ڈاکٹر سے میں نے ایک ہی سوال کیا۔’’ تم پاکستان واپس کیوں نہیں آتے ؟ کیا اس ملک کا تم پر کوئی حق نہیں ؟‘‘ ’’ اس سوال پر ہنسوں یا روئوں؟‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا ’’ کئی دانشور پوچھ چکے ہیں اور جب اس کا سوال جواب دیتا ہوں تو موضوع کا رُخ تبدیل کردیتے ہیں یا منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔‘‘ ’’یہ درست ہے کہ مجھے ڈاکٹر بنانے پر قوم نے اپنے وسائل خرچ کیے لیکن ڈاکٹر بنانے کے بعد قوم جو سلوک کرتی ہے اسے کوئی نہیں دیکھتا۔ ڈاکٹر بن گیا۔ اس کے بعد کئی سال تک ڈگری بغل میں دباکر جوتے چٹخاتا رہا۔ جب بھی کسی سرکاری ہسپتال میں کوئی اسامی نکلتی۔انٹرویو دیتا اور کبھی وجہ نہ بتائی جاتی کہ میری تعیناتی کیوں نہیں ہوسکتی تھی۔ جو ڈاکٹر نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے، بتاتے ہیں کہ یہاں ڈگری اصل ڈگری نہیں ہے۔ اصل ڈگری یہ ہے کہ تمہاری سفارش ہو اور وہ بھی تگڑی۔ چھوٹی موٹی سفارش کو تو تعیناتی کرنے والی اتھارٹی مانتی ہی نہیں۔ پھر میں ایک نجی ہسپتال میں کام کرنے لگ گیا جہاں پہلے تین ہزار اور پھر پانچ ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے ۔وہ سلوک اس پر مستزاد تھا جو روا رکھا جاتا تھا اور جو ناگفتنی ہے! خدا خدا کرکے سرکاری نوکری ملی لیکن اس دن میری عزت کے پرخچے اڑ گئے جس دن ڈپٹی کمشنر کی ماں بیمار تھی اور مجھے اس کے محل میں طلب کیاگیا۔ جس طرح وہ پیش آیا، اس میں میرے لیے واضح پیغام تھا کہ ٹیکنو کریٹ کی اس ملک میں کبھی کوئی عزت نہیں ہوگی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ڈپٹی کمشنر فیوڈل لارڈ ہے اورمیں ،ڈاکٹر ،اس کا مزارع ‘‘۔ ’’ پھر میں باہر چلاگیا اور سرجن بن گیا۔ حب الوطنی کا سودا سر میں تھا۔واپس آیا۔ اب معلوم ہوا کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کا مافیا کس طرح کام کرتا ہے۔ سرجن کے پاس آپریشن کا کیس اس وقت آئے گا جب کوئی ڈاکٹر یعنی فزیشن مریض کو سرجن کے پاس ریفر کرے گا۔ یہاں ہر شخص حصہ مانگتا تھا۔ ریفر کرنے والا، آپریشن کرنے والے سے حصہ مانگتا تھا اور آپریشن کرنے والا لیبارٹریوں سے بھتہ مانگتا تھا۔ یہ درست ہے کہ یہ مافیا ڈاکٹروں ہی پر مشتمل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب حکومت کو معلوم ہے کہ کون سا ڈاکٹر بددیانت ہے اور کون ایماندار، تو آخر بددیانت ڈاکٹروں کی سرپرستی کیوں کی جاتی ہے؟ انہیں مشہور ہسپتالوں اور معروف اداروں میں کیوں تعینات کیاجاتا ہے؟‘‘ یہ ایک چشم کشا داستان تھی! پھر ڈاکٹروں کے اغوا شروع ہوگئے۔ کراچی میں ڈاکٹروں کو چُن چُن کر مارا گیا۔پشاور سے ڈاکٹروں کو پکڑ پکڑ کر علاقہ غیر میں لے جایاگیا جہاں وہ غلاموں کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ داستان سنانے والا ڈاکٹر خوف زدہ ہوکر ملک چھوڑ گیا۔ اب وہ ایک ترقی یافتہ ملک میں رہتا ہے۔ اس ایشیائی کے گھر میں ہفتے میں دوبار جو عورت گھر کی صفائی کرنے آتی ہے وہ سفید فام ہے۔ ما ں آئرلینڈ سے تھی اور باپ اطالوی تھا۔ پورے گھر سے گرد جھاڑتی ہے ،بیت الخلاء صاف کرتی ہے، کچن دھوتی ہے اور گھر کو چمکاتی ہے۔ ڈاکٹر کے گھر میں اس کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے جو نینی آتی ہے وہ بھی سفیدفام ہے۔وہ بچوں کے ارد گرد منڈلاتی رہتی ہے ،کبھی کوشش کرتی ہے کہ وہ کچھ پڑھ لیں اور کبھی انہیں کچھ کھلا رہی ہوتی ہے! ساری دنیا میں ٹیکنو کریٹ کی اہمیت دوچند بلکہ کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب مغربی دنیا میں سفید فام تاجروں ، زمینداروں اور حکمرانوں کے گھروں میں ایشیائی اور افریقی ملازمتیں کرتے تھے۔ برتن دھوتے تھے ، جھاڑو دیتے تھے اور کھانے پکاتے تھے۔ وہ زمانہ لدگیا، اب اہمیت اس کی ہے جو ڈاکٹر ہے ، انجینئر ہے، کمپیوٹر کا ماہر ہے ، لیکن افسوس! وہ زمانہ پاکستان میں بدستور موجود ہے۔ یہاں ٹیکنو کریٹ کی اہمیت آج بھی وہی ہے جتنی سو سال پہلے تھی۔ یہاں آج بھی بادشاہی فیوڈل لارڈ کی ہے اور ڈپٹی کمشنر کی یا ڈی سی او کی ہے۔ صوبے کا سیکرٹری صحت آج بھی لارڈ کلائیو سے کم نہیں۔ چاہے تو گھوڑے پر لکڑیاں لادنے کا حکم دے دے اور چاہے تو گدھے پر زین کس کر سنہری لگام پہنا دے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں کس ڈاکٹر نے شرکت کرنی ہے اس کا فیصلہ وہ سیکشن افسر ، وہ ڈپٹی سیکرٹری اور وہ سیکرٹری کرتا ہے، جسے میڈیکل کی اور میڈیکل کانفرنسوں کی الف ب سے بھی شناسائی نہیں! وفاقی سیکرٹری صحت کی تو بات ہی کیا ہے ۔ وہ تو بادشاہوں کا بادشاہ اور شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے ۔ آپ پاکستان میں بیورو کریسی کی دھاندلی اور جہالت کا اندازہ اس ایک بات سے لگاسکتے ہیں کہ پوری مہذب دنیا میں ادویات جنرک ناموں سے تجویز کی جاتی ہیں مگر پاکستان میں کمپنیوں کے برانڈ نام چلتے ہیں۔ جو کمپنی محکمہ صحت کے اہلکاروں ، کارپردازوں اور اعلیٰ عہدیداروں کے منہ میں ہڈی ڈالتی ہے اس کی بنائی ہوئی ادویات اس کے اپنے ناموں سے چلتی ہیں۔یادش بخیر جنرل پرویز مشرف نے اپنے ایک پسندیدہ نوکرشاہی کے رکن کو جو سالہا سال وفاقی سیکرٹری انفارمیشن رہا ، صحت کا وفاقی سیکرٹری بھی بنائے رکھا ،حالانکہ اس کی اس شعبے سے واقفیت اتنی ہی تھی جتنی پرویز مشرف کی رموزِمملکت سے تھی! پاکستان میں ٹیکنو کریٹس کا مستقبل بالعموم اور ڈاکٹروں کا بالخصوص ’’روشن اور تابناک ‘‘ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال ان کی کھال اتار کر اس سے روپیہ بناتے ہیں اور مزید برانچیں کھولتے ہیں۔سرکاری ہسپتال ان سے سفارش کی بنیاد پر وہ سلوک کرتے ہیں جو مناسب ہوتا ہے۔تخصص (Specialization) کرلیں تو ایک اور مافیا ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگتا ہے اور جب مسلسل محنت سے ، زندگی بھر کام کرکرکے چند پیسے کما لیں اور آرام دہ زندگی گزارنے کے قابل ہوجائیں تو اغوا کرلیے جاتے ہیں ۔ گویا پانچوں گھی میں اور سرکڑھائی میں ! آپ اگر اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانے کا سوچ رہے ہیں تو یہ سارا نفع نقصان اچھی طرح سمجھ لیں ۔اگر آپ کا بچہ ڈاکٹر بن چکا ہے تو آپ سے ہمدردی ہی کی جاسکتی ہے ! آپ عقل مند ہوتے تو اسے اسلحہ چلانا سکھاتے!