خود مختار مقامی حکومتوں کا قیام انسانی تاریخ کا سب سے قدیم نظام حکمرانی تصور کیا جاتا ہے۔ ہزاروں سال سے بدلتی انسانی سوچ‘ حالات‘ بڑھتی آبادی اور ریاستی حجم کے تغیر و تبدل کے باوجود اسی نظام کی کوکھ سے آج کی جمہوریت نے جنم لیا ہے۔ صدیوں سے اس کرہ ٔارض پر کئی سلطنتیں اور ریاستیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں مگر یہ نظام ہر جگہ مختلف اشکال میں زندہ رہا اور لوگوں کو معاشی و سماجی ضروریات فراہم کرتا رہا۔ مقامی حکومت کا سب سے کامیاب ماڈل یونان کی شہری حکومتوں کو مانا جاتا ہے جہاں سے مشترکہ مفادات کے حصول نے جنم لیا۔ یہی نظام برصغیر کی قدیم تاریخ میں بھی پنچایت کی صورت میں زندہ رہا جبکہ برٹش انڈیا کے میونسپل ایکٹ 1850ء اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 ء اور 1935ء میں بھی با اختیار مقامی حکومتوں کے قیام کی جزوی سعی کی گئی تھی۔
کسی بھی معاشرے میں منظم سوشل آرڈر کا قیام اور سروس ڈلیوری یقینی بنانے اور عوام تک اقتدار کی منتقلی کیلئے مقامی حکومتوں کو مالی و انتظامی لحاظ سے بااختیار بنانا نہایت ضرروی عمل ہے‘ جن کے دائرہ اختیار میں تمام عوامی و شہری ذمہ داریاں شامل ہوتی ہیں یعنی سیوریج سے لے کر ویسٹ مینجمنٹ تک‘ صاف پانی سے لے کر گلیوں‘ نالیوں کی تعمیر تک‘ روزگار کی فراہمی سے مقامی معاشی ترقی تک‘ شہری انفراسٹرکچر سے لے کر تجاوزات گرانے تک‘ بنیادی صحت سے لے کر ابتدائی تعلیم تک وغیرہ وغیرہ ۔چند مضبوط مقامی حکومتوں کی بات کریں تو Columbia DCکی سیاہ فام خاتون میئر Murial Bowser پوری دنیا کے مقامی لیڈروں کیلئے زندہ مثال ہیں جن کی ٹھوس فیصلہ سازی سے وہاں Amazon کے ہیڈ کوارٹرز قائم ہونے سے مقامی شہریوں کو بہترین روزگار ملے گا اور ہاؤسنگ سیکٹر کو وسعت دیتے ہوئے اقتصادی ترقی حاصل کی گئی۔ اسی طرح سنگا پور سٹی کی مقامی حکومت صرف اپنے میونسپل اور دیگر شہری ٹیکسوں سے سالانہ تین ارب ڈالر قومی معیشت میں شامل کرتی ہے۔ لندن اور وارسا میں مقامی حکومتوں کے بنائے گئے سپیشل کمیونٹی قوانین بھی قابل تحسین ہیں جن سے عوام ذمہ دار اور معاشرے میں نظم و ضبط قائم ہے۔
یہ پاکستان کی بدقسمتی سمجھ لیں کہ یہاں مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتیں قائم نہ ہو سکیں ۔ ہردور میں حکمرانوں نے فقط نظریہ ضرورت کے تحت مقامی حکومتوں کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ 1959ء میں صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا جو نظام بنایا اس کا مقصد عوامی خدمت نہیں بلکہ اقتدار کا دوام تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی میونسپل کارپوریشن‘ میونسپل کمیٹی‘ ٹاؤن کمیٹی‘ ضلع کونسل اورحلقہ کونسل کا نظام حکومتی منشور کا حصہ ہونے کے باوجود نافذ نہ ہو سکا۔ پھر آئین 1973ء کی شق 140 A میں صوبائی حکومتوں کو مالی اور انتظامی اقتدار مقامی حکومتوں تک منتقل کرنے کا پابند بنایا گیا مگر سالوں تک اس آئینی حکم پر کوئی عمل نہ ہوا۔ نواز شریف اور بینظیر کے جمہوری ادوار آئے مگر اقتدار عوام تک پہنچنے کے بجائے چند سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کے ہاتھوں تک رہا۔ 2001ء میں پرویز مشرف نے لوکل گورنمنٹ کا جو نظام متعارف کروایا وہ کچھ حد تک جامع‘ قابلِ تعریف اور قابلِ عمل تھا‘ اس نظام کے بہترین نتائج سامنے آئے اور لوگوں کے مسائل حل ہونا شروع ہوئے‘ فیصلہ سازی میں جمہور شراکت دار بنی اور مقامی نمائندے لوگوں کو جوابدہ ہوئے‘ مگر مشرف کا نظام شہباز شریف کے ادوار میں تباہ کر کے رکھ دیا گیا‘ تقریباً تمام بڑے اختیارات مقامی حکومتوں سے لیکر مختلف کمپنیوں میں تقسیم کر دیئے گئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 2001ء کے نظام میں ہی بہتری لاتے ہوئے اسے نافذ کیا جاتا مگر حکومت نے 2019ء میں پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کا نیا نظام متعارف کروا دیا جو وجود میں آنے کے بعد سے اب تک تنازعات شکار ہے۔ دو قوانین پر مشتمل اس پیچیدہ نظام میں صوبے کی 35 ضلعی حکومتوں کو ختم کر کے 138 تحصیل حکومتیں ‘ جبکہ 3281 یونین کونسلز کی جگہ 22 ہزار ویلیج کونسلز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ عملاً ممکن نہیں۔ اسی طرح شہری علاقوں کو چار درجوں‘ میٹروپولیٹن کارپوریشنز‘ میونسپل کارپوریشنز‘ میونسپل کمیٹی اور ٹاؤن کمیٹی میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے‘ جبکہ دیہی اور نیم شہری علاقوں کی انتظامی تقسیم ویلیج کونسل اور نیبر ہڈ کونسل میں کی گئی ہے‘ جن کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ ویلیج کونسلز کا تحصیل کونسلز کے ساتھ کوئی انتظامی یا قانونی تعلق نہیں ‘نہ ہی نئے قوانین میں Vertical & Horizontal Linkagesنام کی کوئی شے موجود ہے۔ اسی طرح کسی قانون کے سب سے بنیادی جزو انفورسمنٹ میکنزم کو یہاں ایک صفحے میں چند شقوں کے بیچ بیان کر دیا گیا ہے‘ مگرنہ نفاذ کا کوئی شیڈول بیان ہوا ہے نہ ہی Municipal Offences & Violations اور ان کی سزاؤں کی وضاحت کی گئی ہے۔ 2001ء کے قانون میںنفاذ‘جرائم اور سزاؤں کو باقاعدہ ایک باب میں تفصیلاً بیان کیا گیا تھا۔
نئے نظام میں یونین کونسلز کوبھی ختم کر دیا گیا جو شادی بیاہ‘ پیدائش ‘ وفات کے سرٹیفکیٹ جیسی بنیادی عوامی ضروریات کو پورا کرتی تھیں؛ حالانکہ نت نئے ادارے بنانے کے بجائے انہی یونین کونسلز کو با اختیار بنانا چاہیے تھا۔ اسی طرح ایکٹ 2019ء کی 317 دفعات میں سے 145 میں بالواسطہ یا بلاواسطہ سرکاری کنٹرولنگ یا مانیٹرنگ کا ذکر کر کے مقامی حکومتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن یہ بات بھی تسلیم کر چکا ہے کہ 2019ء میں وزیراعلیٰ کے بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کا اقدام غیر قانونی تھا اور اب جبکہ مقامی حکومتیں برخاست ہوگئیں اور کوئی نمائندہ اقتدار میں نہ رہا تو بلدیاتی و انتظامی فیصلے بھی غیر قانونی متصور ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کا لایا ہوا نیا نظام ہر لحاظ سے پیچیدہ‘ متنازع اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس نظام میں حکومت کا عنصر کہیں دکھائی نہیں دیتا‘ بلکہ یہ تو کوئی میونسپل ذمہ داریاں لگتی ہیں جنہیں میونسپل ادارے ہی سرانجام دیں گے۔امریکہ اور یورپ جیسے معاشروں میں تو میونسپل پولیس اور میونسپل مجسٹریسی بھی مقامی حکومتوں کے ماتحت ہے‘ جیسے نیو یارک پولیس جو دنیا کی طاقتور ترین اور با صلاحیت شہری فورس سمجھی جاتی ہے‘ میئر کے ماتحت ہی کام کرتی ہے مگر ہمارے ہاںتو مقامی ادارے تمام اختیارات سے محروم ہیں۔ نجانے اس نئے نظام کے تحت بننے والے ادارے مقامی حکومت کہلانے کے قابل ہوں گے بھی کہ نہیں؟ دراصل حکمران طبقہ ہمیشہ سے اپنی مفاد پرستی کی خاطر مقامی حکومتوں کو کمزور اور لاغر رکھتا آیا ہے‘ کیونکہ اس سیاسی نرسری سے نئی لیڈر شپ ابھرنے کے امکانات ہوتے ہیں‘ مگر ہمارے سیاسی آقاؤں کو یہ کبھی گوارا نہ رہا کہ کوئی ان کے اور ان کے خاندان کے مقابلے پر آئے۔ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سپریم کورٹ کو ہی مقامی انتخابات کرانے کے احکامات جاری کرنا پڑے۔حال ہی میں عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات نہ کروا کر حکومت عوام کو جمہوریت سے محروم رکھے ہوئے ہے اور انتخابات کے راستے میں رکاوٹ بننے والے عناصر سنگین غداری (آرٹیکل 6) کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جس پر حکومت نے بالآخر جون میں پنجاب کے انتخابات کرانے کی تاریخ دے دی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت نئے نظام کے ساتھ انتخابات کرانے میں کامیاب ہو بھی جائے تب بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے کیونکہ اس پیچیدہ نظام میں مقامی اداروں کوآئین میں بیان کردہ اختیارات کی منتقلی نہیں ہوئی‘ نہ ہی ان قوانین میں سروس ڈلیوری اور عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کی سکت موجود ہے۔اندیشہ ہے کہ نئے نظام کے ساتھ بننے والے بے اختیار ادارے بھی ماضی کی طرح جمہوریت کا ڈھونگ ثابت ہوں گے اورعوام کے ساتھ ایک بار پھر دھوکہ ہو جائے گا۔