"MEC" (space) message & send to 7575

منصفانہ انتخابات‘ ٹیکنالوجی اور محاذ آرائی

جمہوریت شفاف انتخابات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے‘ آئین پاکستان کی شق 218 (3) کے مطابق ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں‘کیونکہ اسی ادارے کی بدولت پارلیمنٹ‘ صوبائی و بلدیاتی حکومتیں وجود میں آتی ہیں۔مگر افسوس کہ پاکستان میں ماسوائے 1970ء کے کوئی انتخابات غیر متنازع نہیں رہے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 8‘ 10 اور 126 کے تحت کمیشن کو ملنے والے صوابدیدی اختیارات اور آئین کی شق 213 کے تحت عدلیہ اور سول سروسز سے ملنے والے ریٹائرڈ تجربہ کار سربراہان کے باوجود ملک کے تمام چھوٹے بڑے انتخابی معرکوں میں ہمیشہ دھاندلی اور جعل سازی کا شورو غوغا رہا ہے جو اس مضبوط اور بااختیار ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ ناقص کارکردگی نہیں تو اور کیا ہے کہ 1956ء سے قائم شدہ الیکشن کمیشن نہ آج تک کوئی آزادانہ انتخاب کروا سکا نہ سیاسی جماعتوں میں نظم و ضبط لا سکا‘ نہ انتخابات میں پیسوں کی ریل پیل کو روک سکا اور نہ ہی انتخابی عمل میں کوئی جدت لا سکا۔ 2018ء کے انتخابات میں بڑے دعووں اور اعتماد کے ساتھ انتخابی نتائج کیلئے آر ٹی ایس سسٹم متعارف کروایا گیا تھا جو عین موقع پر فلاپ ہوگیا۔ اسی طرح ہمارے الیکشن ٹربیونلز کی حالتِ زار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ الیکشن ایکٹ کی شق 141 کے تحت ان ٹربیونلز کے پاس سول عدالتوں کے اختیارات موجود ہیں مگر پھر بھی اپیلوں کی سماعت میں تاخیر کا کلچر عام ہے‘ اگلے انتخابات آجاتے ہیں اور گزشتہ انتخابات کی شکایات زیرالتوا رہتی ہیں۔ اس کے برعکس کامیاب انتخابی کارکردگی دکھانے والے بھارتی الیکشن کمیشن کی درخواست کے باوجود انہیں ہمارے الیکشن کمیشن کی طرح عدالتی اختیارات نہیں مل سکے۔
ملک میں طویل عرصے سے زیر بحث انتخابی اصلاحات کو تبدیلی سرکار الیکشن ترمیمی بل 2021 ء کی صورت میں عملی طور پر سامنے لے کر آئی۔ اس بل کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017ء میں جو نمایاں تبدیلیاں لائی گئیں ان میں عام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے کروانا‘ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا‘ انتخابی فہرستوں کے اختیارات نادرا کو تفویض کرنا اور حلقہ بندیاں آبادی کے بجائے ووٹروں کی تعداد پر کرنا شامل ہیں۔ ترامیم کے بعد ملک میں تین نظریات واضح طور پر سامنے آچکے ہیں‘ ایک حکومتی نظریہ ہے جو انتخابات کی شفافیت کیلئے یہ تبدیلیاں لانے میں سنجیدہ دکھائی دیتا ہے‘ دوسرا نظریہ اپوزیشن کا ہے جو ان تبدیلیوں کو انتخابی انجینئر نگ کے آلہ کار کے طور پر دیکھتی ہے‘ جبکہ تیسرا نظریہ الیکشن کمیشن کا ہے‘ جس کواعتراض ہے کہ یہ تبدیلیاں غیرحقیقی اورنا قابلِ عمل ہیں‘ جن کے ذریعے کمیشن کے اختیارات کو محدود کیا گیا ہے۔ آئیے ان تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہیں:
الیکشن ایکٹ کی شق 103( بعد از ترمیم) کے مطابق الیکشن کمیشن عام انتخابات تک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوںکا حصول یقینی بنائے گا۔ اس وقت دنیا میں الیکٹرانک ووٹنگ کے تین ماڈلز چل رہے ہیں‘ ایک ماڈل پیپر بیسڈ ای ووٹنگ ہے‘ جس میں ووٹر کاغذ پر مخصوص سیاہی کے ساتھ اپنا ووٹ ڈالتا ہے جبکہ گنتی الیکٹرانک ہوتی ہے۔ دوسرا ماڈل آن لائن ووٹنگ ہے‘ جس میں ووٹرز ایک مخصوص ویب سائٹ پر جا کر انٹرنیٹ کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں جبکہ تیسرا ماڈل ڈائریکٹ ریکارڈنگ ای ووٹنگ ہے‘ جس میں ووٹر کی شناخت‘ ووٹ کاسٹنگ اور ووٹ بیلٹنگ تک تمام عمل الیکٹرانک ہوتا ہے اور آخر میں ووٹر ایک رسید حاصل کرتا ہے۔متعدد ممالک میں اس ماڈل کی کامیابی کے بعد پاکستان میں بھی یہی ماڈل رائج کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بلاشبہ الیکٹرانک ووٹنگ کا آغاز الیکشن کمیشن کیلئے مشکل مرحلہ ضرور ہے‘ کیونکہ نئی مشینوں کی خریداری اور انسٹال منٹ کیلئے لگ بھگ 150 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘ عملے کی ٹریننگ درکار ہے‘ جبکہ ووٹروں کی رازداری اور ووٹنگ کے عمل کو آئینی تحفظ دینے کیلئے شاید آئین کی شق 218 اور 226 میں ترامیم بھی کرنا پڑیں‘ مگر ان وجوہات کی بنا پر اس جدید ٹیکنالوجی سے انحراف ہر گز نہیں کیا جا سکتاکیونکہ ہمارا موجودہ انتخابی عمل منصفانہ الیکشن کرانے میں فیل ہو چکا ہے‘ جس میں مردم شماری‘ ووٹرلسٹوں کی تیاری‘ پریذائیڈنگ افسر و انتخابی عملے کی تعیناتی سے لے کر انتخابی نتائج کے اعلان تک سب کچھ حکومتی اور بااثر اداروں کی مرضی و منشا کے مطابق ہوتا ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ایسا طریقہ کار یا مواصلاتی نظام موجود نہیں جس سے وہ ہر پولنگ اسٹیشن کی مانیٹرنگ کرتے ہوئے مینوئل انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنا سکے۔ کوئی شک نہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے بھی انتخابات پر اثر اندازی ممکن ہے مگر ان خامیوں کو دور کرنا ہی تو اصل چیلنج ہے جو کہ مشترکہ کوششوں‘ اصلاحاتی مباحثوں اور نیک نیتی سے دور ہو سکتی ہیں۔ ویسے بھی اگر انتخابات میں دھاندلی‘ چھیڑ چھاڑ یا ٹیمپرنگ ہوتی ہے تو الیکشن ایکٹ کی شق (3)55 کے تحت کمیشن کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ ملکی سروس میں موجود کسی بھی سرکاری عہدیدار کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔
انتخابی فہرستوں کی بات کریں تو الیکشن ایکٹ کی شق 24‘ 26‘ 28 سے 34‘ 36 اور 44 کو حذف کر کے‘ شق 25 میں ترمیم کے بعد فہرستوں کے اختیارات نادرا کو تفویض کر دیے گئے ہیں‘ جس پر الیکشن کمیشن خاصا خفا دکھائی دیتا ہے مگر اصل میں یہ اقدام کمیشن کی معاونت کیلئے ہی کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح آئین کی شق 220 حکم دیتی ہے کہ وفاق اور صوبوں کے انتظامی ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کریں گے اور الیکشن ایکٹ کی شق 152 کہتی ہے کہ ٹربیونلز میں ایڈووکیٹ جنرل بھی کمیشن کی معاونت کرے گا‘ ٹھیک اسی طرح نادرا کا کردار بھی معاونت کی حد تک ہے؛چنانچہ اداروں کی محاذ آرائی کے بجائے مذکورہ تبدیلی کو اس مثبت نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اسی طرح الیکشن ایکٹ کی شق 17 میں ترمیم کے بعد حلقہ بندیاں آبادی کے بجائے ووٹروں کی تعداد پر کی جائیں گی‘ بادی النظر میں یہ اقدام خوش آئند ہے‘ کیونکہ پاکستان میں مردم شماری ہمیشہ ہی سے متنازع رہی ہے جس کا فائدہ بعض اوقات مفاد پرست سیاستدان انتخابات میں بخوبی اٹھا تے ہیں۔ اسی طرح ایکٹ کی شق 94(1) میں ترمیم کر کے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے‘ اس عمل پر بھی کسی محب وطن پاکستانی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے‘ کیونکہ ماہانہ دو ارب ڈالر ترسیلاتِ زر کی بدولت ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہے‘ لہٰذا بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ان کے حقوق اور اختیارات سے محروم نہیں رکھاجاسکتا۔
انتخابی اصلاحات قومی ہم آہنگی‘ مشترکہ مفادات‘ اور اجتماعی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہیں‘ مگر افسوس کہ اس اہم ترین معاملے پر ہمارے درمیان ٹھوس سیاسی و مفاداتی تقسیم پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ حکومت‘ جس کی ذمہ داری سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے‘ کے وزرا نے الیکشن کمیشن پر اپوزیشن سے گٹھ جوڑ اور پیسوں کے لین دین جیسے الزامات لگائے‘ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے بھی جواب دیا‘ جبکہ یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سیاستدان تو ہمیشہ ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں لیکن بطور ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کو ایسے حالات میں ذاتی مفاد اور اَنا سے بڑھ کر ملکی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھناچاہیے اور محاذ آرائی کے بجائے ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کی معاونت کرنی چاہیے۔ رہی بات میثاق جمہویت والوں کی تو وہ سالوں سے چلے آئے روایتی انتخابی نظام کو ہی سود مند سمجھتے ہیں‘ وہ تبدیلی کے خواہشمند نہیں۔ مگر آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پرچیوں‘ ٹھپوں‘ ڈبوں اور پریزائڈنگ افسروں کے گورکھ دھندے سے نکل کر ٹیکنالوجی کی طرف جائیں اور یہ خواب شرمندہ تعبیر کرنا نہ اکیلی حکومت کا کام ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کابلکہ تمام ریاستی اداروں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلاشبہ تبدیلی ایک دن میں نہیں آئے گی‘ مگر بہتری کی جانب پہلا قدم تو بڑھانا ہی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں