گویا ذمہ داری کا عنصر بھی ختم ہو گیا۔ وہ ٹھوس انتظامی مشینری جو امن و امان یقینی بنانے کی ذمہ دار تھی‘ اس کے پاس آج نہ انتظامی فیصلے کرنے اور نہ پولیس کو استعمال کرنے کا اختیار ہے‘ جبکہ امریکہ اور برطانیہ سمیت پوری دنیا میں پولیس ضلعی‘ مقامی حکومتوں کے ماتحت ہوتی ہے۔ اسی طرح حکومت‘ جس کی ذمہ داری مفاد عامہ کیلئے قانون سازی کرنا ہے‘ روزمرہ کے انتظامی معاملات اور افسران کی اکھاڑ پچھاڑ میں الجھی رہتی ہے‘ حتیٰ کہ کچرے اور صفائی سے لیکر ڈینگی اور پولیو کی روک تھام جیسے معاملات پر بھی انتظامیہ نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ صاحب جوابدہ ہیں۔ ان میونسپل فنکشنز کو تو ضلعی حکومتوں کے اجلاس میں زیر بحث آنا چاہیے جو آج صوبائی کابینہ کے اجلاسوں کا موضوع بحث بنے ہوتے ہیں۔ الغرض ہمارے تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داریاں آپس میں الجھ چکی ہیں‘ نہ پولیس‘ نہ انتظامیہ اور نہ ہی حکومت کو اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کا علم ہے۔
بیڈ گورننس کی اس خلا کے بیچ ملک میں شدت پسندی‘ انتہا پسندی اور نسلی و لسانی گروہ بندی پروان چڑھتی جارہی ہے۔ جن جتھوں کے سامنے حکومت اور انتظامیہ بے بس دکھائی دیتی ہے‘ بالآخر انہیں قابو کرنے کیلئے کبھی رینجرز تو کبھی فوج کو بلانا پڑتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس یہ معاملات نمٹا سکتی ہے‘ مگر سویلین اداروں میں یہ معاملات سلجھانے کی نہ طاقت نظر آتی ہے اور نہ قوتِ ارادی۔ اسی طرح حکومت اور انتظامیہ کی کمزور گرفت کے باعث کراچی دہشت گردی اور لسانیت کا گڑھ بن گیا‘ جسے قابو کرنے کیلئے بھی رینجرز کو ہی آنا پڑا۔ نجانے کب تک ہم انتظامی معاملات میں عسکری اداروں کی مدد لیتے رہیں گے؟ رینجرز اور فوج تو انتہائی سنگین اور ہنگامی صورتحال میں ہی طلب کی جانی چاہیے مگر ہمارے ہاں تو یوں لگتا ہے کہ عسکری اداروں پر خارجی دفاع کے ساتھ ساتھ داخلی معاملات سنبھالنے کی ذمہ داری بھی عائد ہو چکی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ گورننس اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں۔ گورننس ریاست اور قوم کی بلاتفریق اور بلاامتیاز خدمت کا نام ہے جو ٹھوس میرٹ کی بنیاد پر کی جاتی ہے‘ جبکہ ہماری سیاست اور سیاستدانوں کی خدمت تو فقط ذاتی مفاد‘ حلقے کے مفاد اور ووٹروں کے مفاد تک محدود رہتی ہے؛ چنانچہ ان دو مختلف چیزوں کے ملاپ کا مقصد اختیارات کی مرکزیت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ ضلعی حکومتیں جو کبھی گڈ گورننس کی ذمہ دار ہوتی تھیں انکو آج فقط علامتی عہدہ بناکر ان کے اختیارات صوبائی حکومتیں حاصل کرچکی ہیں‘ جبکہ صوبوں میں ایسی قیادتیں بیٹھی ہیں جن میں نہ قابلیت ہے اور نہ انتظامی امور کا کوئی تجربہ۔ جنہیں بالواسطہ مرکز سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت بھی بڑے صوبوں کو ''وائیں ماڈل‘‘ کی طرز پر چلانا چاہتی ہے‘ جہاں اقدامات تو صوبے کریں مگر فیصلے اور اختیارات مرکز کے چلتے ہوں۔
مرکزی حکومت اپنی اولین ذمہ داریاں‘ جیسے معاشی منصوبوں کو کامیاب بنانا اور بین الاقوامی تعلقات مضبوط بنانا‘ پوری کرنے میں تو خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکی مگر اختیارات کے لالچ میں صوبوں پر بخوشی قبضہ جمالیا۔ اسی طرح صوبائی حکومتیں بھی گڈ گورننس کی مؤثر پالیسیاں بنانے میں ناکام رہیں‘ مگر اپنے سیاسی دوام کی خاطر ضلعی حکومتوں کے اختیارات خود سنبھال لیے۔ اختیارات کی اس ہوس میں آج ملک انتظامی مسائل کی دلدل میں دھنس چکا ہے‘ جہاں صوبائی خود مختاری اور جمہوری اطوار کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ اختیارات اور ذمہ داریوں کی تقسیم کے تعین کیلئے دوبارہ سوچ بچارکی جائے اور تمام اداروں اور مجاز افسران کو قانون کے وضع کردہ اختیارات اور ذمہ داریاں منتقل کی جائیں‘ تب ہی ملک میں بہتری کی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں