نوآبادیاتی دور میں گڈ گورننس کے حصول کیلئے انتظامی اختیارات ضلعی سطح تک تفویض کئے گئے تھے تاکہ عام آدمی کے مسائل نچلی سطح پر ہی حل ہوجائیں‘ جبکہ پولیس ایکٹ 1861ء کے تحت ضلعی حکومتوں کے ماتحت قابل اور بارعب پولیس فورس امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار ہوا کرتی تھی۔ مسعود مفتی کی کتاب ''دو مینار‘‘ میں لکھا ہے کہ تب کا سرکاری فرمان پتھر پر لکیر تصور ہوتا تھا اور بااختیار سرکاری مشینری 'ریاستی رٹ‘قائم کرنے کیلئے کچھ بھی کر گزرتی تھی۔ نامور ایڈمنسٹریٹر اور مصنف سرایڈورڈ پینڈرل مون بھی اپنی کتاب Strangers in India میں لکھتے ہیں کہ نوآبادیاتی دور کا انتظامی ڈھانچہ اور نظام برصغیر کیلئے نہایت موزوں ہے‘ انہوں نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ یہاں جمہوریت کی کامیابی مشکل نظر آتی ہے کیونکہ عوام کی اکثریت جمہوریت کے حقیقی معنی سے واقف ہی نہیں۔ اسی دور میں عوام کی اخلاقی تربیت کیلئے تعلیم وتدریس کو فوقیت دی گئی۔ ہمارے معروف سکولز‘ کالجز اور جامعات جو آج بھی ہمارا سرمایہ ہیں‘ تب ہی تعمیر ہوئے تھے۔ ہماری پختہ سڑکوں سے لیکر ریلوے کے وسیع جال تک‘ بہترین نظام آبپاشی سے لیکر سیوریج کے نظام تک‘ قانون کی حکمرانی سے لیکر نظام ِمحصولات تک سب اُسی دور کا مرہون منت ہے۔
افسوس کہ گورننس کا وہ مضبوط نظام جو ہمیں وراثت میں ملا تھا‘ برقرار نہ رکھا گیا اور بتدریج ہمارے ملک میں انتظامی بدحالی بڑھتی گئی۔ آج نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ انتظامیہ بے بس دکھائی دیتی ہے‘ پولیس ناکارہ ہوگئی ہے‘ مافیاز غالب آچکے ہیں اور سروس ڈلیوری اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔ حال ہی میں معروف سیاحتی مقام مری میں پیش آنے والا سانحہ یقینا ہمارے نظامِ حکمرانی کے منہ پر زوردار طمانچہ تھا۔ برف باری کا لطف لینے کیلئے جانے والے ہزاروں خاندانوں کا موت کے منہ میں پھنس جانا اور درجنوں افراد کی اندوہناک موت ہماری سفاکیت کی انتہا‘ ناکامی و نامرادی کی المناک داستان اور حکام و سرکاری مشینری کی بے بسی اور غیرذمہ داری کا ثبوت ہے۔ موسمی انتباہ‘ بے ہنگم ہجوم کی اطلاعات اور سوشل میڈیا کے ذریعے امداد کی اپیل کے باوجود یہ حادثہ کیسے پیش آگیا؟ بلاشبہ اس کی ذمہ داری انتظامی اداروں پر عائد ہوتی ہے جو ٹس سے مس نہ ہوئے‘ نہ کسی خطرے کا ادراک کیا گیا‘ نہ کسی حفاظتی اقدام کی ضرورت محسوس کی گئی‘ بلکہ ہرکسی نے ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالے رکھی اور حرکت میں آنے کیلئے اپنے بڑوں کے احکامات کے منتظر رہے۔ انہی غفلتوں نے نہ صرف عوامی حلقوں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہماری بدترین گورننس کا پول بھی کھول دیا۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ سانحہ ہو جانے کے بعد بھی ہماری جمہوری حکومت اور سویلین ادارے بے بس دکھائی دیئے اور ہر بار کی طرح اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے عسکری اداروں کی مدد لینا پڑی۔ حکومت نے جو ایکشن لیے وہ یہ کہ مری کا نام تبدیل کر دیا اور اسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا اور ایک نئی اتھارٹی قائم کر دی گئی۔
یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا حکومت کے کئے گئے اقدامات سے گورننس بہتر ہو جائے گی؟ خدشہ ہے کہ قائم ہونے والی نئی اتھارٹی بھی حکومت کی دیگراتھارٹیوں کی طرح برائے نام رہے گی‘ جبکہ مری کو ضلع بنانے سے بھی انتظامی مسائل کا حل ہونا مشکل نظر آتا ہے‘ کیونکہ یہاں آج ضلعی حکومتوں کی جو حیثیت باقی رہ گئی ہے وہ سب جانتے ہیں۔ چند عشرے پہلے ضلعی حکومتیں بااختیار تھیں‘ جن کا تعلق ان کی حدود میں آنے والے تقریباً تمام محکموں کے ساتھ ہوتا تھا اوران کی بالادستی قبول بھی ہوتی تھی۔ ضلعی افسران اپنی صوابدید کے مطابق ریاستی معاملات میں فیصلہ کن کردار اداکرتے تھے۔ کریمنل پروسیجر کوڈ (CRPC) جو ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے‘ پر ٹھوس عملدرآمد کرتے ہوئے علاقہ مجسٹر یٹ اور مقامی ایس ایچ او مل کر قانون کی حکمرانی اور امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ مجسٹر یٹ کی حکمت عملی اور پولیس کی قوت سے عوامی مسائل حل ہوتے تھے اور سروس ڈلیوری ہوتی تھی۔ مجسٹر یٹ بطور عوامی شخصیت ہر طرح کے طبقے کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتا تھا اور عام بندے کے چھوٹے موٹے مسائل نچلی سطح پر ہی حل ہو جاتے تھے۔ اسی طرح ملاوٹ کے کیسز‘ منشیات کے معمولی مقدمات اور انتظامی مقدمات کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی ضلعی مجسٹریٹس کے پاس ہی تھا۔ گویا انتظامی مجسٹریسی سے پولیس اور عدلیہ کی معاونت ہورہی تھی‘ مگر مشرف دور میں CRPC کے باب اول کی شق13 میں ترمیم کرکے انتظامی مجسٹر یسی کا نظام ہی سرے سے ختم کر دیا گیا‘ حالانکہ اس نظام کے تحت ضلعی مجسٹریٹ جو مقدمات دیکھتا تھا وہ خالصتاً انتظامی نوعیت کے سمری کیسزیا Violation and Licensing کے مقدمات ہوتے تھے جبکہ اپیلوں کا اختیار عدلیہ کے پاس ہی تھا‘ مگرانتظامیہ سے انتظامی مقدمات کا اختیار بھی عدلیہ کو سونپ دیا گیا جس سے عدالتوں پر بوجھ بڑھا اور کارکردگی متاثر ہوئی۔ 2020 میں حکومت نے ڈویژن و ضلعی انتظامی افسران کو CRPC کی شق 14 A کے مطابق سپیشل مجسٹریٹ کے چند اختیارات واپس دینے کی کوشش تو کی مگر اس پر فوراً ایکشن لیا گیا جس پر چیف سیکرٹری کو عدالت سے غیرمشروط معافی مانگنا پڑی تھی۔
کوئی شک نہیں کہ ریاست کی طاقت کا تین ستونوں میں تقسیم ہونا خوش آئند ہے‘ مگر گڈ گورننس کا تقاضا یہ ہے کہ انتظامی نوعیت کے معاملات انتظامیہ کے دائرہ اختیار میں رہیں‘ جس طرح پوری دنیا میں میونسپل مجسٹر یسی اور میونسپل پولیس کام کرتی ہے‘ جو لوکل اینڈ سپیشل لاز پرعملدرآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ کارروائی کا بھی مکمل اختیار رکھتی ہے۔اسی طرح وہ ممالک جہاں کے عوام کم تعلیم یافتہ ہیں وہاں بھی گڈ گورننس کیلئے انتظامیہ کے دائرہ اختیار کو وسیع رکھا جاتا ہے‘ اس کے برعکس ہماری انتظامیہ ہے جو تجاوزات کے خاتمے تک میں بے بس دکھائی دیتی ہے اور اس میں بھی کارروائی کا اختیار پولیس جبکہ سزا کا اختیارعدلیہ کے پاس ہے اور یوں لگتا ہے کہ انتظامیہ فقط نشاندہی کی حد تک رہ چکی ہے۔ اسی طرح امن و امان کی بحالی مثلاً دھرنوں یا سڑکوں کی بندش سے نمٹنے میں بھی انتظامیہ کے پاس کوئی فعال اختیار نظر نہیں آتا اورتمام ذمہ داری پولیس پر عائد ہو چکی ہے‘ جو اتنی مادر پدرآزاد ہے کہ ضلعی حکومت کو کسی بات پر جوابدہ نہیں‘ حالانکہ پوری دنیا میں پولیس ضلعی یا مقامی حکومتوں کے ماتحت ہی ہوتی ہے‘ جیسا کہ نیویارک پولیس کا سربراہ اور لندن پولیس کا کمشنر‘ دونوں اپنے میئرز کے ماتحت ہیں اور انہی کو جوابدہ ہیں‘ مگر نجانے ہماری پولیس کس آزادی کی متلاشی ہے؟ جو خودکچھ کر بھی نہیں پاتی اور ہنگامی صورتحال میں بالآخر عسکری ادارے ہی کردار نبھاتے ہیں‘ جیسا کہ حال ہی میں مذہبی جماعت کا دھرنا ہوا تو اس میں بھی پولیس مکمل فیل نظر آئی اور عسکری اداروں نے معاملات کو سنبھالا۔ اگراس وقت ضلعی انتظامیہ لاء اینڈ آرڈر کا حصہ ہوتی تو یقینا حالات اس نہج تک نہ پہنچتے۔
اختیارات کی جنگ نے ملک کو بدنظمی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ہر ادارہ بس اختیارات چاہتا ہے‘ ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں۔ آج صوبوں اور ضلعوں میں نہ کوئی ٹھوس انتظامی ڈھانچہ اور نہ مؤثر انتظامی نظام نظرآتا ہے۔ ہرضلع میں ہزاروں سرکاری اہلکار ہونے کے باوجود کوئی کارکردگی نہیں۔ گورننس کے معمولی سے معمولی معاملات بھی آئے روز قابو سے باہر ہوجاتے ہیں‘ ریاستی رٹ قائم رکھنا سرکار کیلئے درد سر بن چکا ہے اور اسی غیریقینی کے باعث عوام اور ریاست کے درمیان عدم اعتماد کا خلا بڑھتا جارہا ہے۔ گویا اس نظام کے رہتے ہوئے گورننس کی بہتری دیوانے کا خواب ہے۔ افسوس کہ مری سانحے کی پاداش میں بھی روایتی طریقہ اپناتے ہوئے 13 سرکاری افسران کو معطل کردیا گیا‘ مگر اب وقت آچکا ہے کہ آنکھیں کھول لی جائیں اوراس حقیقت کو مان لیا جائے کہ تبدیلی چہرے بدلنے سے نہیں‘ نظام بدلنے سے آئے گی ۔