"MEC" (space) message & send to 7575

’’سیاست‘‘ یا’’ ریاست‘‘؟

اٹھارہویں ترمیم کو 1973 ء کے آئین کے بعد سیاستدانوں نے سب سے بڑی دستوری کامیابی قرار دیا تھا۔ 102شقوں پر مشتمل ترمیمی مسودہ اپریل 2010ء میں میاں رضا ربانی کی زیرصدارت آئینی کمیٹی نے تیار کیا تھا ‘ جس میں ملک کی دس سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے شامل تھی۔ سلطانی ٔجمہورا ور حکمرانی کا روشن خواب دکھانے والے ان سیاستدانوں نے ترامیم کے ذریعے صوبوں کو مالی وسائل اور انتظامی معاملات میں خود مختاربنادیا‘ لیکن ہماری تاریخ کا نوحہ یہی ہے کہ سیاستدانوں نے جب بھی کوئی ایسا قدم اٹھایا‘اس میں ملکی نہیں بلکہ ذاتی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا‘ اور یہاں بھی سابق صدر آصف زرداری کی دور بینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ‘جنہوں نے بطور صدر اس ترمیم کو جمہوریت کی آڑ لیتے ہوئے فوراً منظور کیا اور برے وقت کی پلاننگ اچھے دنوں میں ہی کر ڈالی۔
اس ترمیم میں صوبوں کے حوالے سے جو بڑی تبدیلیاں سامنے آئیں وہ یہ تھیں:وفاق اورصوبوں کے درمیان تمام کنکرنٹ لسٹ ختم کردی جائے (جس کے مطابق قانون سازی کا اختیار صرف وفاق کو حاصل تھا)‘ صوبوں کو مقامی یا بین الاقوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہو‘ تعلیم‘صحت ‘ زراعت‘ توانائی جیسے نظام مرکز سے صوبوں کے سپرد کر دیئے جائیں‘ تیل و گیس جیسے قدرتی وسائل کا اختیار صوبے اور وفاق کے درمیان مشترکہ ہوگا‘ آبی ذخائر کی تعمیر پر وفاق صوبوں سے مشاورت کا پابند ہوگا‘ مقامی حکومتیں اپنی جگہ قائم رہیں گی جنہیں وقت کے سا تھ زیادہ مضبوط بنایا جائے گا‘ اور سب سے بڑا فیصلہ یہ ہوا کہ قومی وسائل میں صوبوں کو NFC Awardکے تحت 58فیصد جبکہ وفاق کو 42فیصد حصہ دیا جائے گا۔ آج صورتحال ایسی ہے کہ پاکستان کا کل ریونیو 5500ارب روپے ہے‘ جس میں سے 58فیصد کے حساب سے 2500ارب روپے صوبوں کو منتقل ہوجاتے ہیں اور لگ بھگ 1700ارب روپے دفاع کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں ‘ اس کے بعد وفاق کے پاس بمشکل قرضوں کی ادائیگی کیلئے رقوم بچتی ہیں اور وفاق مالی سال کے پہلے دن ہی 600ارب روپے کے خسارے میں ہو تا ہے۔ تیل اور گیس کی مد میں صوبوں کو 94ارب روپے ملتے ہیں ‘ سیلز ٹیکس کو بھی صوبائی معاملہ بنا دیا گیا ہے جس کی مد میں صوبوں کو 237ارب روپے ملتے ہیں‘ جس میں سب سے زیادہ سندھ (120ارب) پھر پنجاب(100ارب ) کے پی کے (11ارب) جبکہ بلوچستان کو چھ ارب روپے ملتے ہیں۔ سندھ کو Zilla Taxکی مد میں اضافی 14ارب کی گرانٹ بھی ملتی ہے ‘جبکہ دیکھا جائے تو وفاقی پارلیمانی ملک میں وفاق کی مضبوطی زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے کیونکہ وفاقی ادارے (مثلا ًپاکستان میں فوج‘ ایف آئی اے ‘ ایف بی آر‘ نیب‘ NDMAاور وفاقی سیکرٹریٹ ) ‘ کیلئے وافربجٹ درکار رہتا ہے ۔ ہنگامی صورتحال میں بھی وفاقی ادارے ہی ہر جگہ پیش پیش ہوتے ہیں ‘ کیونکہ چھوٹے صوبوں کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہوتے کہ وہ ان مشکلات و آفات کا مقابلہ کر سکیں۔ وفاقی حکومت متعدد ایسے اضافی خرچ بھی کرتی ہے جو دراصل صوبوں کی ذمہ داری ہیں جن میں توانائی کے منصوبے ‘ ڈیموں کی تعمیر اور میگا پبلک پروجیکٹس وغیرہ شامل ہیں۔ مگر اٹھارہویں ترمیم نے وفاق کو مالی وسائل کے لحاظ سے کمزور  بنادیا ہے ۔ وفاق کے پاس اپنے اداروں پر صرف کرنے کیلئے بجٹ ہی نہیں‘ جبکہ سالوں کی جدوجہد اور کروڑوں افراد کے مینڈیٹ کے ساتھ منتخب ہوکر آنے والے Chief Executive یعنی وزیراعظم کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں۔ 
میری نظر میں صوبائی خود مختاری ملک میں گورننس کی بھی تباہی کا سبب بنی۔ وہ تمام شعبہ جات جن کا کنٹرول مرکز سے صوبوں میں منتقل‘ مالی گنجائش نہ ہونے باعث ان کی زبوں حالی دیکھ کربہتری اور خوشحالی کی امیدیں کانچ کی طرح ٹوٹ چکی ہیں۔ صوبوں کی سب سے بڑی نا اہلی شعبہ صحت میں سامنے آئی ‘ جب کورونا کی وبانے ہر صوبے کے ناقص نظام صحت کا پول کھول دیا اور آزمائش کی اس گھڑی میں جب یکسوئی کی ضرورت ہے ‘ پاکستان میں وفاق اور صوبے الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ میں بھی اسی عدم اعتماد کے باعث مرکز اور ریاستیں آپس میں دست و گریبان ہیں‘ گورنر نیو یارک Andrew Cuomo اور دیگر ریاستوں کے گورنرز کے ساتھ مرکزی حکومت کی جنگ جاری ہے ۔ خیرامریکہ میں تو کئی ایسے ادارے اور پروگرامز وفاق کے کنٹرول میں ہیں جو مالی لحاظ سے طاقتور ہیں اور عوام کو Social Securityمہیا کرتے ہیں‘مگر پاکستان میں تو سارے اختیارات صوبوں کے ہاتھ میں ہیں‘ جہاں محکمہ صحت مالی طور پر کمزور اور کرپشن زدہ ہونے کے باعث بدترین کارکردگی کا شکار ہے۔ اسی طرح شعبۂ تعلیم و زراعت کو دیکھ لیں‘ یکساں نظام تعلیم نوجوان نسل میں یگانگت کے ساتھ قومی سوچ و خیالات بیدار کرنے کیلئے بے حد ضروری ہے ‘ جس طرح امریکہ میں وفاقی ادارہ US Department of Educationسالانہ 70 ارب ڈالر کے بجٹ کے ساتھ ملک میں یکساں نظام تعلیم مہیا کرنے میں مصروف ہے ‘ مگر پاکستان میں تعلیم کی ذمہ داری صوبوں کے پاس جانے سے نہ صرف صوبائیت اور لسانی تنازعات کا خطرہ بڑھا بلکہ معیارِ تعلیم بھی بری طرح گرچکا ہے ۔ زراعت کی تباہی میں بھی صوبوں کا اہم کردار ہے ۔ہمارے ہاں زراعت کی مد میں جمع ہونے والا تمام ٹیکس صوبوں کو ملنے کے باوجود کسان خستہ حالی کا شکار ہیں‘ جس کی وجہ ناقص زرعی پالیسیاں اور اقدامات ہیں۔ خود مختاری کی ان نوازشوں میں Climate Change جیسی ٹیکنیکل ذمہ داری بھی صوبوں کے سپرد کر دی گئی ہے ‘ جبکہ ماحولیاتی تبدیلی ایک بین الاقوامی اور پیچیدہ معاملہ ہے جس میں Ozone Layer کے بچاؤ اور فضا میںCarbon Emissionsکو کنٹرول کرنا سب سے بڑا ٹارگٹ ہے ‘ جن کا ہمارے صوبوں کے پاس سرے سے کوئی تجربہ نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ کوئی صوبہ آج تک اس مشن میں کوئی قابلِ ذکر اقدام نہیں کرسکا۔
صوبوں کے انتظامی معاملات بھی ناقص ہیں۔ خوراک کی خریداری میں غفلت‘ طلب اور رسد کے نظام کی خرابی صوبوں کی خود مختاری کا منہ چڑا رہی ہے‘ حال ہی میں ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں صوبائی حکومت کی نا اہلی کو آٹا بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ سیاسی مداخلت کے باعث کوئی صوبہ اپنے کسی محکمے کی شفافیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اٹھارہویں ترمیم کی روح تو یہ تھی کہ اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچایا جائے گا‘ مگر ان دس سالوں میں مقامی حکومتیں طاقتور ہونے کی بجائے ختم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی تو اسے بغیر بحث کے اس امید کے ساتھ آئین کا حصہ بنایا گیا تھا کہ یہ تبدیلیاں ملک و قوم کی قسمت بدل دیں گی‘علاقائی محرومیوں اور ناانصافیوں کے کالے بادل چھٹ جائیں گے ‘ ملک میں تعلیم اورعدل کا بول بالا ہو گا اور یہ قدم شفاف اور جمہوری نظام کی جانب سنگ میل ثابت ہوگا‘ مگر عملاً یہ ماڈل فلاپ ہوا ہے‘ جو اَب بری طرح Exposeہو چکا ہے ‘ کیونکہ وفاق کمزور ہوتا نظر آرہا ہے ۔ 
آج کورونا کی اس وحشت کے دوران اٹھارہویں ترمیم پربحث کرنا کئی لوگوں کو بے وقت کی راگنی لگ رہی ہے ‘ مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ ترمیم ''سیاست‘‘کو طاقتور جبکہ ''ریاست‘‘کو کمزور بنا چکی ہے جس میں خاص تبدیلیاں کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ادھر عدالت نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے مسائل دن بدن بدترین صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔ صوبوں اور وفاق کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ پارلیمان جلد ہی اس مسئلے کا حل نکال لے ورنہ عدالت کوئی تاریخی فیصلہ دے گی۔ کئی ذرائع اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کے احتساب کے کسی سمجھوتے سے مشروط ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں‘ شاید ملک کا ''سیاسی مافیا‘‘ اس تبدیلی کے بدلے اور اپنی سیاسی بقا کی خاطر کسی نئے NRO کی تلاش میں ہے ‘ مگرجو بھی ہو اس سنگین معاملے کی نوعیت کو فوری طور پر سمجھتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہوگا‘ کیونکہ باہمی مشاورت کے ساتھ ملکی مفاد واستحکام کی خاطر کوئی مربوط راہ نکالنا ناگزیرہو چکا ہے۔ ایسی خودمختاریاں امریکہ جیسے ملکوں میں اچھی لگتی ہیں جو مالی لحاظ سے طاقتور ہوں‘ مگر پاکستان جو کہ ایک Security Stateہے ‘یہاں ریاست اوروفاق کو مالی اوروسائلی طور پر ہرصورت مضبوط سے مضبوط تر بنانا بے حد ضروری ہے ‘ کیونکہ ریاستی بقا ومضبوطی ہی ملک میں استحکام لا سکتی ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں