"MEC" (space) message & send to 7575

تبدیلی کا سراب

جمہوریت ایک آزاد سیاسی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے اور 'عوامی شمولیت و بالادستی‘ کا نظام ہے، جس کی اصل روح یہ ہے کہ اقتدار عوام تک منتقل ہو، مگر ہمارے جمہوری ادوار میں اقتدار کبھی نچلی سطح تک پہنچ ہی نہ سکا۔ نہ یہاں کبھی خود مختار مقامی حکومتیں قائم ہو سکیں‘ جن کی تائید ہمارے آئین کا آرٹیکل 140 کرتا ہے، نہ مثالی گورننس اور سروس ڈلیوری کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکا۔ نہ ہمارے عوام کو سیاسی شعور و نمائندگی حاصل ہوئی اور نہ ہی انہیں معاشی دھارے میں شامل کیا گیا۔ آج بھی ہمارے بینکوں‘ جن کا معاشی ترقی میں کلیدی کردار ہوتا ہے، کے کل سرمائے میں عام آدمی اور چھوٹے و درمیانے کاروبار کے لیے فقط 5 فیصد حصہ ہے، جبکہ 95 فیصد سرکار اور بڑے صنعت کاروں کے لیے ہے۔
جمہوریت شفاف انتخابات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے، مگر ہمارے ہاں بااختیار الیکشن کمیشن ہونے کے باوجود آج تک کوئی انتخابات غیر متنازعہ نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند ہی خاندان بار بار برسر اقتدار آتے رہے، جنہوں نے ملک کو ذاتی وراثت سمجھ کر مختلف صوبوں پر اپنی اجارہ داری قائم کی۔ سندھ اور پنجاب‘ جہاں دو جماعتوں کی ملکیت سمجھے جانے لگے وہیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی رجعت پسندوں اور قبائلی سرداروں کا راج رہا۔ ان شہنشاہوں نے سالوں ملکی خزانے کو لوٹا اور پھر موروثیت کی روایت برقرار رکھتے ہوئے لوٹ مار کی تمام ذمہ داریاں اپنے شہزادوں اور شہزادیوں کے سپرد کر دیں، جن کے پاس نہ کوئی تعلیم ہے اور نہ کوئی اہلیت۔ یہاں تک ہی نہیں بلکہ ان مفاد پرست حکمرانوں نے اپنے ساتھ عوام اور معاشرے کو بھی کرپشن کے کینسر میں مبتلا کر دیا۔ پورے معاشرے میںOvernight Riches اور Quick Money کی سوچ نے ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا اور بدعنوانی ملکی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹنے لگی۔
پھر کرپشن، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور افلاس کے اس گھٹن زدہ ماحول سے بیزار نوجوان نسل اور سول سوسائٹی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، اور اس نے موروثیت کو 'نو مور‘ کہتے ہوئے تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے پر اعتماد اور اعتبار کیا۔ عمران خان نے آتے ہی معاشی انقلاب، زرعی ترقی، سماجی خوشحالی، کڑے انصاف، گڈ گورننس، غربت کے خاتمے، 1 کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں جیسے دلفریب وعدوں سے خواص و عوام کے دل جیت لیے‘ مگر افسوس! سیاسی مجبوریاں تبدیلی کے اس عظیم مشن کے حصول کے آڑے آ گئیں۔ الیکٹیبلز کے نام پر مفاد پرست شخصیات دوبارہ سسٹم اور گورننس کا حصہ بن گئیں، جن کی معاونت اور بیساکھیوں کے ساتھ تحریک انصاف حکومت بنانے میں تو کامیاب ہو گئی مگر کرپشن کا کلچر ختم نہ ہو سکا۔ پچھلی حکومتوں میں تو مخصوص کرپشن تھی جس سے حکمران، انکے شہزادے اور سہولت کار مستفید ہوتے، جبکہ گورننس پر کمپرومائز نہیں کیا جاتا تھا، مگر موجودہ حکومت میں تو گورننس بھی نہیں اور کرپشن بھی Free For All ہو چکی ہے۔ الیکٹیبلز کے دباؤ سے بچنے کی کوشش میں بڑے صوبوں کی سیاسی و انتظامی قیادت عام اور ناتجربہ کار افراد کو سونپنے کا فارمولہ بھی بری طرح فلاپ ہوا، تین سالہ کارکردگی، طرزِ حکمرانی اور منصوبہ بندی مایوس کن رہی۔
پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو سب سے بڑا چیلنج معاشی تباہی تھا۔ 20 بلین ڈالر حساباتِ جاریہ کا خسارہ، کھربوں کا قرضہ اور دو ہفتوں کے باقی رہ جانیوالے ذخائر کے ساتھ حکومت کو مزید قرضہ مانگنے کیلئے دوست ممالک اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا مگر اس قرضے کی تمام تر سختیاں عام آدمی کو برداشت کرنا پڑیں۔ بنیادی سہولیات کی قیمتیں اور اشیا پر ٹیکس بڑھانے سے ملک میں مہنگائی کا ایسا طوفان امڈ آیا جو تین سالوں سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، جبکہ کورونا لاک ڈاؤن کے باعث معیشت کا پہیہ رک گیا، عالمی جی ڈی پی جہاں 5.6 فیصد تک سکڑ گیا، وہیں پاکستان کا جی ڈی پی بھی263 ارب ڈالر تک آ گیا۔ گردشی قرضے جو 1.1 کھرب تھے‘ تین سالوں میں 3 کھرب تک جا پہنچے ، لیکن حکومت آج تک کم ترین کرنٹ اکائونٹ ڈیفیسٹ کے سحر میں ہی مبتلا ہے۔ بیشک یہ خسارہ کم ہوا ہے، مگر اس کی وجہ برآمدات میں اضافہ نہیں بلکہ درآمدات کو گرانا اور محصولات کو بڑھانا ہے۔ برآمدات نہ بڑھنے کی وجہ سے ہی رواں مالی سال کے دوسرے مہینے میں تجارتی خسارے میں 133 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
گزشتہ تین سالوں سے گورننس کی ناقص صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انتظامیہ سے لے کر پولیس تک، صفائی سے مہنگائی تک، مقامی حکومت سے لے کر وفاقی حکومت تک، ہر طرف بدحالی ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو گڈ گورننس مستحکم مقامی حکومتوں سے مشروط ہوتی ہے، مگر ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ مقامی حکومتوں کو اپنے اقتدار کے دوام کیلئے استعمال کیا۔ تحریک انصاف‘ جس سے کچھ امیدیں وابسطہ تھیں، نے بھی پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کا جو نیا پیچیدہ، ناقابل فہم، ناقابل عمل نظام متعارف کرایا، یہ اقدام حکومتی نااہلی کا پول کھولنے کیلئے کافی ہے۔ دو قوانین پر مشتمل اس نظام میں آپسی ربط نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں حکومت کا بنیادی جزو انفورسمنٹ میکنزم اور اس کی سزاؤں کا تصور ہی پیش نہیں ہوا۔ اسی طرح نیبرہوڈ ایکٹ کا تصور انڈونیشیا سے لیا گیا، مگر وہ ملک تو چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جہاں یہ قانون قابل عمل ہے، پاکستان میں اس کو عملی جامہ پہنانا ناممکن نظر آتا ہے؛ چنانچہ زمینی حقائق سے لاتعلق اس نظام کے تحت اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو اس میں سروس ڈلیوری اور عوامی خدمت کی کوئی سکت موجود نہیں ہوگی۔
اسی طرح تحریک انصاف کا ملک کو پسندیدہ بیوروکریسی کے ذریعے چلانے کا ماڈل بھی عوام کو کچھ ڈلیور نہ کر پایا، کیونکہ تین سالوں سے بیوروکریسی میں میرٹ، اہلیت اور کارکردگی کو نظر انداز کرتے ہوئے نوازشات، سفارشات اور ذاتی پسند ناپسند کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلی بار ایسی حکومت دیکھی جس میں کلیدی انتظامی عہدوں کی خریدوفروخت کی خبریں زبان زد عام ہیں، اور باخبر اداروں کی نشاندہی کے باوجود اس سلسلے میں خاطرخواہ روک ٹوک نہ ہو سکی۔ جبکہ آئے روز بیوروکریسی پر اکھاڑ پچھاڑ کے حملوں نے افسران میں عدم تحفظ اور غیریقینی کیفیت بھی پیدا کر رکھی ہے۔ حال ہی میں تین سالوں میں پنجاب کے پانچویں چیف سیکرٹری اور ساتویں آئی جی کو تبدیل کیا گیا۔ شاید موجودہ حکمرانوں کی نظر میں گورننس یہی ہے کہ فلاں کو ہٹا دو اور فلاں کو لگا دو، جبکہ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گورننس چہرے بدلنے سے نہیں سوچ اور نظام بدلنے سے بہتر ہوتی ہے۔ اسی طرح ہماری پولیس کی بدحالی بھی الفاظ کی محتاج نہیں۔ پولیس عوامی اعتماد کھو کر آج خوف اور دہشت کی علامت بن چکی ہے۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے قبل پولیس میں اصلاحات لانے کے ان گنت وعدے کیے تھے، مگر گزشتہ تین سالوں میں سانحہ موٹروے سے لے کر حادثہ مینار پاکستان تک ہر جگہ پولیس کی نااہلی نظر آئی۔
وزیراعظم نے ملک میں شوگر مافیا، لینڈ مافیا اور سیاسی مافیاز کو قابو کرنے کی کوشش ضرور کی، مگر یہ بات جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ان کے پاس نہ کوئی مضبوط ٹیم ہے، نہ ٹھوس منصوبہ بندی اور نہ ہی حکومت بنانے و چلانے کی کوئی تربیت و تجربہ۔ عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد عام آدمی کی Empowerment اور خوشحالی کیلئے تھی، مگر ان کی حکومت عام آدمی کی زندگی نہ بدل سکی۔ بہرحال اب تحریک انصاف کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے ایک سال باقی بچا ہے، کیونکہ پانچواں سال ویسے ہی انتخابات کا سال ہوتا ہے۔ گویا تحریک انصاف کو اسی ایک سال میں ڈلیور کرنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ نظام دوبارہ انہی آزمائے ہوؤں کے ہاتھوں میں چلا جائے، اگر ایسا ہوا اور نااہل شہزادے اور شہزادیاں ہم پر قابض ہو گئے تو پھر اس گلشن کا خدا ہی حافظ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں