ہوانگ فو اس وقت سے میرا دوست ہے جب مزدوری کے سلسلے میں مجھے چند بار چین جانا پڑا۔ اس کے بعد ای میل کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہے۔ یہ کوئی دو سال پہلے کی بات ہے۔ وہ اسلام آباد آیا۔ اس نے بتایا کہ اس کی کمپنی نے پاکستان میں کوئی کام شروع کیا ہے اور یہ کہ اب وہ کبھی کبھار آتا رہے گا۔ وہ تین چار ماہ بعد چند دنوں کے لیے آتا ہے۔ ہم کسی ریستوران میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں۔ اسے اب میرے بچوں بلکہ پوتوں اور نواسوں تک کے نام یاد ہو گئے ہیں۔ یہ ایک ہفتہ پہلے کا واقعہ ہے۔ ہونگ فو کا فون آیا‘ میں نے پوچھا ’’کب آئے ہو‘ اور مجھے آنے کا بتایا تک نہیں۔ بس شام سات بجے اپنے پسندیدہ ریستوران میں پہنچ جائو‘‘۔ اس کی آواز میں نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔ کہنے لگا طبیعت ٹھیک نہیں۔ تم میرے پاس کیوں نہیں آ جاتے؟ میں اس کے ہوٹل پہنچ گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو ٹھٹک گیا۔ وہ بستر پر دراز تھا۔ بازو اور کندھے پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’پہلے بیٹھو تو سہی‘ سب بتاتا ہوں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔ یہ سڑک کا ایک حادثہ تھا جس میں ہوانگ فو زخمی ہوا تھا۔ لیکن یہ عجیب و غریب حادثہ تھا۔ وہ ایک دو روز پہلے اسلام آباد سے مری جا رہا تھا۔ سرینا ہوٹل کے سامنے سے ہو کر وہ مری روڈ پر آ گیا۔ اب اس کا رُخ مری کی طرف تھا اور کنونشن سنٹر اس کے بائیں طرف تھا۔ تھوڑی دیر میں اس نے لیک ویو پارک کے سامنے سے گزرنا تھا۔ جیسے ہی وہ لیک ویو پارک کے سامنے پہنچا‘ شاہراہ پر اچانک مویشی آ گئے‘ دو گائیں اور ایک بچھڑا‘ کار کی رفتار تیز تھی۔ ڈرائیور نے بریک لگائی‘ لیکن اگر وہ یک دم پورے زور سے بریک لگاتا تو گاڑی اُلٹنے کا اندیشہ تھا۔ اس کشمکش میں کار‘ بائیں طرف‘ گائے سے ٹکرائی‘ ہوانگ فو اُسی طرف بیٹھا ہوا تھا۔ گاڑی بائیں پہلو پر اُلٹ گئی۔ خوش قسمتی سے ہوانگ فو کا صرف بازو زخمی ہوا‘ کندھے پر بھی گہری چوٹ لگی لیکن بہرطور جان بچ گئی۔ مجھے معلوم تھا کہ کنونشن سنٹر سے مری کا رُخ کریں تو پانچ سات میل کا فاصلہ خطرناک ہے اس لیے کہ اس سارے علاقے میں جانوروں کے ریوڑ کھلے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کی وجہ سے کئی حادثے رونما ہو چکے ہیں لیکن کسی کے کان پر کبھی جُوں تک نہیں رینگی۔ ہوانگ فو زخمی ہونے کے بعد‘ بستر پر لیٹے لیٹے‘ اپنے جاننے والے لوگوں کے ذریعے پوری معلومات حاصل کر چکا تھا۔ اس نے میرے لیے چائے منگوائی اور پھر باتیں کرنے لگا۔ ’’تمہیں یاد ہے چند ماہ پہلے ہم اسی ہوٹل کے ریستوران میں بیٹھے تھے اور گرما گرم بحث کر رہے تھے۔ اُن دنوں کسی عالمی تھنک ٹینک کا تازہ تازہ بیان چھپا تھا جس میں پاکستان کو ناکام ریاست قرار دیا گیا تھا۔ تم بہت جذباتی ہو گئے تھے۔ تمہاری سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ یہ تھنک ٹینک اور ان کے نام نہاد دانشور غیر جانب دار نہیں ہوتے۔ میں کہتا تھا کہ تم ان کی نیت پر شک کرنے کے بجائے اپنے ملک کے حالات کا تجزیہ کرو۔ آج بھی میں تم سے یہی بات کرنا چاہتا ہوں۔ غور کرو اور انصاف سے کام لو‘ کوئی ریاست اس لیے ناکام نہیں قرار دی جا سکتی کہ وہ دہشت گردی کا شکار ہے یا اُس پر غیر ملکی قرضے زیادہ چڑھ چکے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جنہیں حل کیا جا سکتا ہے۔ ناکام ایک ملک اس وقت کہلواتا ہے جب اُس کے باشندے تہذیب و معاشرت کے انتہائی بنیادی اصول بھی اپنے اوپر نافذ نہیں کر سکتے۔ کل والے حادثے کی مثال ہی لے لو۔ کنونشن سنٹر‘ لیک ویو پارک‘ مَل پور سب دارالحکومت کا حصہ ہیں۔ ان کے درمیان سے مری روڈ گزر رہی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی شاہراہ ہے۔ غیر ملکی عمائدین‘ سیاح‘ سیاست دان‘ وزرا‘ گورنر‘ جرنیل‘ بڑے بڑے بیوروکریٹ سب یہاں سے ہو کر مری جاتے ہیں۔ مویشیوں کے ریوڑ اس علاقے میں کھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ گاڑیاں یہاں تیز رفتاری سے چلتی ہیں۔ بے شمار حادثے اپنی مویشیوں کی وجہ سے ہو چکے ہیں۔ کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ چھ چھ گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرائیں لیکن بدقسمتی کی انتہا دیکھو کہ اس خطرے کا آج تک سدباب نہیں ہو سکا۔ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ کہتا ہے کہ شاہراہ نیشنل ہائی وے کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ کچھ لوگ اسلام آباد کیپٹل (I.C.T) کے محکمے پر الزام لگاتے ہیں۔ یہ جانور کن لوگوں کے ہیں؟ انہیں یہاں اتنی بڑی اور اتنی مصروف اہم شاہراہ پر کیوں چھوڑا گیا ہے؟ ان کی وجہ سے حادثے ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت اس قدر بھونڈی ہے کہ بدترین مذاق بھی اتنا مضحکہ خیز نہ ہوگا۔ جب ریاست کے ادارے اپنے بنیادی فرائض کی سرانجام دہی میں مجرمانہ غفلت برتیں‘ سالہا سال تک برتیں اور شہریوں کو ہلاکت کے منہ میں ڈال دیں تو یہ ہوتی ہے ریاست کی ناکامی! کیا ناکامی کی کوئی بدتر مثال بھی ہو سکتی ہے؟‘‘ ہوانگ فو مسلسل بول رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔ ’’مغربی تھنک ٹینک جب پاکستان کو ناکام ریاست کہتے ہیں تو اس سے مجھے بھی اختلاف ہوتا ہے۔ وہ یہ الزام اپنی غرض کا پیچ درمیان میں ڈال کر لگاتے ہیں۔ میرا موقف یہ ہے کہ پاکستان ناکام ریاست اس لیے نہیں کہ وہ امریکی پالیسیوں کی اندھی پیروی نہیں کرتا۔ اس لیے نہیں کہ یہاں دہشت گردی کا راج ہے۔ میں اسے اس لیے ناکام ریاست کہتا ہوں کہ یہاں حکومتی ادارے مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔ ایک اور مثال لو‘ پاکستان کا شمار اُن ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ٹریفک کی وجہ سے اموات سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ میں نے اسلام آباد اور لاہور کی ٹریفک پر غور کیا ہے۔ اگر صرف دو اصول اپنا لیے جائیں تو ٹریفک کے حادثات میں قابلِ ذکر کمی آ سکتی ہے۔ یہ دو اصول پوری مہذب دنیا میں رائج ہیں۔ ایک یہ کہ بائیں طرف سے کوئی گاڑی اوور ٹیک نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ چھوٹی سڑک سے بڑی شاہراہ پر چڑھتے وقت گاڑی مکمل طور پر رُک جائے۔ لیکن پاکستان کی پولیس نے آج تک لوگوں کو ان اصولوں سے آشنا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی ٹی وی یا اخبار میں انہیں نہیں بتایا گیا‘ کبھی کسی اشتہار‘ بینر یا آواز کے ذریعے تلقین نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان ٹریفک کی بدنظمی کا ایک ایسا جنگل ہے جس میں سے سلامت گزر جانا معجزہ ہے۔ ملک بڑے بڑے بین الاقوامی مسائل کی وجہ سے ناکام نہیں ٹھہرتے۔ ملک اُس وقت ناکام ٹھہرائے جاتے ہیں جب ان کے باشندے روز مرہ کی زندگی بسر کرتے ہوئے گلے میں گھٹن محسوس کریں۔ جب ہر چوک پر بسیں‘ گداگروں کو صبح اُتاریں‘ دوپہر کو انہیں کھانا پہنچائیں اور شام کو واپس لے جائیں‘ جب دودھ‘ آٹا‘ گھی‘ مرچیں‘ دوائیں‘ کھلم کھلا جعلی فروخت ہو رہی ہوں‘ جب لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے عطائی لوگوں کو رات دن موت کے گھاٹ اتار رہے ہوں‘ جب میونسپلٹی کے ادارے پانی کا ٹینک پرائیویٹ مافیا کو نو سو روپے میں اور پرائیویٹ مافیا مجبور صارفین کو گیارہ سو روپے میں بیچ رہا ہو‘ جب کچہری میں باپ کو اپنی جائیداد سگے بیٹے کے نام کرانے کے لیے بھی ہزاروں روپے رشوت دینا پڑے‘ جب جنازے میں شامل ہونے کے لیے جہاز کی نشست ’’خریدنا‘‘ پڑے اور جہاز کے اندر جا کر آدھا جہاز خالی ملے‘ جب ٹیلی فون ٹھیک کرانے کے لیے‘ بچے کو سکول میں داخلہ دلوانے کے لیے‘ ہسپتال سے دوائی لینے کے لیے‘ ایجوکیشن بورڈ سے بیٹی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اور اپنے ہی ملک کے ایک حصے سے خریدے ہوئے مال کو دوسرے حصے میں لے جانے کے لیے سفارش ڈھونڈنا پڑے یا کسی نہ کسی کے منہ میں ہڈی ڈالنا پڑے تو اُس وقت ریاست کو ناکام قرار دیا جاتا ہے۔ ہوانگ فو‘ کل کی پرواز سے واپس چلا گیا ہے۔ نہیں معلوم پلٹ کر آئے گا یا نہیں!