"MEC" (space) message & send to 7575

خزانے کی صفائی

دنیا میں دیہی زندگی سے شہری علاقوں کی جانب منتقلی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت دنیا کی تقریباً 50 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث شہری علاقوں کو جو مسائل درپیش ہیں‘ ان میں سب سے بڑا کوڑے کو تلف کرنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کوڑے کو تلف کرنے کا مربوط نظام موجود ہے‘ جس کے تحت یہ کام انسانی صحت اور ماحول کو منفی اثرات سے بچاتے ہوئے کیا جاتا ہے بلکہ تکنیکی طریقے سے اس کوڑے کے ذریعے بجلی، کھاد بنانے کے ساتھ ساتھ اسے صنعتی استعمال میں بھی لایا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی بات کی جائے تو کوڑے کو ختم کرنے کا نظام توکسی نہ کسی حد تک ان میں موجود ہے؛ لیکن وہ صحت اور ماحول پر منفی اثرات کے بغیر کوڑا تلف سے قاصر نظر آتا ہے۔ کوڑا تلفی کے مربوط نظام سے ترقی پذیر ممالک کے صرف نظر کرنے کی ایک وجہ ان ممالک کا مالی مسائل کا شکار ہونا بھی ہے۔
پاکستان میں بھی کوڑا تلف کرنے کا نظام موجود ہے جو مقامی حکومتوں کے تحت کام کرتا ہے‘ مگر عوامی صحت اور ماحول پر اثر انداز ہوئے بغیر کوڑا تلف کرنے کا مربوط نظام ماضی میں یہاں موجود نہیں تھا۔ اس نظام کے تحت دس ہزار ملازمین مقامی حکومت کی زیر نگرانی شہر کو صاف کر رہے تھے اور مربوط نظام نہ ہونے کے باوجود لاہور ایشیا کے صاف ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نظام کی خامی یہ تھی کہ کھلے آسماں تلے کوڑا تلف کرتے وقت عوام کی صحت اور ماحول پر اس کے مضر اثرات کو نہیں روکا جا سکتا تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے اور کوڑا تلف کرنے کے جدید مربوط نظام کو اپنانے کیلئے حکومت کی جانب سے 2009 میں پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) قائم کیا گیا۔ پی ایم یو کے اہداف میں صفائی کے نظام کو بہتر بنانے اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے مربوط نظام کو نافذ کرنے کے حوالے سے کام کرنے سمیت، ماہر افرادی قوت تیار کرنا، کچرا تلف کرنے کا ماحول دوست منصوبہ متعارف کرانا، تکنیکی مہارت فراہم کرنا، جدید اور سائنسی لینڈ فل سائٹس بنانا، نظام کو پائیدار اور نفع بخش بنانا اور اصلاحات تجویز کرنے سمیت دیگر اقدامات شامل تھے۔ پی ایم یو کو متحرک کرنے کے باوجود حکومتی حلقوں میں نئی کمپنیاں بنانے پر غور شروع کر دیا گیا۔
فروری 2010 میں ڈی سی او لاہور نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بنانے کے حوالے سے سمری اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوائی، جس کی 19 فروری 2010 کو سپیشل سیکرٹری خزانہ پنجاب اور 20 فروری کو سیکرٹری قانون اور چیف سیکرٹری نے سخت مخالفت کی تھی۔ ان افسران نے موقف اختیار کیا تھا کہ جس مقصد کے لیے کمپنی بنائی جا رہی ہے اس کیلئے پی ایم یو موجود ہے اور فنڈز بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔ اعلیٰ افسران کی سخت مخالفت کے باوجود وزیر اعلیٰ نے سمری منظور کر دی اور پھر وزیر اعلیٰ کے سیکرٹری نے 3 مارچ 2010 کو سمری واپس لوکل گورنمنٹ کو بھجوا دی‘ اور 19 مارچ 2010 کو کمپنی ایکٹ 1984 کے سیکشن 42 کے تحت لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی قائم کر دی گئی تھی۔ 
وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے دسمبر 2010 میں ایک ترک کمپنی کو کروڑوں روپے کے عوض 18 ماہ کیلئے کنسلٹنٹ مقرر کر لیا۔ یہاں سے ایک نئے کھیل کا آغاز ہوا۔ 25 جون 2011 کو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے درمیان سروسز اینڈ ویسٹ مینجمنٹ ایگریمنٹ (ساما) طے پایا‘ جس کے تحت اربوں روپے کے وسائل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کے حوالے کر دیئے۔ ان وسائل میں 10600 ملازمین، 500 گاڑیاں، 6 کسٹمائزڈ ورکشاپس، 50 ویسٹ انکلوژر، 3 ڈمپنگ سائٹس بھی شامل تھیں۔ لاہور سٹی گورنمنٹ کے وسائل 'ساما‘ معاہدے کے تحت لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے حوالے کرنے کے بعد ترک کمپنی نے حکومت کو کچرا اٹھانے کیلئے دو کمپنیاں آؤٹ سورس کرنے کا مشورہ دیا۔ جبکہ اخبار میں دئیے گئے اشتہار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مبینہ طور پر ٹینڈر میں ایسی شرائط رکھی گئیں‘ جن پر صرف غیر ملکی کمپنیاں البراک اور اوزپاک ہی پورا اترتی تھیں۔ اس طرح سارا عمل مکمل کرنے کے بعد 3 نومبر 2011 کو غیر ملکی کمپنیوں کو 320 ملین ڈالر یعنی پاکستانی 40 ارب روپے (موجودہ ڈالر کی قیمت کے اعتبار سے) میں 7 سال کیلئے شہر کا کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ دیدیا گیا۔ البراک کو 146 ملین ڈالر اور اوزپاک کو 174 ملین کا ٹھیکہ دیا گیا۔ ان معاہدوں کے دلچسپ نکات سامنے آئے ہیں۔ رقم کی ادائیگی میں بھی غیر ملکی کمپنیوں کو نوازنے کی روش برقرار رکھی گئی۔ معاہدے کے تحت آدھے شہر کے کچرے کی پرائمری اور سیکنڈری کولیکشن لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی، کنٹونمنٹ بورڈ اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی ذمہ داری ہے جبکہ باقی آدھا شہر دو حصوں‘ زون ون اور زون ٹو میں تقسیم کر کے غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ زون ون البراک اور زون ٹو کو اوزپاک کے حوالے کیا گیا۔ لاہور کی 150 میں سے 138 یونین کونسلوں کی صفائی کا ٹھیکہ انہی دو کمپنیوں کے پاس ہے جبکہ 12 یونین کونسلیں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی پاس ہیں۔
7 برسوں کے دوران لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو 70 ارب روپے سے زائد فنڈز دئیے گئے۔ سال بھر میں لاہور کی صفائی پر تقریبا 21 ارب روپے خرچ ہونا چاہئیں تھے، لیکن سابق حکومت کے من پسند فیصلوں کے باعث خزانے کو 50 ارب روپے کا ٹیکہ لگا کر 70 ارب روپے خزانے سے خرچ کئے گئے۔ امریکہ، چین سمیت دیگر ممالک کچرا فروخت کرتے ہیں اور کچرا اٹھانے والی کمپنیوں سے آمدنی حاصل کرتے ہیں‘ لیکن لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کچرا اٹھانے کی مد میں ناصر ف ترک کمپنیوں کو پیسے دیتی رہی بلکہ 5500 ٹن کچرے کی مقدار کو 7500 ٹن ظاہر کرکے قومی خزانے کو 32 لاکھ روپے روزانہ کا خسارہ دیا گیا۔ معاہدے کے مطابق ان کمپنیوں نے ہر سال بجٹ حاصل کرنے کے لیے کارکردگی جانچنے کے پیمانے تحریری طور پر واضح کرنے تھے جو سات سالوں میں ایک بار بھی پیش نہ کیے جا سکے لیکن بجٹ وصول کئے جاتے رہے۔ 40 فیصد کوڑا ری سائیکلنگ کرکے بیچا گیا لیکن حاصل کردہ رقم کمپنی کے اکائونٹس میں جمع نہیں کروائی گئی‘ جس سے کمپنی کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اور اسے نفع بخش بنانے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے کوڑے کی ری سائیکلنگ سے 40 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا ایک پاور پلانٹ قائم کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ایک امریکی کمپنی کو فزیبلٹی تیار کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ لینڈفل سائیٹ کے لئے کروڑوں روپے مختص کئے گئے لیکن منصوبہ تاحال جزوی طور پر ہی فعال ہو سکا ہے۔ پراجیکٹ کے ڈیزائن کا ٹھیکہ کروڑوں روپے کے عوض دیا گیا۔ لینڈ فل سائیٹ کا منصوبہ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی خدمات کو بین الاقوامی کنٹریکٹر کو دینے کا مقصد ایک مربوط سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم قائم کرنا تھا لیکن لینڈ فل سائیٹ کا منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ اسی طرح کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بائیو گیس پلانٹ بھی مکمل نہ ہو سکا‘ نہ ہی اسے کارآمد بنایا جا سکا۔ معاہدے کے مطابق کمپنی نے بائیوگیس پلانٹ کے ذریعے کوڑے سے بائیوگیس تیار کرنی تھی‘ جس کا پلانٹ ہی نہیں لگایا جا سکا۔ ڈمپنگ سائیٹ پر ٹنوں کوڑا پھینکے جانے کی وجہ سے زیر زمین اور اردگرد کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے روشنی میں سات سال کے لئے ڈور تو ڈور کوڑا اٹھانے کی مد میں اوزپاک کو 13ارب اور البراک کو 11ارب روپے ادا کئے گئے، تاہم ڈور تو ڈور کوڑا اٹھانے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ اس کا موازنہ اگر ماضی سے کیا جائے تو لاہور کی صفائی جو 2011 میں 2 ارب میں ہو رہی تھی اب 2018 میں اس پر 14 ارب سالانہ خرچ کئے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں 7 برسوں کے دوران پاکستانی عوام کی کمائی کو زرمبادلہ کے طور پر ملک سے باہر لے جاچکی ہیں۔ مارچ 2019 میں ان غیر ملکی کمپنیوں سے ہونے والے معاہدے کی مدت ختم ہو رہی ہے لیکن ابھی تک حکومتی سطح پر مستقبل کی کوئی حکمت عمل نظر نہیں آتی۔ ان کمپنیوں سے معاہدے کا بنیادی مقصد مقامی اداروں کو مضبوط کرنا اور عملے کی تربیت کروانا تھا لیکن اب تک نہ عملے کی ٹریننگ ہوئی اور نہ ہی استعداد کار بڑھانے کے لیے اقدامات کئے گئے؛ البتہ صفائی کے نام پر خزانے کی صفائی ضرور کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ناصرف لاہور ویسٹ مینجمنٹ میں گھپلوں اور غیر ملکی کمپنیوں کو نوازے جانے کی مکمل تحقیقات کرائی جائیں بلکہ اس بڑے پیمانے پر خورد برد کے ذمہ داران کو کڑی سزا دینے کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر زیرو ویسٹ زیرو امپکٹ کیلئے کام شروع کیا جائے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں