شریعت شریعت نہیں ہو سکتی جب تک اس کا ایک ایک ذرہ‘ ایک ایک رمق، ایک ایک انگ اس مقدس ہستی کا تابع فرمان نہ ہو جس کا نام نامی محمدؐ ہے اور جو طہٰ ہے اور یسٰین بھی! وہ طریقت کیا ہدایت دے گی جس کے سوتے نورِ محمدؐ سے نہ پھوٹتے ہوں۔ جو تصوف اپنی منزل رسول مکرمؐ کی تعلیمات کو نہیں بنا پائے گا وہ صرف گمراہی کی طرف لے جائے گا اور وہ روحانیت جو ہر دروازے پر لے جائے سوائے درِ رسولؐ کے وہ روحانیت سادھو یا جوگی تو بنا سکتی ہے، شعبدہ بازی تو سکھا سکتی ہے صوفی نہیں بنا سکتی! سعدی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا: ؎ عزیزی کہ از درگہش سر بتافت بہر در کہ شُد ہیچ عزت نہ یافت جس نے اس کے دروازے سے رخ پھیرا، جس دروازے پر بھی گیا، عزت نہ پا سکا۔ نظامی گنجوی نے کہ خمسہ لکھ کر ہمیشہ کے لیے نام باقی رکھ لیا‘ بات ہی ختم کردی : ؎ احمدِ مُرسَل کہ خرد خاکِ اُوست ہر دو جہاں بستۂ فتراکِ اُوست احمدؐ مجتبیٰ جنہیں رسول بنا کر بھیجا گیا، خرد تو ان کے قدموں کی دُھول ہے۔ دونوں جہاں آپ کے فتراک کے ساتھ بندھے ہیں۔ صوفیوں کے صوفی عبدالرحمن جامیؔ اپنی شہرۂ آفاق مثنوی تحفۃ الاحرار میں نعتوں پر نعتیں لکھتے جاتے ہیں اور تسلی نہیں ہوتی۔ نعت اول، وجود روحانیﷺ پر‘ نعت دوم صفت معراج پر، نعت سوم معجزات رسالت پر اور کہتے ہیں کہ زبان معجزات رسالت مآبؐ کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔ کیا شانِ مصطفیؐ ہے کہ جامی جیسا قادر الکلام شاعر جو اپنے وقت کا نابغہ ہے اور عبقری ہے، اپنے زور بیان اور قدرت کلام کو عاجز پاتا ہے! پھر نعت چہارم لکھتے ہیں اور اس کا عنوان رکھتے ہیں در اقتباس نور۔ پھر نعتِ پنجم لکھتے ہیں اور اس میں گناہ گاروں کے لیے شفاعت کی بھیک مانگتے ہیں۔ ذرا نعت کا رنگ دیکھیے اور سر دھنیے: ؎ اُو چو خور و صبح وَی است آفتاب صبح زخورشید بود نُور یاب! گر نہ فروغی ز رُخش تافتی صبح وَی این نور کجا یافتی آپؐ ہی تو سورج ہیں اور یہ جسے ہم سوج کہتے ہیں یہ تو صبح ہے۔ صبح روشنی کے لیے سورج کی محتاج ہے۔ اگر چہرۂ مبارک سے روشنی نہ پاتی تو صبح کے پاس یہ تابندگی کیسے ہوتی! پھر روحانیت کے روشن ستارے امیر خسروؒ کو دیکھیے۔ سات بادشاہوں کے دربار سے وابستگی اطمینان نہ دے سکی اور آخر کار حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ فرماتے ہیں کہ تصوف کی اصل تو ذاتِ اقدسﷺ ہے: ہر سخنش کاصلِ مسلمانی است حاشیہ نامۂِ ربانی است آپؐ کا ہر ارشاد مسلمانی کی اصل ہے اور اس خط کا حاشیہ ہے جو اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ پھر دعا مانگتے ہیں: ؎ باد ہمیشہ رہِ ما سوئی او سرمۂ ما خاکِ رہِ کوئی او خدا کرے ہمارا راستہ ہمیشہ آپؐ کی طرف جائے۔ آپ کے کوچے کی مٹی ہمارے لیے سرمہ ہے۔ ایک طرف تو یہ صوفیا ہیں اور دوسری طرف میڈیا کے شائق آج کل کی ’’روحانی‘‘ شخصیات جو اعلان کرتی پھرتی ہیں کہ ہم صحرائوں جنگلوں میں بھٹکتے پھرے اور در در سوال کرتے رہے! ان کی ساری تلاش اور سارے سفر میں اگر نہیں ہے تو بس درِ رسولؐ کا ذکر نہیں۔ پیر رومی کے مریدِ ہندی‘ اقبالؔ نے اسی لیے تو متنبہ کیا تھا: ؎ بمصطفیٰ برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست اگر باُو نہ رسیدی تمام بو لہبی ست اپنے آپ کو مصطفیؐ تک پہنچائو کہ سارے کا سارا دین آپؐ ہی ہیں۔ ورنہ تو تمہارے پاس ابو لہبی رہ جائے گی! بدقسمتی سے آج کل روحانیت اس کو سمجھا جاتا ہے کہ کوئی آپ کے ماضی سے پردہ ہٹا دے اور گزرے ہوئے کچھ واقعات بتا دے یا پھر مستقبل کی پیش گوئیاں کردے۔ ان پیش گوئیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ جو شخص یہ بتانے کا دعویٰ کرے کہ آپ بیرون ملک کب جائیں گے؟ ایم این اے کب ہوں گے؟ فلاں صدر یا فلاں وزیراعظم کب رخصت ہوگا‘ وہی روحانیت کا سرچشمہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ منڈی اس قبیل کی ’’روحانی‘‘ شخصیات کی بہتات سے چھلک رہی ہے۔ ان کے پیچھے پیچھے نجومیوں، زائچہ فروشوں، فال نکالنے والوں اور پامسٹوں کے قافلے اپنے اپنے علم اٹھائے بگل بجاتے چلے آرہے ہیں۔ اللہ والوں کی سب سے بڑی نشانی ہر زمانے میں یہ رہی ہے کہ وہ اپنی تشہیر نہیں کرتے‘ خلق سے کنارہ کش ہو کر رہتے ہیں اور خالق کے ساتھ اپنے تعلق کو مخلوق کے ہاتھ فروخت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کا حال تو یہ تھا کہ جب ایک اللہ والے نے یہ وصیت کی کہ میرا جنازہ وہ پڑھائے جس میں فلاں فلاں اوصاف ہوں تو دوسرے اللہ والے نے جو ان شرائط پر پورا اتر رہا تھا شکوہ کیا کہ ’’امروز پیشِ خلق مرا رسوا کردی‘‘۔ آج تو نے مجھے لوگوں کے سامنے ظاہر کرکے رسوا کردیا اور یہاں تو عالم ہے کہ ’’روحانیت‘‘ باقاعدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ نشستوں کے باقاعدہ اشتہار شائع ہوتے ہیں۔ ویب سائٹس بنی ہوئی ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں مضامین لکھے اور لکھوائے جاتے ہیں۔ پھر ساتھ کتابوں کا کاروبار ہے جو لاکھوں کا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت! اگر مطلوب و مقصود اصلاح خلق ہے تو پبلشر سے کیا معاملات طے کرنے! مریدانِ باصفا کو حکم دیجیے کہ چھاپ کر مفت بانٹیں لیکن قصہ وہی ہے جو ناصر کاظمی نے کہہ دیا تھا : ؎ سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیادار بھی جب دنیا ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے بھٹک رہی تھی کہ انسان کون ہے؟ کیا ہے اور کیوں ہے؟ تو خالق نے رحم کیا اور ان سوالات کے مہیب جنگل سے نکالنے کے لیے اپنے آخری رسولؐ کو بھیجا اور ساتھ اپنی کتاب عطا کی۔ ان سوالات کا جواب انسان کے بس میں ہوتا تو وہ وحی کا محتاج نہ ہوتا۔ علوم کا منبع ذات محمدؐ ہے۔ آپؐ قرآن پاک کی مجسم تفسیر ہیں۔ اس کائنات کے سربستہ راز اور انسان کی تخلیق اور فنا کے اسرار آپؐ کی ہدایت کے بغیر کھل ہی نہیں سکتے۔ اگر کوئی ایسے راستے کی تلاش میں ہے جو آپؐ نے نہیں دکھایا تو اس راستے پر چل کر ضلالت تو سامنے آسکتی ہے، عقدہ کوئی نہیں کھل سکتا! رسالت مآبؐ نے اولیاء اللہ کی جو نشانیاں بتائی ہیں وہ قرآن کی زبان میں دو ہیں۔ ’’یاد رکھو جو لوگ اللہ کے ولی ہیں نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ (یونس 63-62) قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں کہ امت کے افراد کو یہ درجۂ ولایت رسول اکرمؐ کے فیض ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ شریعت نے جو اعمال کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا ہے وہ دو قسم کے ہیں۔ کچھ کا تعلق ظاہر سے ہے جیسے کلمہ پڑھنا، نماز ، روزہ، زکوٰۃ، حج۔ ظاہری برائیاں زنا، چوری، رشوت وغیرہ ہیں۔ کچھ کا تعلق باطن سے ہے۔ یہ اوصاف دو قسم کے ہیں۔ محمود اور مذموم۔ محمود اوصاف میں صبر، شکر، صدق، توکل، محبت اور عجزو انکسار ہے۔ مذموم اوصاف کو اخلاق ذمیمہ بھی کہتے ہیں اور رذائل بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں جھوٹ، غیبت، اسراف، بخل، بغض، تکبر، منصب پسندی، حب دنیا، حسد، ریا، شہوت، غصہ، حرص اور اپنے کمال یا لیاقت کو اپنا کارنامہ سمجھنا شامل ہے۔ ان رذائل سے نجات حاصل کرنے ہی کو روحانیت کہتے ہیں اور اس میں وہی اللہ کے بندے کام آسکتے ہیں جو اپنی تشہیر سے بے نیاز ہوں۔ رومی نے کہا ہے: ؎ دستِ ہر نااہل بیمارت کند پیشِ مادر آ کہ تیمارت کند نااہل تجھے اور بیمار کردیں گے۔ تیری تیمار داری صرف ماں کرسکتی ہے۔ روحانیت کے سارے سر چشمے ذات اقدسؐ سے پھوٹتے ہیں۔ اللہ کے بندو! ان دکانداروں سے ہوشیار رہو جو گلی گلی پھر کر منجی پیڑھی ٹھکا لو کی آوازیں لگا رہے ہیں!